جمعرات 20 جمادی اولی 1446 - 21 نومبر 2024
اردو

مدت حضانت کب ختم ہوتی ہے اور اس کے بعد بچوں کے اخراجات کس کے ذمہ ہوں گے؟

سوال

کسی لڑکے یا بچے کو کتنی عمر تک حضانت کی ضرورت ہوتی ہے؟ کیا شیر خوار بچہ اپنی والدہ کے ساتھ رہ سکتا ہے چاہے والدہ آگے شادی کر لے؟ اور کیا مدت حضانت ختم ہونے کے بعد بھی والدہ پر لازم ہے کہ اپنے بچوں کی مالی کفالت کرے؟ ان کے لیے گھر خریدے اور اخراجات برداشت کرے؟ اور اگر بیٹی ہو تو پھر کیا کرنا ہو گا؟ مدت حضانت ختم ہونے کے بعد شادی تک اس کی ذمہ داری کون اٹھائے گا؟

جواب کا متن

الحمد للہ.

اول:

اگر نکاح قائم ہو تو بچے کی پرورش اور حضانت کا حق میاں اور بیوی دونوں کا ہے ۔

اور اگر طلاق ہو جائے تو ماں حضانت کی زیادہ حق دار ہے۔

مالکی فقیہ علامہ عدوی "شرح الخرشي" (4/207) پر اپنے حاشیے میں لکھتے ہیں کہ:
" حق حضانت بچے کی ماں کو حاصل تب ہو گا جب اسے طلاق ہو گئی ہو یا اس کا خاوند فوت ہو چکا ہو۔ لیکن اگر دونوں کا نکاح باقی ہو تو پھر حق حضانت دونوں میں مشترکہ ہو گا۔" ختم شد
اسی طرح " الموسوعة الفقهية (17/ 301) میں ہے کہ:
"بچے کی پرورش کی ذمہ داری والدین کے ذمہ ہے اگر دونوں کا نکاح باقی ہو، اور اگر دونوں میں جدائی ہو جائے تو پھر حضانت کا حق متفقہ طور پر بچے کی ماں کا ہو گا۔" ختم شد

دوم:
والدہ جب تک شادی نہ کرے تو سات سال کی عمر تک بچے کی حضانت کی حقدار ہے، اس کی دلیل مسند احمد: (6707) اور سنن ابو داود: (2276) میں سیدنا عبد اللہ بن عمرو رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ: "ایک عورت نے عرض کیا: اللہ کے رسول! میرے اس بیٹے کے لیے میرا پیٹ ہی آماجگاہ تھا، میری چھاتی سے اس نے دودھ پیا، اور میری گود میں پلا بڑھا، اور اب اس کے والد نے مجھے طلاق دے دی ہے اور وہ چاہتا ہے کہ مجھ سے میرا بیٹا چھین لے! تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے اسے فرمایا: (جب تک تم نکاح نہیں کر لیتی اس وقت تک تم اس کی پرورش کی زیادہ حقدار ہو)" اس حدیث کو البانیؒ نے صحیح ابو داود میں حسن قرار دیا ہے۔

جب شادی ہو جائے تو پھر حق حضانت اس عورت کے بعد والی خاتون کی طرف منتقل ہو جائے گا۔

لیکن یہ کون سی خاتون ہو گی ؟ اس بارے میں فقہائے کرام کا اختلاف ہے:

کچھ اہل علم کہتے ہیں کہ یہ نانی ہو گی، یہی موقف چاروں فقہی مذاہب کے جمہور اہل علم کا ہے۔

جبکہ کچھ یہ سمجھتے ہیں کہ حضانت والد کی طرف منتقل ہو جائے گی ، یہ موقف شیخ الاسلام ابن تیمیہ اور ابن قیم رحمہما اللہ کا ہے۔

مزید کے لیے دیکھیں: "الموسوعة الفقهية" (17/ 302)، "الشرح الممتع" (13/ 535)

چنانچہ اگر ہم یہ کہیں کہ حضانت بچے کے والد کی طرف منتقل ہو جائے گی اور والد اس بات کی اجازت دے کہ وہ اپنی شادی کرنے والی ماں کے ساتھ رہ سکتا ہے، اور عورت اپنے بچے کی پرورش کر بھی سکتی ہو ، نیز اس کا دوسرا خاوند اس چیز کی اجازت بھی دے تو پھر اس میں کوئی حرج نہیں ہے۔

اسی طرح نانی بھی اپنے حق حضانت سے شادی کرنے والی اپنی بیٹی کے حق میں دستبردار ہو سکتی ہے۔

شیخ ابن عثیمین رحمہ اللہ کہتے ہیں:
"حق حضانت ، پرورش کرنے والے کا حق ہے، اس پر فرض نہیں ہے۔ لہذا اگر کوئی حقدار اپنے حق سے کسی کے لیے دستبردار ہو رہا ہے تو دستبرداری اس کے لیے جائز ہے۔" ختم شد
ماخوذ از: الشرح الممتع (13/536)

سوم:
اگر عورت شادی بھی نہ کرے اور بچہ سات سال سے بھی بڑا ہو جائے تو:

1-اگر بچہ لڑکا ہے تو بچے کو والد اور والدہ میں سے کسی ایک کے ساتھ رہنے کا اختیار دیا جائے گا، تو بچہ جس کے پاس چاہے رہے، اس کی دلیل سنن نسائی: (3496) اور ابو داود: (2277) میں سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ : "میں نے ایک عورت کو سنا وہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم کے پاس آئی اس وقت میں آپ صلی اللہ علیہ و سلم کے قریب ہی بیٹھا ہوا تھا، عورت نے کہا: اللہ کے رسول! میرا خاوند چاہتا ہے کہ میرے بیٹے کو اپنے ساتھ لے جائے، حالانکہ میرا بیٹا اب مجھے ابو عِنَبَہ کے کنویں سے پانی بھر کر لا دیتا ہے اور میری خدمت کرنے لگا ہے!
تو آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا: (تم دونوں قرعہ اندازی کر لو)
تو اس کے خاوند نے کہا: میرے بیٹے کو مجھ سے کون چھین سکتا ہے؟
تو نبی صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا: (بیٹا! یہ آپ کے والد ہیں، اور یہ آپ کی والدہ ہیں، تم جس کا چاہو ہاتھ تھام لو!)
تو لڑکے نے اپنی والدہ کا ہاتھ تھام لیا، پھر والدہ اپنے بیٹے کو لے کر چلتی بنی۔"
اس حدیث کو البانی نے صحیح ابو داود میں صحیح قرار دیا ہے۔
اور اسی موقف کے حنبلی اور شافعی فقہائے کرام قائل ہیں۔

2-اور اگر بچی ہے تب بھی امام شافعی رحمہ اللہ کے نزدیک اسے اختیار دیا جائے گا۔

امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ کہتے ہیں: شادی ہونے تک یا حیض آنے تک اس کی حضانت کی والدہ حق دار ہے۔

امام مالک رحمہ اللہ کہتے ہیں: بیٹی کی شادی ہونے سے لے کر خاوند کے ساتھ خلوت ہونے تک ماں حضانت کی حقدار ہے ۔

امام احمد رحمہ اللہ کہتے ہیں: والد اس بچی کی حضانت کا زیادہ حقدار ہے؛ کیونکہ والد بچی کی حفاظت زیادہ کر سکتا ہے۔

دیکھیں: "الموسوعة الفقهية" (17/ 314- 317)

چہارم:
مدت حضانت بالغ ہونے اور سمجھدار ہونے پر ختم ہو جاتی ہے، پھر اس وقت بچہ والدین میں سے جس کے ساتھ رہنا چاہے رہ سکتا ہے، اور اگر لڑکا ہے تو وہ دونوں سے الگ تھلگ بھی رہ سکتا ہے۔

ابن قدامہ رحمہ اللہ "المغنی" (8/ 191)میں کہتے ہیں:
"حضانت صرف چھوٹے بچے یا معذور کی ہو گی، سمجھدار اور بالغ کی کوئی حضانت نہیں ہے، چنانچہ سمجھدار اور بالغ بچے کو والدین میں سے جس کے پاس چاہے رہنے کا اختیار ہو گا۔

اگر وہ بڑا آدمی بن گیا ہے تو پھر وہ دونوں سے الگ تھلگ تنہا بھی رہ سکتا ہے؛ کیونکہ اب اسے اپنے والدین کی سرپرستی کی ضرورت نہیں ہے، تاہم مستحب یہی ہے کہ دونوں سے الگ تھلگ نہ رہے، اور نہ ہی اپنے والدین کی خدمت سے پہلو تہی اختیار کرے۔

اگر وہ لڑکی ہے تو پھر وہ اکیلی نہیں رہ سکتی، لڑکی کا والد تنہا رہنے سے روک سکتا ہے؛ کیونکہ ایسا ممکن ہے کہ کوئی اجنبی اس تک رسائی پا کر اسے تنگ کرے، جس کے نتیجے میں لڑکی اور لڑکی کے رشتہ داروں کو طعنوں کا نشانہ بننا پڑے گا۔ اور اگر لڑکی کا والد نہ ہو تو لڑکی کے دیگر ولی اور گھر والے تنہا رہنے سے روکنے کا اختیار رکھتے ہیں۔" ختم شد

پنجم:
بچوں کی حضانت کے دوران ان کے اخراجات والد کے ذمے ہوں گے۔

چنانچہ بچے کے بالغ اور سمجھدار ہونے کی صورت میں حق حضانت ختم ہونے پر اخراجات کس کے ذمہ ہوں گے؟ اس حوالے سے فقہائے کرام کے مختلف اقوال ہیں:

چنانچہ بالغ بیٹا اگر فقیر ہے تو اس کے اخراجات مالدار والد کے ذمہ ہیں، اگر والد نہ ہو تو پھر مالدار والدہ کے ذمہ ہیں چاہے بچہ صحت مند ہو یا معذور ہو یہ حنبلی فقہائے کرام کا موقف ہے، جبکہ شافعی فقہائے کرام معذوری یا بیماری کی صورت میں اخراجات والد یا والدہ پر لازم قرار دیتے ہیں۔

جیسے کہ "الإنصاف" (9/ 289) میں ہے کہ:
"مصنف نے اولاد کا ذکر کیا ہے تو اس اولاد میں پوتے، پڑپوتے بھی شامل ہوں گے چاہے کتنے ہی نیچے ہوں، نیز ان میں بالغ صحت مند اور طاقتور اولاد اگر غریب ہو تو وہ بھی شامل ہیں۔ یہی موقف صحیح ہے، اور یہ شافعی فقہی مذہب کا منفرد موقف ہے۔" ختم شد

ابن قدامہ رحمہ اللہ "المغنی" (9/ 258)میں نفقہ واجب ہونے کے اسباب ذکر کرتے ہوئے کہتے ہیں:
"امام شافعی کہتے ہیں: اولاد کے اخراجات واجب ہونے کے لیے ان کا نابالغ ہونا یا مجنون ہونا ، یا جسمانی طور پر معذور ہونا شرط ہے۔ جبکہ ابو حنیفہ رحمہ اللہ کہتے ہیں: بچے کے بالغ ہونے تک اخراجات برداشت کیے جائیں گے، چنانچہ جب بچہ بالغ ہو جائے تو اس پر خرچ کرنا لازم نہیں رہے گا۔ تاہم لڑکی کا نفقہ شادی ہونے تک جاری رہے گا۔

یہی موقف امام مالک کا ہے، تاہم انہوں نے یہ بھی کہا ہے کہ بیٹیوں کے اخراجات شادی اور پھر خاوند کے ساتھ خلوت تک جاری رہیں گے۔ خلوت کے بعد اب ان کے لیے کوئی نفقہ نہیں ہو گا چاہے انہیں طلاق بھی ہو جائے، تاہم اگر انہیں خلوت سے پہلے طلاق ہو گئی تو پھر ان کا نفقہ جاری رہے گا۔

ہماری دلیل نبی صلی اللہ علیہ و سلم کا ہند کے لیے فرمان ہے کہ: (تم اپنے لیے اور اپنی اولاد کے لیے عرف کے مطابق خرچہ لے لو) تو یہاں آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے بالغ اور صحت مند اولاد کو مستثنی نہیں فرمایا، ویسے بھی یہ مالی طور پر کمزور اولاد ہے اس لیے مالدار والد پر نفقہ اس کا حق بالکل اسی طرح جیسے دائمی مریض یا نابینا اولاد کا والد پر ہوتا ہے۔" ختم شد

یہاں سے یہ بھی معلوم ہوا کہ جب تک اولاد کا والد موجود ہے اس وقت تک عورت پر یہ لازم نہیں ہے کہ اپنی اولاد کا خرچہ مدت حضانت ختم ہونے کے بعد بھی اٹھائے، اس لیے عورت پر یہ لازم نہیں ہے کہ اولاد کے لیے گھر خریدے یا دیگر ضروریات زندگی خرید کر دے، اور بیٹی کے اخراجات شادی ہونے تک والد کے ذمے ہیں۔

واللہ اعلم

ماخذ: الاسلام سوال و جواب