اتوار 21 جمادی ثانیہ 1446 - 22 دسمبر 2024
اردو

عید کی قربانی کے دلائل وجوب پر دلالت کرتے ہیں یا استحباب پر؟

سوال

میں نے آپ کی ویب سائٹ پر فتوی پڑھا ہے جس میں ہے کہ عید کی قربانی سنت ہے، لیکن آپ کی ویب سائٹ پر ایسی کوئی دلیل موجود نہیں ہے جو اس رائے کی تائید کرے، تو برائے مہربانی کیا آپ ایسے دلائل پیش کر سکتے ہیں جن سے معلوم ہو کہ عید کی قربانی سنت ہے، واجب نہیں ہے، نیز اس حدیث کا کیا مطلب ہو گا جس میں ہے کہ: "جس کے پاس استطاعت ہو اور وہ عید کی قربانی نہ کرے تو وہ ہماری عید گاہ میں نہ آئے" ابن ماجہ: حدیث نمبر: (3123)

جواب کا خلاصہ

خلاصہ: یہ ہے کہ قربانی کے واجب ہونے یا نہ ہونے میں اہل علم کا اختلاف ہے اور یہ معتبر قسم کا اختلاف ہے، ہمارے ہاں قربانی کے مستحب ہونے کا موقف راجح ہے۔ ورع اور تقوی کا راستہ اپنانے والا صاحب استطاعت شخص قربانی ترک نہیں کرتا، تو یہ زیادہ محتاط عمل ہے، اور عہدہ برآ ہونے کیلیے بہتر بھی ہے، جیسے کہ ہم شیخ ابن عثیمین رحمہ اللہ سے نقل کر آئے ہیں۔ اگر کوئی شخص اس بارے میں مزید مطالعہ کرنا چاہتا ہے تو وہ شیخ ابن عثیمین کی کتاب: " أحكام الأضحية والذكاة " اور اسی طرح حسام الدین عفانہ کی کتاب: "المفصل في أحكام الأضحية " کا مطالعہ کرے، دونوں کتابوں کے مصنفین نے انتہائی آسان پیرائے میں اس مسئلے پر گفتگو کی ہے۔

جواب کا متن

الحمد للہ.

اول:

اس مسئلے میں اہل علم کے مابین مشہور اختلاف  ہے، اکثر علمائے کرام عید کے دن قربانی کو مسنون کہتے ہیں واجب ہونے کے قائل نہیں ہیں۔

جبکہ حنفی اور امام احمد سے ایک روایت کے مطابق یہ ہے کہ جو صاحب استطاعت ہو اس پر قربانی کرنا واجب ہے، شیخ الاسلام ابن تیمیہ نے بھی اسی موقف کو اپنایا ہے۔

چنانچہ ابن قدامہ رحمہ اللہ کہتے ہیں:
"اکثر اہل علم  یہ سمجھتے ہیں کہ عید کے دن کی قربانی سنت مؤکدہ ہے واجب نہیں ہے۔

یہ موقف ابو بکر، عمر، بلال، ابو مسعود بدری، رضی اللہ عنہم جمیعاً سے منقول ہے، یہ موقف سوید بن غفلہ، سعید بن مسیب، علقمہ، اسود، عطاء، شافعی، اسحاق، ابو ثور اور ابن المنذر سے منقول ہے۔ جبکہ ربیعہ، مالک، ثوری، اوزاعی، لیث اور ابو حنیفہ  اس چیز کے قائل ہیں کہ عید کی قربانی واجب ہے، اس کی دلیل ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی حدیث ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا: (جس کے پاس استطاعت ہو اور وہ عید کی قربانی نہ کرے تو وہ ہماری عید گاہ میں نہ آئے) اسی طرح مخنف بن سلیم کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا: (لوگو! ہر گھر والوں پر ہر سال میں عید کی قربانی اور عتیرہ  ہے)

اور ہماری دلیل یہ ہے کہ امام دارقطنی نے اپنی سند سے سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہ سے روایت کی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا: (تین چیزیں مجھ پر فرض لکھ دی گئی ہیں اور وہ تمہارے لیے نفل ہیں: وتر، قربانی، اور فجر کی سنتیں)

نیز ایک اور حدیث میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کا فرمان ہے کہ: (جو شخص عید کی قربانی کرنا چاہے اور عشرہ ذوالحجہ شروع ہو جائے تو وہ اپنے بالوں اور جلد  کا کوئی حصہ نہ کاٹے) اس حدیث کو مسلم نے روایت کیا ہے۔ تو اس حدیث میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے قربانی کو انسان کے ارادے سے منسلک فرمایا ہے، جبکہ واجب عمل ارادے سے منسلک نہیں کیا جاتا" ختم شد
" المغني " (11/95)

دوم:

ہر فریق کے علمائے کرام نے متعدد دلائل پیش کئے ہیں، لیکن وہ سب کے سب  سند کے اعتبار سے محل نظر ہیں، یا پھر ان دلائل سے استدلال صحیح نہیں بنتا، ہم اس بارے میں صرف اہم ترین مرفوع روایات پر گفتگو کریں گے۔

قربانی کو واجب کہنے والوں کی پہلی دلیل  یہ ہے:
سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا: (جس کے پاس استطاعت ہو اور وہ عید کی قربانی نہ کرے تو وہ ہماری عید گاہ میں نہ آئے)  ابن ماجہ: (3123)

اس حدیث کو متعدد محدثین نے مرفوعا قبول نہیں کیا، بلکہ اس پر یہ حکم لگایا ہے کہ یہ ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کا اپنا قول ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کا فرمان نہیں ہے۔

جیسے کہ بیہقی رحمہ اللہ سنن الکبری : (9/260) میں کہتے ہیں:
"مجھے یہ بات پہنچی ہے کہ ابو عیسی ترمذی نے  کہا ہے کہ صحیح بات یہ ہے کہ یہ ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے موقوفا صحیح ثابت ہے، انہوں نے مزید کہا کہ: جعفر بن ربیعہ اور دیگر نے اس روایت کو عبد الرحمن اعرج کے واسطے سے ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے موقوفا روایت کیا ہے۔" ختم شد

نیز حافظ ابن حجر رحمہ اللہ کہتے ہیں کہ:
"اس حدیث کو ابن ماجہ اور احمد  نے روایت کیا ہے اور اس کے راوی ثقہ ہیں، لیکن اس حدیث کے مرفوع یا موقوف ہونے میں اختلاف ہے، البتہ موقوف  ہونا زیادہ بہتر ہے، اس کے موقوف ہونے کو طحاوی وغیرہ نے  صحیح قرار دیا ہے، نیز [اگر مرفوعا ثابت بھی ہو تو] یہ وجوب قربانی کیلیے صریح بھی نہیں ہے" ختم شد
"فتح الباری" (12/98)

دوسری  حدیث:

یہ حدیث ابو رملہ،  مخنف بن سلیم سے مرفوعا مروی ہے کہ: (لوگو! ہر گھر والوں پر ہر سال میں عید کی قربانی اور عتیرہ  ہے)
اس حدیث کو ابو داود: (2788)، ترمذی: (1596)، اور ابن ماجہ: (3125) نے روایت کیا ہے۔

عتیرہ: ماہ رجب میں ذبح کئے جانے والے ذبیحے کو کہتے ہیں اور اس کو رجبیہ بھی کہا جاتا تھا۔

اس حدیث کو بھی متعدد اہل علم نے ضعیف قرار دیا ہے؛ کیونکہ اس میں ابو رملہ  مجہول الحال راوی ہے، اس کا نام عامر ہے۔

جیسے کہ خطابی رحمہ اللہ کہتے ہیں:
"اس حدیث کا ماخذ ضعیف  ہے،  اور ابو رملہ  مجہول ہے" ختم شد
" معالم السنن " (2/226)

اسی طرح امام زیلعی  رحمہ اللہ کہتے ہیں:
"امام عبد الحق  کہتے ہیں کہ اس کی سند ضعیف ہے۔  ابن قطان کہتے ہیں کہ اس کے ضعیف ہونے کی وجہ ابو رملہ کی جہالت ہے، اس کا نام عامر ہے، اس کی صرف یہی ایک روایت ہے اور اس میں  ابن عون اس سے روایت کرتا ہے۔" ختم شد
" نصب الراية " (4/211)

جبکہ عید کی قربانی کو مستحب کرنے والے اہل علم نے بھی متعدد مرفوع احادیث کو دلیل بنایا ہے، ان میں اہم ترین وہی دو حدیثیں ہیں جنہیں ابن قدامہ کے قول میں ہم پہلے ذکر کر آئے ہیں۔

ان میں پہلی حدیث:

سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا: (تین چیزیں مجھ پر فرض لکھ دی گئی ہیں اور وہ تمہارے لیے نفل ہیں: وتر، قربانی، اور اشراق کی نماز) اس حدیث کو احمد: (2050) اور بیہقی : (2/467) نے روایت کیا ہے۔

اس حدیث کو بھی متعدد متقدم اور متاخر اہل علم نے ضعیف قرار دیا ہے، چنانچہ ابن حجر رحمہ اللہ کہتے ہیں:
"اس حدیث کا مرکزی راوی ابو جناب کلبی ہے جو کہ عکرمہ سے بیان کرتا ہے، ابو جناب  ضعیف راوی ہے بلکہ  مدلس بھی ہے اور عکرمہ سے بیان کرتے ہوئے "عن" سے روایت کر رہا ہے۔

متعدد اہل علم نے اس حدیث کو ضعیف قرار دیا ہے، جیسے کہ امام احمد، بیہقی، ابن الصلاح، ابن جوزی، نووی اور دیگر اہل علم" ختم شد
" التلخيص الحبير " (2/45) ، مزید (2/258) پر بھی دیکھیں۔

دوسری حدیث:

ام سلمہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا: (جو شخص عید کی قربانی کرنا چاہتا ہے اور عشرہ ذوالحجہ شروع ہو جائے تو اپنے بالوں اور جلد  کا کوئی حصہ نہ کاٹے) مسلم: (1977)

امام شافعی رحمہ اللہ اس حدیث کے بارے میں کہتے ہیں:
"یہ حدیث اس بات کی دلیل ہے کہ عید کی قربانی واجب نہیں ہے؛ کیونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے چاہنے کا لفظ بولا ہے، یعنی قربانی کا معاملہ بندے کی چاہت کے ساتھ منسلک کر دیا ہے، اگر قربانی واجب ہوتی تو آپ صلی اللہ علیہ و سلم فرماتے: قربانی کرنے تک اپنے بال مت کاٹے" ختم شد
"المجموع" (8/386)

لیکن امام شافعی رحمہ اللہ کا یہ استدلال محل نظر ہے؛ کیونکہ کسی بھی کام کو بندے کی چاہت سے منسلک کرنا اس بات کی دلیل نہیں ہوتا کہ وہ کام واجب نہیں ہے۔

چنانچہ شیخ ابن عثیمین رحمہ اللہ کہتے ہیں:
"میں یہ سمجھتا ہوں کہ اگر وجوب کی دلیل موجود ہو تو بندے کے ارادے کے ساتھ کسی چیز کو منسلک کرنے سے عدم وجوب  کشید نہیں ہوتا، جیسے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کا میقات کے حوالے سے فرمان ہے: (یہ ان کیلیے جو ان مقامات پر باہر سے آئے اور وہ حج اور عمرہ کرنے کا ارادہ رکھتا ہو) تو یہاں پر ارادہ بولنے کے باوجود بھی حج اور عمرہ کے وجوب  کو ختم نہیں کیا گیا؛ کیونکہ ایک اور دلیل حج اور عمرے کے وجوب کی موجود ہے۔۔۔  تو عید کی قربانی جس کے پاس استطاعت نہیں ہے اس پر واجب نہیں ہے وہ قربانی کا ارادہ بھی نہیں رکھتا، اس لحاظ سے قربانی کے حکم  کے متعلق لوگوں کو استطاعت اور عدم استطاعت کے اعتبار سے دو حصوں میں تقسیم کرنا صحیح ہے، قربانی کا ارادہ رکھنے والا اور نہ رکھنے " ختم شد
" أحكام الأضحية والذكاة " (ص47)

تو حاصل کلام یہ ہوا کہ:

عید کی قربانی فرض قرار دینے  والی احادیث پر اہل علم کا کلام موجود ہے، اگرچہ کچھ اہل علم نے انہیں حسن قرار دیا ہے۔

اور اسی طرح جن احادیث میں  قربانی کو مستحب قرار دیا گیا ہے ان پر بھی کلام ہے، بلکہ ان کی اسانید شدید نوعیت کی ضعیف ہیں۔

اسی لیے شیخ ابن عثیمین رحمہ اللہ  اپنے مفصل رسالے " أحكام الأضحية والذكاة "  میں کہتے ہیں :
"ہم نے اہل علم کی قربانی کے حوالے سے آراء  کو   دلائل کے ساتھ ذکر کر دیا ہے تا کہ دین اسلام میں قربانی کی اہمیت واضح ہو، دو طرفہ دلائل ایسے ہیں کہ قوت میں قریب قریب  محسوس ہوتے ہیں، تو احتیاط کا تقاضا یہی ہے کہ استطاعت کے ہوتے ہوئے قربانی ترک نہیں کرنی چاہیے؛ کیونکہ قربانی سے عظمت الہی کا اظہار ہوتا ہے اور یقینی طور پر انسان اس سے عہدہ برآ ہو جاتا ہے۔" ختم شد

سوم:

مزید دو امور ایسے  ہیں جو قربانی کے عدم وجوب کو تقویت دیتے ہیں

اول: براءت اصلیہ،  چنانچہ جب تک کوئی ایسی دلیل نہیں آ جاتی جو اعتراضات سے خالی نہ ہو تو اس وقت تک اصل یہی ہے کہ قربانی واجب نہیں ہو گی۔

شیخ ابن باز رحمہ اللہ کہتے ہیں:
"قربانی کا حکم یہ ہے کہ استطاعت کے ہوتے ہوئے بھی سنت ہے، واجب نہیں ہے؛ کیونکہ نبی صلی اللہ علیہ و سلم نے دو چتکبرے مینڈھے قربان کیے اور اسی طرح صحابہ کرام بھی آپ صلی اللہ علیہ و سلم کی زندگی میں قربانی کرتے رہے، آپ کی وفات کے بعد دیگر مسلمان بھی قربانی کرتے چلے آئے ہیں، لیکن شریعت میں ایسی کوئی دلیل نہیں ملی جس سے قربانی کا وجوب ثابت ہو، لہذا قربانی کو واجب کہنے کا موقف کمزور موقف ہے" ختم شد
" مجموع فتاوى ابن باز " (18/36)

دوم:

صحابہ کرام سے منقول صحیح آثار:

سیدنا ابو بکر اور عمر رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ وہ عید کی قربانی نہیں کرتے تھے؛ اس لیے کہ لوگ کہیں اسے واجب ہی نہ سمجھ لیں۔

جیسے کہ بیہقی نے  "معرفة السنن والآثار" (14/16) اثر نمبر:  ( 18893 ) میں نقل کیا ہے کہ: 
"ابو سریحہ کہتے ہیں: میں نے ابو بکر اور عمر رضی اللہ عنہما کو پایا ، آپ دونوں میرے پڑوسی تھے، آپ عید کی قربانی نہیں کیا کرتے تھے"

اس اثر کو بیان کرنے کے بعد امام بیہقی رحمہ اللہ کہتے ہیں کہ:
"ہم  کتاب السنن میں روایت بیان کر چکے ہیں کہ سفیان بن سعید  ثوری اپنے والد سے  وہ مطرف  اور  اسماعیل سے وہ دونوں شعبی  سے  اس اثر میں کچھ اضافہ بیان کرتے ہیں  کہ: [ابو بکر عمر اس لیے قربانی نہیں کرتے تھے کہ] کہیں ان کی اقتدا نہ کی جانے لگے"
مزید کیلیے آپ  "السنن الكبرى" (9/444)  کا مطالعہ کریں۔

ایسے ہی امام نووی رحمہ اللہ  " المجموع " (8/383) میں کہتے ہیں کہ:
"ابو بکر اور عمر رضی اللہ عنہما سے منقول اثر کو بیہقی اور دیگر ائمہ نے حسن سند کے ساتھ روایت کیا ہے" ختم شد

اسی طرح ہیثمی رحمہ اللہ کہتے ہیں:
"اس اثر کو طبرانی نے معجم الکبیر میں روایت کیا ہے اور اس کے تمام راوی صحیح بخاری کے راوی ہیں" ختم شد
" مجموع الزوائد " (4/18) ، نیز البانی رحمہ اللہ نے بھی اسے " الإرواء " (4/354) میں صحیح قرار دیا ہے۔

اور بیہقی(9/445)  میں ابو مسعود بدری انصاری رضی اللہ عنہ سے مروی  ہے کہ :
"میں عید قربان کے موقع پر قربانی نہیں کرتا حالانکہ میرے پاس استطاعت بھی ہوتی ہے؛ اس ڈر سے کہ میرے پڑوسی میرے بارے میں یہ نہ سمجھ لیں کہ قربانی مجھ پر فرض ہے"
اس اثر کو بھی البانی نے ارواء الغلیل میں صحیح قرار دیا ہے۔

واللہ اعلم

ماخذ: الاسلام سوال و جواب