اتوار 21 جمادی ثانیہ 1446 - 22 دسمبر 2024
اردو

میقات سے احرام حج کے واجبات میں سے ہے

سوال

میں نے اپنے والد اور والدہ کو فیملی وزٹ کیلیے سعودی عرب بلایا، میرے والدین خرطوم شہر سے مدینہ منورہ شوال میں پہنچے اور یہیں مدینہ میں رہے، پھر ذو القعدہ کے شروع میں مکہ مکرمہ بغیر احرام کے داخل ہوئے، اور میرے دمام سے مکہ پہنچنے تک مکہ میں ہی رہے، پھر میں بھی بغیر احرام کے مکہ پہنچا اور سات ذو الحجہ تک تین دن ایسے ہی رہے، پھر ہم مکہ شہر سے حرم آئے اور حرم سے احرام باندھا اور حج مفرد کی نیت کر کے طواف قدوم کر لیا، پھر ہم نے حج کی سعی کی اور آٹھ ذو الحجہ کو ہم منی کی جانب روانہ ہوئے، وہاں پر صبح ایک بجے تک رہے اور پھر عرفات کی جانب روانہ ہوئے وہاں ہم صبح تین بجے پہنچے ، واضح رہے کہ والد صاحب پاؤں سے معذور ہیں، وہ ویل چیئر کے بغیر نہیں چل سکتے۔ پھر ہم مغرب کے وقت عرفات سے واپسی کیلیے روانہ ہوئے، ہم مزدلفہ کی مسجد میں رات 9 بجے کے قریب پہنچے ، پھر صبر 2 بجے ہم مزدلفہ سے منی کی جانب روانہ ہوئے اور صبح منی پہنچ گئے۔
ہم نے صبح 6 بجے جمرہ عقبہ کو کنکریاں ماریں ، والد اور والدہ نے ہدی کی رقم ادا کی میں نے بھی رقم ادا کر دی تھی، پھر ہم نے بال کٹوائے اور احرام کھول دیا۔
دوسرے دن ہم نے صبح 10 بجے تینوں جمرات کو کنکریاں ماریں اور مکہ طواف افاضہ کیلیے روانہ ہو گئے، جبکہ تیسرے دن ہم منی سے صبح 2 بجے روانہ ہوئے ہم نے جمرات کو کنکریاں ماریں ؛ کیونکہ ہم منی سے جلدی جانے والے تھے۔
پھر ہم نے مکہ جا کر طواف وداع کیا اور پھر ہم جدہ چلے گئے، اور جدہ سے اگلے روز دمام روانہ ہو گئے۔
اس پوری تفصیل کے بعد کیا کوئی ایسا رکن ہے جو والد یا والدہ کی طرف سے یا میری طرف سے صحیح ادا نہ ہوا ہو، اگر ہم سے صحیح ادا نہ ہوا ہو تو پھر ہمیں کیا کرنا ہو گا؟

جواب کا متن

الحمد للہ.

چونکہ آپ کے والدین خرطوم سے ہی حج کی نیت سے آئے ہیں اور مدینہ سے مکہ کی جانب انہوں نے سفر بھی اسی نیت کے ساتھ کیا تھا تو اس لیے ان دونوں پر واجب یہ تھا کہ وہ اہل مدینہ کی میقات سے احرام باندھتے، ان کیلیے مکہ سے احرام باندھنا جائز نہیں ۔

اس لیے ان میں سے ہر ایک پر دم لازم آتا ہے جو کہ حرم مکی میں ذبح کر کے حرم کے غریبوں میں تقسیم کیا جائے گا۔

اسی طرح آپ بھی دمام سے حج کی نیت سے آئے اور آپ نے بھی میقات سے احرام نہیں باندھا اس لیے آپ پر بھی آپ کے والدین کی طرح دم لازم آتا ہے۔

جمہور فقہائے کرام یہ کہتے ہیں کہ زوال یعنی ظہر سے پہلے کی ہوئی رمی کافی نہیں ہو گی ؛ کیونکہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے ثابت ہے کہ آپ نے زوال کے بعد رمی کی تھی اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا ہی فرمان ہے کہ:  (مجھ سے حج اور عمرے کا طریقہ سیکھ لو) مسلم: (1297)

چونکہ آپ نے زوال سے قبل رمی کی تھی ، اس لیے رمی کے مخصوص وقت سے پہلے رمی کرنے پر بھی دم لازم آتا ہے۔

 شیخ ابن باز رحمہ اللہ کہتے ہیں:
"دس تاریخ کے علاوہ کسی بھی دن زوال سے پہلے رمی کرنا صحیح نہیں ہے، البتہ عید کے دن یعنی دس تاریخ کو زوال سے قبل رمی کرنے میں کوئی حرج نہیں ہے، چنانچہ ایام تشریق میں زوال سے پہلے رمی کافی نہیں ہو گی؛ کیونکہ یہ شریعت سے متصادم عمل ہے، اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے کہ: (مجھ سے اپنے مناسک سیکھ لو) آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہ کرام نے بھی زوال کے بعد اسی طرح رمی کی تھی ، اور  [یہ مسلمہ اصول ہے کہ ] عبادات توقیفی ہوتی ہیں اس میں رائے کا عمل دخل نہیں ہوتا۔

لہذا اگر کسی نے زوال سے پہلے رمی کر لی ہے تو اس کی رمی صحیح نہیں ہے ، اور اسے واجب ترک کرنے پر دم دینا ہوگا" انتہی
http://www.binbaz.org.sa/noor/10258

مزید کیلیے آپ سوال نمبر: (96095) اور (36436) کا جواب ملاحظہ فرمائیں۔

اس لیے آپ میں سے ہر ایک پر دو دو بکریاں واجب ہیں کیونکہ آپ نے دو واجب ترک کئے ہیں: ایک تو میقات سے احرام نہیں باندھا اور  دوسرا عمل یہ کہ جمرات کو رمی کرنے کے مقررہ شرعی وقت پر  رمی نہیں کی۔

آپ نے ذکر کیا ہے کہ آپ نے ہدی کی رقم جمع کروا دی تھی ، حالانکہ حج مفرد میں ہدی واجب نہیں ہوتی؛ کیونکہ حج مفرد حج قران یا تمتع کی طرح نہیں ہوتا۔

چنانچہ اگر آپ نے اس ہدی کی رقم ادا کرتے ہوئے یہ نیت کی تھی کہ یہ ترک واجب  کے بدلے میں ہے تو پھر آپ پر ایک ایک بکری باقی ہے۔

اور اگر اپ نے ترک واجب کی نیت نہیں کی تھی تو پھر یہ ہدی نفل شمار ہو گی اور آپ میں سے ہر ایک کو دو ، دو بکریاں ذبح کرنی ہوں گی؛ کیونکہ کفارے کی ادائیگی میں نیت شرط ہے، جیسے کہ دیگر تمام عبادات میں شرط ہے۔

نووی رحمہ اللہ کہتے ہیں:
"کفارے میں نیت شرط ہے، اس کیلیے اتنی نیت کرنا کافی ہے کہ  یہ عمل کفارے  کیلیے ہے، یہ شرط نہیں ہے کہ  وجوب کی نیت بھی ساتھ کی جائے؛ کیونکہ کفارہ واجب ہی ہوتا ہے" انتہی
"روضة الطالبين" (8/279)

اسی طرح  ابن نجیم کی کتاب: "الأشباه والنظائر"  کی شرح "غمز عيون البصائر" (1/73)میں ہے کہ:
"کفارے کے صحیح ہونے کیلیے نیت شرط ہے، چاہے  وہ کفارہ غلام آزاد کرنے کی صورت میں ہو یا روزے رکھنے کی شکل میں یا پھر کھانا کھلانے کی صورت میں" انتہی

اسی طرح "الكافي شرح البزدوي" (3/1066) میں ہے کہ:
"کفارے میں عبادت اور عقوبت دونوں چیزیں پائی جاتی ہیں، کوئی بھی کفارہ ان سے خالی نہیں ہوتا۔
عبادت اس اعتبار سے کہ: کفارہ ایسے عمل سے ادا ہوتا ہے جو عبادت ہے، جیسے کہ روزہ ہے، اور عبادت کیلیے نیت بنیادی شرط  ہے۔

کفارہ ایسی صورت میں بھی واجب ہو جاتا ہے جس میں شبہات پائے جاتے ہوں، یا اس لیے بھی کفارہ میں عبادت کا معنی ہے  کہ جس وقت انسان سے غلطی سر زد ہوئی تو اب اس غلطی کو مٹانے کیلیے نیکی کرنا ضروری تھا، نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے: (گناہ کے بعد نیکی کر لو گناہ کو مٹا دے گی)

عقوبت اس اعتبار سے کہ: کفارہ غلطی کے سر زد ہونے کی بنا پر ڈانٹ پلانے کیلیے اور بدلے کے طور پر واجب ہوتا ہے۔۔"

مزید کیلیے آپ  "قواعد الأحكام" ، از : عز ابن عبد السلام (1/178) اور اسی طرح "مقاصد المكلفين"  از اشقر (333) کا مطالعہ بھی فرمائیں۔

واللہ اعلم.

ماخذ: الاسلام سوال و جواب