اتوار 21 جمادی ثانیہ 1446 - 22 دسمبر 2024
اردو

نذر كى اقسام اور اس كے حكم كا خلاصہ

سوال

شريعت اسلاميہ ميں نذر كا حكم كيا ہے ؟

جواب کا متن

الحمد للہ.

سائلہ كے ليے ہم ذيل ميں نذر كے موضوع پر مختصر سا نوٹ پيش كرتے ہيں جو نذر كے بنيادى احكام اور اس كى اقسام پر مشتمل ہے، جو آپ اور دوسرے قارئين كرام كے ليے ان شاء اللہ فائدہ مند ثابت ہو گا:

اصفہانى رحمہ اللہ تعالى " مفردات الفاظ القرآن " ميں لكھتے ہيں:

نذر يہ ہے كہ: آپ كسى كام كے ہونے كى بنا پر وہ چيز واجب اور لازم كر ليں جو آپ پر واجب نہيں تھى.

فرمان بارى تعالى ہے:

يقينا ميں نے اللہ رحمن كے ليے روزے كى نذر مانى ہے مريم ( 26 ) اھـ

ديكھيں: مفردات الفاظ القرآن صفحہ ( 797 ).

لہذ نذر يہ ہے كہ مكلف شخص اپنے آپ پر وہ چيز لازم كرلے جو اس پر لازم نہيں تھى، چاہے وہ منجز ہو يا معلق.

كتاب اللہ ميں نذر كو مدح كى مد ميں بھى بيان كيا گيا ہے:

اللہ سبحانہ وتعالى نے اپنے مومن بندوں كے متعلق فرمايا ہے:

بلا شبہ نيك و صالح لوگ وہ جام پئيں گےجس كى آميزش كافور ہے، جو ايك چشمہ ہے، جس ميں سے اللہ كے بندے نوش كريں گے، اس كى نہريں نكال كر لے جائيں گے ( جدھر چاہيں )، جو نذر پورى كرتے ہيں اور اس دن سے ڈرتے ہيں جس كى برائى چاروں طرف پھيل جانے والى ہے الدھر ( 5 - 7 ).

تو اللہ سبحانہ وتعالى نے ان كا روز قيامت كى ہولناكيوں سے ڈرنا اور نذروں كو پورا كرنا ان كى نجات اور كاميابى اور جنت ميں داخلے كا سبب بنايا ہے.

نذر كا حكم:

مشروع نذر كو پورا كرنا واجب ہے، كيونكہ اللہ سبحانہ وتعالى كا فرمان ہے:

پھر وہ اپنا ميل كچيل دور كريں اور اپنى نذريں پورى كريں الحج ( 29 ).

امام شوكانى رحمہ اللہ تعالى كہتے ہيں:

يہاں امر وجوب كے ليے ہے.

اور كئى ايك احاديث ميں نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم سے نذر ماننے كى كراہت كا بيان ملتا ہے:

ابو ہريرہ رضى اللہ تعالى عنہ بيان كرتے ہيں كہ رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا:

" تم نذريں نہ مانا كرو، كيونكہ نذر تقدير سے كچھ فائدہ نہيں ديتى، بلكہ يہ تو بخيل سے نكالنے كا ايك بہانہ ہے "

صحيح مسلم حديث نمبر ( 3096 ).

اور عبد اللہ بن عمر رضى اللہ تعالى عنہما بيان كرتے ہيں كہ رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے ہميں نذر سے منع كيا اور فرمانے لگے:

" يہ كسى چيز كو دور نہيں ہٹاتى، بلكہ اس سے تو بخيل اور كنجوس سے نكالا جاتا ہے"

صحيح بخارى و صحيح مسلم.

اور اگر كوئى شخص يہ كہے كہ نذر پورى كرنے والوں كى تعريف كرنے كے بعد اس سے منع كيسے كر ديا گيا؟

تو اس كا جواب يہ ہے كہ: جس نذر كى تعريف اور مدح كى گئى ہے وہ اطاعت و فرمانبردارى كى نذر ہے، جو كسى چيز پر معلق نہ ہو جسےانسان سستى و كاہلى كو دور اور اللہ تعالى كى نعمت كا شكر ادا كرنے كے ليے اپنے اوپر محمول كرے.

اور جس نذر سے منع كيا گيا ہے وہ كئى قسم كى نذريں ہيں: جن ميں سے ايك نذر تو وہ ہے جو بطور معاوضہ ہو يعنى نذر ماننے والا اطاعت و فرمانبردارى كو كسى كام كے حصول يا كسى چيز كے دور ہونے پر معلق كرے اس طرح كہ اگر وہ كام نہ ہو تو وہ يہ اطاعت و فرمانبردارى كا كام نہيں كرے گا، اور يہ نذر ماننى ممنوع ہے.

ہو سكتا ہے اسے منع كرنے ميں حكمت يہ ہو كہ:

كہ جب اس پر وہ كام حتمى اور واجب و لازم ہو جائے تو نذر ماننے والا شخص اس اطاعت كے كام كو بوجھ سمجھ كر انجام دے.

جب نذر ماننے والے نے اطاعت كرنے كى نذر اس شرط پر مانى كہ اگر اس كا مطلوبہ كام ہو جائے تو وہ يہ اطاعت كرے گا، تو اس طرح يہ اس كے معاوضہ اور بدلہ ہوا جو اس كام كے كرنے والے كى نيت ميں قدح ہے. كيونكہ اگر اس كے مريض كو شفايابى حاصل نہ ہو تو وہ شفايابى پر معلق كردہ صدقہ نہيں كرے گا، اور يہ بخل كى حالت ميں ہے، كيونكہ وہ اپنے مال سے بغير عوض كے جلد نہيں نكالتا جو اس كے نكالے جانے والے پر غالبا زيادہ كرتا ہو؟

بعض لوگوں كا جاہلى اعتقاد ہوتا ہے كہ نذر مطلوبہ چيز كے حصول كا باعث بنتى ہے، يا يہ كہ اللہ تعالى نذر كے عوض ميں نذر ماننے والے كا مطلوبہ كام پورا كرديتا ہے.

اور بعض جاہل لوگوں كا ايك اور اعتقاد ہے كہ نذر تقدير كو بدلتى ہے، يا انہيں جلد نفع دينے كا باعث بنتى ہے، اور ان سے نقصان اور ضرر كو دور كرتى ہے.

تو اس خدشہ كى بنا پر اس سے منع كرديا كہ كہيں جاہل ايسا ہى اعتقاد نہ ركھنا شروع كرديں، اور اس طرح كے اعتقاد كى خطرناكى پر متنبہ كرنے كےليے اس سے منع كر ديا گيا تا كہ عقيدہ كى سلامتى رہے.

اس نذر كى اقسام جس كو پورا كرنا واجب ہے:

اول:

جس نذر كا پورا كرنا واجب ہے ( وہ اطاعت و فرمانبردارى كى نذر ہے ) ہر وہ نذر ہے جو اللہ تعالى كى اطاعت و فرمانبردارى كى نذر ہومثلا: نماز، روزہ ، عمرہ، حج، صلہ رحمى، اعتكاف، جھاد، امربالمعروف اور نہى عن المنكر:

مثلا كوئى شخص يہ كہے كہ: ميں اللہ كے ليے اتنے روزے ركھوں گا، يا اتنا صدقہ كرونگا، يا يہ كہے كہ: اللہ كے ليے ميرے ذمہ ہے كہ ميں اس برس حج كرونگا، يا ميں مسجد حرام ميں دو ركعت ادا كرونگا، ان نعمتوں كے شكرانہ كے طور پر جو اللہ تعالى نےميرے مريض كو شفايابى دے كر كى ہيں.

يا وہ نذر معلق ہو، يعنى اگر اس كا كوئى كام ہو جائے تو وہ فلاں نيك كام كرے گا، مثلا وہ كہے: اگر ميرا غائب شخص آگيا يا اللہ تعالى نے مجھے ميرے دشمن سے محفوظ ركھا تو ميرے ذمہ اتنے روزے يا اتنا صدقہ.

نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كا فرمان ہے:

" جس نے اللہ تعالى كى اطاعت و فرمانبردارى كى نذر مانى تو وہ اس كى اطاعت و فرمانبردارى كرے، اور جس نے اللہ كى نافرمانى كرنے كى نذر مانى تو وہ اس كى نافرمانى نہ كرے "

صحيح بخارى حديث نمبر ( 6202 ).

اور اگر كسى شخص نے اطاعت كى نذر مانى اور پھر ايسے حالات پيدا ہو گئے جس نے اسے نذر پورى كرنے سے عاجز كر ديا: مثلا كسى شخص نے نذر مانى كے وہ ايك ماہ كے روزے ركھے گا، يا حج يا عمرہ كرے گا ليكن وہ بيمار ہو گيا اور اس بنا پر روزے نہ ركھ سكا، يا حج اور عمرہ نہ كر سكا، يا اس نے صدقہ كرنے كى نذر مانى ليكن وہ فقر سے دوچار ہو گيا جس كى بنا پر نذر پورى كرنے سے قاصر رہا، تو اس حالت ميں نذر قسم كے كفارہ ميں بدل جائے گى، جيسا كہ مندرجہ ذيل حديث ميں وارد ہے:

ابن عباس رضى اللہ تعالى عنہ بيان كرتے ہيں كہ: جس نے ايسى نذر مانى جس كى وہ استطاعت نہ ركھتا ہو تو اس كا كفارہ قسم كا كفارہ ہے"

اسے ابو داود رحمہ اللہ نے روايت كيا ہے، اور حافظ ابن حجر رحمہ اللہ تعالى نے بلوغ المرام ميں اس كى سند كو صحيح كہا ہے، اور حفاظ رحمہم اللہ نے اس كے وقف كو راجح كہا ہے.

اور شيخ الاسلام ابن تيميہ رحمہ اللہ تعالى كہتے ہيں:

جب انسان اللہ تعالى كى اطاعت كرنے كى نذر ماننے كا قصد كرے تو اسے وہ نذر پورى كرنا ہو گى، ليكن اگر وہ اللہ تعالى كے ليے مانى نذر كو پورا نہيں كرتا تو اكثر سلف كے ہاں اس پر قسم كا كفارہ ہے.

ديكھيں: مجموع الفتاوى ( 33 / 49 ).

دوم:

ايسى نذر جسے پورا كرنا جائز نہيں ہے، اس ميں قسم كا كفارہ ہے:

اور يہ نذر كى يہ قسم مندرجہ ذيل پر مشتمل ہے:

1 - معصيت كى نذر:

ہر وہ نذر جس ميں اللہ تعالى كى معصيت و نافرمانى كى نذر مانى گئى ہو، مثلا كوئى شخص يہ نذر مانے كہ وہ كسى قبر يا مزار پر تيل ڈالے گا يا شمع روشن كرے گا، يا كسى قبر اورمزار اور شركيہ جگہ كى زيارت كى نذر مانے، تو بعض وجوہات كى بنا پر يہ نذر بتوں كے ليے نذر كے مشابہ ہو گى.

اور اسى طرح اگر كوئى شخص كسى معصيت و نافرمانى كى نذر مانے مثلا زنا كارى، يا شراب نوشى، يا چورى، يا يتيم كا مال ہڑپ كرنا، يا كسى كا حق كا انكار كرنا، كسى كے ساتھ قطع رحمى كرنے كى، يا بغير كسى شرعى مانع كے كسى كے گھر ميں نہ جانے كى، تو يہ سب نذريں ايسى ہيں جو ناجائز ہيں ان كا پورا كرنا كسى بھى حالت ميں جائز نہيں ہے، بلكہ اسے اپنى نذر كے كفارہ ميں قسم كا كفارہ ادا كرنا چاہيے، اس قسم كى نذر پورى نہ كرنے كى دليل مندرجہ ذيل حديث ہے:

عائشہ رضى اللہ تعالى عنہا بيان كرتى ہيں كہ رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا:

" جس نے اللہ تعالى كى اطاعت و فرمانبردارى كى نذر مانى وہ اللہ تعالى كى اطاعت و فرمانبردارى كرے، اور جس نے اس كى نافرمانى اور معصيت كرنے كى نذر مانى تو وہ اس كى نافرمانى و معصيت نہ كرے "

اسے بخارى رحمہ اللہ تعالى نے روايت كيا ہے.

اور عمران بن حصين رضى اللہ تعالى اللہ عنہ بيان كرتے ہيں كہ رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا:

" معصيت و نافرمانى كى نذر ميں كوئى وفا نہيں "

صحيح مسلم حديث نمبر ( 3099 ).

2 - ہر وہ نذر جو نص كے متصادم ہو:

جب مسلمان شخص كوئى نذر مانے اور اسے يہ علم ہو جائے كہ اس كى نذر صحيح نص جس ميں امر يا نہى ہے كے متصادم ہے تو اسے اس نذر كو پورا كرنے سے باز رہنا چاہيے، اور اس كے بدلے اسے قسم كا كفارہ ادا كرنا چاہيے اس كى دليل بخارى شريف كى مندرجہ ذيل حديث ہے:

زياد بن جبير بيان كرتے ہيں كہ ميں ابن عمر رضى اللہ تعالى عنہما كے ساتھ تھا تو ايك شخص نے ان سے سوال كيا كہ ميں نے نذر مانى ہے كہ پورى زندگى ہر منگل يا ہر بدھ كو روزہ ركھوں گا اور يہ دن عيد الاضحى كے دن كے موافق ہو گيا ہے؟

تو ابن عمر رضى اللہ تعالى عنہما نے فرمايا: اللہ تعالى نے ہميں نذر پورى كرنے كا حكم ديا ہے، اور عيد والے دن ہميں روزہ ركھنے سے منع كيا گيا ہے، تو اس شخص نے دوبارہ يہى سوال كيا اور ابن عمر رضى اللہ تعالى عنہما نے يہى جواب ديا، اس سے زيادہ كچھ نہ كہا.

صحيح بخارى حديث نمبر ( 6212 ).

اور امام احمد رحمہ اللہ تعالى نے زياد بن جبير رحمہ اللہ تعالى سے بيان كيا ہے وہ كہتے ہيں ايك شخص نے ابن عمر رضى اللہ تعالى عنہما سے منى ميں چلتے ہوئے سوال كيا:

ميں نے نذر مانى ہے كہ ہر منگل يا ہر بدھ كو روزہ ركھوں گا، اور يہ دن عيد الاضحى كے موافق آگيا ہے، آپ كيا كہتے ہيں؟

تو ابن عمر رضى اللہ تعالى عنہما نے جواب ديا: اللہ تعالى كا حكم ہے كہ نذر پورى كرو، اور رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے عيد الاضحى كے دن روزہ ركھنے سے منع فرمايا ہے، يا يہ كہا: ہميں عيد قربان كے دن روزہ ركھنے سے منع كيا گيا ہے.

راوى كہتے ہيں: اس شخص نے خيال كيا كہ ابن عمر رضى اللہ تعالى عنہما نے سنا نہيں، تو اس نے كہا: ميں نے ہر منگل يا بدھ كو روزہ ركھنے كى نذر مانى ہے، اور يہ دن عيد قربان كے موافق آگيا ہے؟

تو ابن عمر رضى اللہ تعالى عنہما نے فرمايا: اللہ تعالى كا تو حكم ہے كہ نذر پورى كى جائے، اور ہميں رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے منع كيا ہے، يا فرمايا ہميں عيد قربان كا روزہ ركھنے سے منع كيا گيا ہے.

راوى كہتے ہيں: اس سے زيادہ كچھ نہيں كہا حتى كہ پہاڑ كے ساتھ ٹيك لگا لى.

حافظ ابن حجر رحمہ اللہ تعالى كہتے ہيں:

اس پر اجماع ہو چكا ہے كہ عيد الفطر يا عيد الاضحى كے دن نفلى يا نذر كا روزہ ركھنا جائز نہيں ہے.

3 - وہ نذر جس كا حكم قسم كے كفارہ كے علاوہ كوئى حكم نہيں:

اور كچھ نذريں ايسى ہيں جن كے متعلق كوئى احكام نہيں صرف اتنا ہے كہ نذر ماننے والا نذر كے كفارہ كے طور پر قسم كا كفارہ لازمى دے گا، اس ميں كچھ نذريں يہ ہيں:

مطلقا نذر ماننا: ( يہ وہ نذر ہے جس كا نام نہ ليا گيا ہو ) لہذا اگر كسى مسلمان شخص نے نذر مانى اور نذر مانى گئى چيز كا نام نہ ليا بلكہ نذر كو بغير نام كے مطلق ہى رہنے ديا يا تعين نہ كيا: مثلا يہ كہا كہ: مجھ پر نذر ہے كہ اگر اللہ تعالى نے مجھے شفايابى سے نوازا، اور اس نے كسى چيز كا نام نہ ليا تو اس پر قسم كا كفارہ ہو گا.

عقبہ بن عامر رضى اللہ تعالى عنہ سے بيان كيا جاتا ہے كہ رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا:

" نذر كا كفارہ قسم كا كفارہ ہے"

اسے مسلم رحمہ اللہ تعالى نے روايت كيا ہے.

امام نووى رحمہ اللہ تعالى كہتے ہيں:

امام مالك اور بہت ساروں نے ـ بلكہ اكثر نے ـ اسے نذر مطلق پر محمول كيا ہے، جيسا كہ كوئى كہے: مجھ پر نذر ہے.

ديكھيں: شرح مسلم للنووى ( 11 / 104 ).

4 - وہ نذر جسے پورا كرنے يا قسم كا كفارہ دينے ميں اختيار ہے:

كچھ نذريں ايسي ہيں جن ميں نذر ماننے والے كو اختيار حاصل ہے كہ وہ اپنى نذر پورى كرے يا پھر نذر كے كفارہ ميں قسم كا كفارہ ادا كردے، اس قسم ميں مندرجہ ذيل نذريں آتى ہيں:

جھگڑا اور غصہ كى نذر: يہ ہر وہ نذر ہے جو قسم كى جگہ ہو اور اس سے كسى فعل كو سرانجام دينے يا كسى فعل كو ترك كرنے پر ابھارنا مراد ہو، يا پھر كسى كى تصديق يا تكذيب مراد ہو، نذر ماننے والے كا مقصد نذر نہ ہو اور نہ ہى اللہ كا قرب حاصل كرنا ہو.

مثلا كوئى شخص غصہ كى حالت ميں يہ كہے: ( اگر ميں نے ايسا كيا تو مجھ پر حجت يا ميرے ذمہ ايك ماہ كے روزے يا ايك ہزار دينا صدقہ كرونگا )

يا يہ كہے: ( اگر ميں نے فلاں شخص سے كلام كى تو يہ غلام آزاد كرونگا، يا ميرى بيوى كو طلاق ) وغيرہ

اور پھر وہ يہ كام كر بھى لے، اور وہ اس سارى كلام سے اس كى تاكيد چاہتا تھا كہ وہ اس كام وغيرہ كو نہيں كرے گا، تو اس كے مقصود كى حقيقت ميں نہ تو شرط پر عمل كرے اور نہ ہى اس پر سزا لاگو ہو گى، بلكہ اسے اس طرح كى نذر ميں اختيار ديا جائے گا.

ـ اس شخص كى حالت كسى كى حكايت بيان كرنا ہو، يا كسى چيز كے فعل يا عدم فعل پر ابھارنے كا اظہار ہو، اسے بھى اختيار ہے كہ يا تو وہ اپنى نذر پورى كرے يا پھر قسم كا كفارہ ادا كردے، جوہر كے اعتبار سے اسے قسم شمار كيا جائےگا.

شيخ الاسلام ابن تيمہ رحمہ اللہ تعالى كہتے ہيں:

" اگر اس نے قسم كے اعتبار سے نذر كو معلق كيا اور يہ كہا: اگر ميں تمہارے ساتھ سفر كروں تو مجھ پر حج ہے، يا ميرا مال صدقہ، يا ميرے ذمہ غلام آزاد كرنا، تو صحابہ كرام اور جمہور علماء كے ہاں يہ حلف نذر ہے، نہ كہ وہ نذر ماننے والا ہے، لہذا اگر وہ اپنے اوپر لازم كردہ كو پورا نہيں كرتا تو اسے قسم كا كفارہ ادا كرنا ہى كافى ہے"

اور ايك دوسرى جگہ پر كہتے ہيں:

" جھگڑے اور غضب كى حالت ميں نذر سے واجب كردہ ميں ہمارے ہاں مشہور قول پر دو چيزوں ميں سےايك ہے: يا تو كفارہ يا پھر معلق كردہ فعل كو سرانجام دينا، اور اگر وہ معلق كردہ چيز كا التزام نہيں كرتا تو پھر كفارے كا وجوب ثابت ہوتا ہے"

ـ مباح نذر:

يہ ہر وہ نذر ہے جو مباح امور ميں سے كسى پر بھى مانى گئى ہو، مثلا كوئى شخص كسى معين لباس كے پہننے كى نذر مانے، يا كوئى مخصوص كھانا كھانے كى نذر مانے، يا كسى بذاتہ جانور پر سوار ہونے كى نذر مانے، يا كسى محدود گھر ميں داخل ہونے كى نذر مانے, وغيرہ

ثابت بن ضحاك رضى اللہ تعالى عنہ بيان كرتے ہيں كہ نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كے دور ميں ايك شخص نے بوانہ نامى جگہ ميں اونٹ ذبح كرنے كى نذر مانى

اور ايك روايت ميں ہے كہ اس كا بيٹا پيدا ہوا ـ تو وہ نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كے پاس آيا اور عرض كى: ميں نے بوانہ ميں اونٹ ذبح كرنے كى نذر مانى ہے.

تو رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا: كيا وہاں جاہليت كے بتوں ميں سے كوئى بت تھا جس كى عبادت كى جاتى تھى ؟

تو صحابہ نے جواب ديا: نہيں

تو رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا: كيا وہاں ان كا كوئى ميلہ ٹھيلہ لگتا تھا؟

تو صحابہ كرام نے جواب ديا: نہيں

تو رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا: جاؤ اپنى نذر پورى كرو؛ كيونكہ اللہ تعالى كى معصيت و نافرمانى كى نذر پورى كرنا جائز نہيں، اور نہ ہى اس ميں جس كا ابن آدم مالك ہى نہيں "

سنن ابو داود حديث نمبر ( 2881 ).

اس شخص نے بوانہ نامى جگہ ( ينبع شہر كے بعد ايك جگہ ہے ) ميں اللہ تعالى كا شكر ادا كرنے كے ليے اونٹ ذبح كرنے كى نذر مانى كہ اللہ تعالى نے اسے بيٹا ديا ہے، اور نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے اسے اپنى نذر پورى كرنے كا حكم ديا، كہ وہ اس جگہ اپنا اونٹ ذبح كر لے.

اللہ تعالى سے ہمارى دعا ہے كہ وہ ہميں اپنى رضا اور خوشنودى كے كام كرنے كى توفيق سے نوازے، اللہ تعالى ہمارے نبى محمد صلى اللہ عليہ وسلم پر اپنى رحمتيں نازل فرمائے.

واللہ اعلم .

ماخذ: الشیخ محمد صالح المنجد