اتوار 21 جمادی ثانیہ 1446 - 22 دسمبر 2024
اردو

موبائل شاپ میں شریک دکاندار خود ہی نقد خرید کر گاہک کو قسطوں میں فروخت کر دیتا ہے، اس کا کیا حکم ہے؟

سوال

میری سمارٹ موبائل فون کی دکان ہے، در اصل یہ دکان ورثا کی ہے اور میں بھی ان ورثا میں سے ایک ہوں اور دکان بھی میں خود چلا رہا ہوں، حال ہی میں میں نے ایک نیا کام شروع کیا ہے کہ میں نے ذاتی طور پر موبائلوں کو قسطوں میں فروخت کرنا شروع کیا ہوا ہے، یعنی اب کوئی گاہک قسطوں میں موبائل خریدنا چاہتا ہے تو میں اسے قسطوں کا ریٹ بتلاتا ہوں اور جب ہماری بات پکی ہو جاتی ہے تو میں دکان کے کھاتے میں نقد موبائل فروختگی کا بل بنا دیتا ہوں اور گاہک کو قسطوں میں موبائل فراہم کر دیتا ہوں، تو کیا یہ طریقہ کار جائز ہے؟ واضح رہے کہ میں قسطوں کے لیے الگ سے موبائل نہیں خرید سکتا؛ کیونکہ موبائلوں کے ماڈل بہت زیادہ ہیں پھر ان کی ریم، میموری، کلر اسکیم اور کیمرہ وغیرہ بہت زیادہ مختلف ہوتے ہیں ، تو میرے لیے سب سے مناسب طریقہ یہی ہے اس سے مجھے ذاتی فائدہ کافی ہو سکتا ہے۔ مجھے اس بارے میں بتلائیں اللہ تعالی آپ کو جزائے خیر سے نوازے۔

جواب کا متن

الحمد للہ.

کاروباری شراکت دار، یا مضاربت میں شریک ، یا بطور وکالت تجارت کرنے والے کے لیے شراکت دار اور موکل کے علم میں لائے بغیر اپنے آپ سے کوئی چیز خریدنا جائز نہیں ہے؛ کیونکہ ایسے شخص پر ذاتی طرف داری کا الزام ہو گا، اور ویسے بھی وکیل یا شراکت دار وہی کام کرنے کا مجاز ہے جو موکل اور شریک کے لیے زیادہ مفید ہو، لیکن جب وکیل یا شریک اپنے آپ سے کوئی چیز خریدے گا تو کم ریٹ لگائے گا ، جب کہ شراکت دار کا فائدہ یہ تقاضا کرتا ہے کہ زیادہ سے زیادہ ریٹ میں فروخت ہو، اور یہ دونوں چیزیں متضاد ہیں۔

تجارتی شراکت میں شریک شخص اپنی طرف سے اصالۃً جبکہ شراکت داروں کی طرف سے وکالۃً لین دین کرتا ہے۔

جیسے کہ ابن قدامہ رحمہ اللہ "المغنی" (5/ 68)میں کہتے ہیں:
"وکالۃً کام کرنے والے شخص کے لیے اپنے آپ سے کوئی چیز خریدنا جائز نہیں ہے، اسی طرح وصی بھی اپنے آپ سے کوئی چیز نہیں خرید سکتا۔ مطلب یہ ہے کہ: کسی شخص کو کوئی چیز فروخت کرنے کی ذمہ داری دی گئی ، تو وہ شخص یہ چیز خود اپنے آپ کو فروخت نہیں کر سکتا۔ یہ امام احمد سے ایک روایت ہے، یہی موقف امام شافعی اور اصحاب رائے کا ہے۔

اسی طرح وصی شخص کا معاملہ ہے: یعنی یتیم کا سرپرست شخص یتیم کے مال میں سے کچھ بھی اپنے لیے نہیں خرید سکتا، یہ بھی دو میں سے ایک روایت ہے، اور یہی موقف امام شافعی کا بھی ہے" ختم شد

علامہ مرداوی رحمہ اللہ اپنی کتاب "الإنصاف" (5/ 377) میں کہتے ہیں:
"دو فوائد میں سے پہلا: وکیل اپنے موکل کے لیے خود ہی کوئی چیز خرید لے اس کا بھی یہی حکم ہے۔ اسی طرح حکمران ، امین، وصی، ناظر وقف، شریک مضاربت کا حکم بھی وکیل والا ہی ہے۔"

الموسوعة الفقهية (45/ 39) میں ہے کہ:
"جمہور فقہائے احناف، شوافع، حنابلہ اور مالکی فقہائے کرام کے معتمد موقف میں یہ ہے کہ: بیع کے لیے بنائے گئے وکیل کے لیے مطلق طور پر جائز نہیں ہے کہ وہ اپنے آپ کو چیز فروخت کر دے؛ کیونکہ عرف یہ ہے کہ انسان کسی دوسرے کے ساتھ بیع کرتا ہے اپنے آپ سے نہیں کرتا، اس لیے وکالت بھی اسی پر محمول ہو گی چنانچہ جب موکل وکیل کو صراحۃً اجازت دے دے تب بھی جائز نہیں ہو گا، اس کی ممانعت کی یہ بھی وجہ ہے کہ اپنے آپ کو فروخت کرنے کی وجہ سے وکیل ذاتی طرف داری کا ملزم ٹھہرے گا۔

احناف اور شوافع نے اس حکم کی یہ وجہ بیان کی ہے کہ: ایک ہی شخص بیک وقت خریدار اور فروخت کنندہ نہیں ہو سکتا۔ ان کا کہنا ہے کہ : اگر خود وکیل بھی اپنے موکل کو اجازت دے دے کہ اپنے آپ کو فروخت کر دے تو یہ تب بھی جائز نہیں ہو گا۔

جب کہ مالکی اور حنبلی فقہائے کرام نے صراحت کی ہے کہ: موکل کی اجازت سے وکیل اپنے آپ کو چیز فروخت کر سکتا ہے۔" ختم شد

ویسے بھی شریکِ تجارت کے لیے یہ جائز نہیں ہے کہ دیگر شرکا کی اجازت کے بغیر دکان کو ذاتی مفاد کے لیے استعمال کرے، اسی طرح دیگر شرکائے تجارت کی اجازت سے ہی ذاتی نوعیت کی خرید و فروخت کرے۔

اسی طرح ملازم اپنی ملازمت کے دوران کسی اور کے لیے کام نہیں کر سکتا۔

چنانچہ درج ذیل تین امور میں دکان کے تمام شرکا کی اجازت ضروری ہے:

  1. اپنے آپ کو فروخت کرنے کی اجازت دیں۔
  2. آپ کو اسی دکان میں موجود شرکا کے ملکیتی سامان کے بارے میں اس کام کی اجازت دیں۔
  3. آپ کو دکان کے اوقات میں اس کام کی اجازت دیں۔

چنانچہ اگر تمام شرکا بالغ اور سمجھدار ہوں اور آپ کو اس کام کی اجازت دے دیں تو پھر اس میں کوئی حرج نہیں ہے، لہذا اگر کوئی گاہک آ کر آپ سے قسطوں میں سامان خریدے تو آپ دکان سے اپنے لیے یہ سامان خریدیں اور اپنے مال سے اس کی قیمت ادا کریں اور پھر اسے قسطوں میں فروخت کر دیں۔

اور اگر آپ کے ساتھ شرکا میں کوئی ایسا شخص بھی ہو جو سمجھدار نہ ہو، یعنی وہ بالغ نہیں ہے یا بالغ تو ہے لیکن بیوقوف ہے تو پھر آپ کے لیے یہ کام کرنا جائز نہیں ہے چاہے وہ آپ کو اجازت دے دیں؛ کیونکہ نابالغ اور غیر راشد شریک کی اجازت شرعاً معتبر ہی نہیں ہے۔

واللہ اعلم

ماخذ: الاسلام سوال و جواب