سوموار 24 جمادی اولی 1446 - 25 نومبر 2024
اردو

دو بیویوں کی اعالت کی استطاعت نہ رکھنے کے باوجود دوسری شادی کرنا

26069

تاریخ اشاعت : 28-11-2004

مشاہدات : 8649

سوال

میرے لیے ایک مسلمان شخص کا رشتہ آیا ہے جس کی عمرمجھ سےبیس برس زيادہ ہے ، اس کی پہلے بھی ایک بیوی ہے جوابھی تک اس کے پاس ہے ، اس شخص نے میری زندگی میں بہت زيادہ تعاون کیا اورمجھے اسلامی راستہ کی راہنمائی کی ہے ، میرے والدین بھی مسلمان ہیں لیکن انہوں نے مجھے نہ تونماز ، روزہ اور نہ ہی زکاۃ کے بارہ میں کچھ بتایا اورنہ ہی اس کی تعلیم دی ۔
یہ شخص مجھ سے دوسری شادی کرنا چاہتا ہے لیکن اس میں دوبیویوں کی اعالت کرنے کی استطاعت نہيں ، میں نے اس مشکل کے بارہ میں کچھ لوگوں سے دریافت کیا تو کچھ نے شادی کرلینے کی رائے دی اورکچھ کہتے ہیں نہ کرو ، میں اس شخص کا بہت زيادہ احترام کرتی ہوں ، لیکن مجھے یہ یقین نہیں کہ آیا میں اس کے ساتھ زندگي گزار سکوں گی کہ نہیں ؟
اس کے بارہ میں آپ ہی کچھ نصیحت کريں ۔

جواب کا متن

الحمد للہ.

اللہ تعالی نے مرد پر دوسری شادی کرنے سے قبل جواشیاء لازم کی ہیں اس میں یہ بھی شامل ہے کہ وہ نان ونفقہ اوررہائش اوربیوں کے پاس رات بسر کرنےمیں عدل وانصاف سے کام لے سکتا ہو ، اگر اسے یہ علم ہو کہ وہ بیویوں کے مابین ان اشیاء میں عدل وانصاف نہیں کرسکتا یا اس کا ظن غالب بھی یہی ہو کہ وہ انصاف نہیں کرسکے گا تواس کےلیے دوسری شادی کرنا حلال نہیں ۔

اللہ سبحانہ وتعالی کا فرمان ہے :

اوراگرتمہيں خدشہ ہو کہ تم یتیم لڑکیوں سے نکاح کرکے ان میں عدل انصاف نہیں کرسکو گے تو اورعورتوں سے جو بھی تمہیں اچھی لگیں تم ان سے نکاح کرلو ، دو دو ، تین تین ، چار چار سے لیکن اگر تمہیں عدل وانصاف اوربرابری نہ کرسکنے کا خدشہ ہو تو ایک ہی کافی ہے یا پھر تمہاری ملکیت کی لونڈي ، یہ زيادہ قریب ہے کہ ( ایسا کرنے سے ناانصافی اور ) ایک طرف جھک جانے سے بچ جاؤ النساء ( 3 ) ۔

مجاھد رحمہ اللہ تعالی کہتے ہیں :

تم جان بوجھ کر برا سلوک کرنے کی کوشش نہ کروبلکہ تقسیم اورنان ونفقہ میں برابری اورانصاف کا التزام کرو کیونکہ اس چيز میں انسان استطاعت رکھتا ہے ۔ دیکھیں تفسیر القرطبی ( 5 / 407 ) ۔

شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ تعالی کا کہنا ہے :

نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی اقتدا اورپیروی کرتے ہوئے بیویوں کے مابین نان ونفقہ اورلباس میں برابری اورعدل سے کام لینا سنت نبویہ ہے کیونکہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم بھی اپنی بیویوں کے مابین نان ونفقہ اورتقسیم میں عدل وانصاف کیا کرتے تھے ۔۔۔ دیکھیں مجموع الفتاوی ( 32 / 269 ) ۔

اورحافظ ابن قیم رحمہ اللہ تعالی کہتے ہیں :

نبی مکرم صلی اللہ علیہ وسلم اپنی ازاوج مطہرات کے مابین رات بسر کرنے نان ونفقہ اوررہائش وغیرہ میں عدل وانصاف اور برابری کیا کرتے تھے ، اوراس – یعنی محبت اور جماع – میں برابری واجب نہيں ، کیونکہ یہ ایک ایسی چيز ہے جس کا مالک نہيں ۔ دیکھیں زاد لمعاد ( 1 / 151 )

حافظ ابن حجر رحمہ اللہ تعالی کہتے ہیں :

جب خاوند اپنی بیویوں میں سے ہرایک کو نان ونفقہ اورلباس اوررہائش متوفر کردے تواس کے بعد میلان قلب اورمحبت یا پھر تحفہ وغیرہ میں اسے کوئي نقصان نہيں ہوگا دیکھیں فتح الباری ( 9 / 391 ) ۔

جوشخص بھی دوسری شادی کرنا چاہے اللہ تعالی نے اس پریہ کچھ ہی واجب کیا ہے ، اگر یہ شخص اس پر قادر ہے تو پھر اس سے دوسری شادی کرنے میں کوئي حرج نہیں ، لیکن اگروہ اس کی طاقت نہیں رکھتا تو ہماری یہ نصیحت ہے کہ آپ اس سے شادی نہ کریں ، بلکہ اصل میں اس کے لیے دوسری شادی کرنی ہی جائز نہیں ۔

آپ نے جو یہ کہا ہے کہ ( وہ دونوں بیویوں کی اعالت نہیں کرسکتا ) اگر تو وہ شخص صاحب دین اوراچھے اخلاق کا مالک ہے اورآپ تنگی اورفقر پر صبر وتحمل کرسکتی ہیں تواس سے شادی کرنے میں کوئي حرج نہیں ، کیونکہ شادی کرنے والے فقیر شخص سے اللہ تعالی سے وعدہ کیا ہے کہ وہ اپنے فضل وکرم سے اسے غنی و مالدار کردے گا ۔

فرمان باری تعالی ہے :

اگر تو وہ فقیر ہوں تو اللہ تعالی اپنے فضل سے انہیں غنی و مالدار کردے گا النور ( 32 ) ۔

حتی کہ کچھ سلف حضرات تواس آیت پرعمل کرتے ہوئےصرف روزی کے حصول کے لیے شادی کیا کرتے ہیں ، اوراگر آپ دیکھیں کہ فقر اورتنگدستی پر آپ صبر وتحمل نہيں کرسکتیں تواس سے شادی کرنے میں کوئي انکار اورمضائقہ نہیں ۔

جب فاطمہ بنت قیس رضي اللہ تعالی عنہاکو معاویہ رضي اللہ تعالی عنہ نے شادی کا پیغام دیا تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ کہتے ہوئے انہيں شادی نہ کرنے کا مشورہ دیا تھا کہ :

( وہ تو تنگ دست ہے اوراس کے پاس مال ہی نہيں ) صحیح مسلم حدیث نمبر ( 1480 ) ۔

ہم امید کرتے ہیں کہ آپ دونوں کے مابین کوئي ایسے تعلقات نہيں ہوں گے جو حرام اور غیر مشروع ہوں ، چاہے وہ موجودہ وقت یا پھر شادی سے انکار کے بعد ہی ، اگر اس نے آپ کی اسلام تعلیمات کی طرف راہنمائي کرکے آپ پر کوئي احسان اورنیکی کی ہے تو اس بنا پر اس سے خط وکتاب اوربات چیت اورملاقات وغیرہ جائز نہيں ۔

واللہ اعلم .

ماخذ: الاسلام سوال و جواب