جمعرات 25 جمادی ثانیہ 1446 - 26 دسمبر 2024
اردو

لیلۃ القدر کی دعا میں "کریم" کا اضافہ ثابت نہیں ہے۔

سوال

البانی رحمہ اللہ کی صحیح ترمذی (3513) میں: حدثنا قتيبة، حدثنا جعفر بن سليمان الضبعي، عن كہمس بن الحسن، عن عبدالله بن بريدة، عن عائشة کی سند سے ہے کہ سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں : میں نے کہا: اللہ کے رسول! اگر مجھے لیلۃ القدر کا علم ہو جائے تو بتلائیں کہ میں اس رات میں کیا کہوں؟ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: (تم کہو: " اَللَّهُمَّ إِنَّكَ عَفُوٌّ كَرِيْمٌ تُحِبُّ الْعَفْوَ، فَاعْفُ عَنِّيْ") اس حدیث پر البانی رحمہ اللہ نے ابن ماجہ (3850) کے حوالے سے صحیح کا حکم لگایا ہے۔
پھر شیخ البانی رحمہ اللہ نے ہی سلسلہ صحیحہ میں لکھا ہے کہ "کریم" کا اضافہ کاتب کی جانب سے ہے، تو کیا صحیح ترمذی میں شیخ کے ہاں "کریم" کا اضافہ صحیح ثابت ہے؟ اور اگر ثابت نہیں ہے تو پھر صحیح ترمذی میں اس پر تنبیہ کیوں نہیں کی؟

جواب کا متن

الحمد للہ.

شیخ البانی رحمہ اللہ بھی تحقیق و نقد کیلیے اجتہاد کرتے ہیں، تو آپ کو بھی سہو یا غلطی لگ سکتی ہے جیسے کہ دیگر علمائے کرام اور محققین کو غلطی لگی، اور اس میں کوئی عیب والی بات بھی نہیں، بلکہ آپ کو اس پر کم از کم ایک اجر ضرور ملے گا اور یہ اللہ تعالی کی علمائے کرام اور فقہائے عظام پر خصوصی کرم نوازی ہے کہ ان کی غلطی پر بھی ایک اجر لازمی ملتا ہے، جبکہ درست فیصلے اور اجتہاد پر دہرا اجر ملتا ہے۔

قابل توجہ امر یہ ہے کہ محققین اور تشنگان علم  تحقیق و تحریر  کیلیے ٹھوس منہج اپنائیں، اور اندھی تقلید ، یا کسی عالم دین  کا علمی مقام و مرتبہ ان کے دلائل  پرکھنے اور علمی  مباحث میں مزید نکھار پیدا کرنے  رکاوٹ نہ بنے؛ کیونکہ علم غیر جانبدارانہ  اور کامل و مدلل تحقیق  سے حاصل ہوتا ہے، علم چند نامور لوگوں کی ملکیت نہیں ہے چاہے ان کا علم و مرتبہ کتنا ہی بلند ہو اور علمی قد آوری آسمانوں کو چھوتی ہو۔

اس لیے ہم کہتے ہیں کہ شیخ البانی رحمہ اللہ  لیلۃ القدر والی دعا میں تنبیہ نہیں کر سکے یہ ان  سے چوک گئی؛ کیونکہ  اس حدیث کی متعدد سندیں ہیں اور احادیث کی کتب جوامع، سنن اور مسانید میں موجود ہیں، لیکن ان میں سے کسی ایک میں بھی  "کریم" کا اضافہ نہیں ہے، چنانچہ سب نے دعا کے صرف مشہور الفاظ ہی بیان کیے ہیں جو کہ یہ  ہیں: " اَللَّهُمَّ إِنَّكَ عَفُوٌّ تُحِبُّ الْعَفْوَ، فَاعْفُ عَنِّيْ"

تاہم یہ سہو صرف صحیح ترمذی: (3513) میں ہی واقع ہوا ہے۔

جبکہ "سلسلہ احادیث صحیحہ " جس کے متعلق تحقیق کاروں کا اتفاق ہے کہ  اس میں پیش کی ہوئی تحقیق اور محنت صحیح اور ضعیف کے نام سے موسوم دیگر تمام کتابوں سے زیادہ ہے، چنانچہ شیخ البانی رحمہ اللہ نے سلسلہ صحیحہ میں اس اضافے کے متعلق تنبیہ کرتے ہوئے کہا:
"سنن ترمذی میں "عفو" کے بعد "کریم" کا اضافہ ہے! پہلے بیان شدہ مصادر  میں کہیں بھی اس کا ذکر نہیں ہے اور نہ  ان مصادر سے روایات لینے والی کتابوں میں اس اضافے کا ذکر ہے، تو اس سے معلوم یہی ہوتا ہے کہ یہ قلمی نسخے لکھنے والے کاتب یا ناشر کی غلطی ہے؛ اس کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ یہ اضافہ سنن ترمذی کے ہندوستانی نسخے جس پر مبارکپوری رحمہ اللہ کی شرح تحفۃ الاحوذی ہے  (4/264) اس میں بھی نہیں ہے اور نہ ہی کسی اور کتاب میں اس کا ذکر ہے۔

اس بات کی تائید اس چیز سے بھی ہوتی ہے کہ  امام نسائی نے اس روایت کو امام ترمذی  والی سند سے بھی ذکر کیا ہے اس سند میں دونوں  اپنے استاد قتیبہ بن سعید سے بیان کرتے ہیں اور پھر نسائی میں یہ اضافہ موجود نہیں ہے۔

اس دعا میں مذکورہ اضافہ ہمارے فاضل بھائی علی حلبی  کے رسالے میں 202 نمبر پر بھی ہے جو کہ "مهذب عمل اليوم والليلة لابن السني" کے نام سے موسوم ہے، حالانکہ یہ اضافہ ابن سنی کی کتاب میں بھی نہیں ہے، اس کی وجہ یہ ہے کہ ابن سنی اپنے استاد نسائی سے بیان کرتے ہیں اور پہلے گزرا ہے کہ امام نسائی قتیبہ سے بیان کرتے ہیں ، بیان کرنے کے بعد علی حلبی نے   ترمذی وغیرہ کا بھی حوالہ دیا ہے! حالانکہ فن تخریج کے مطابق ہونا یہ چاہیے تھا کہ  اس اضافے کو [۔۔۔] اس طرح کی بریکٹ میں  لکھا جاتا اور پھر کہا جاتا کہ یہ صرف ترمذی میں موجود ہے، جبکہ تحقیق کا مطلب اور تقاضا یہ ہے کہ اسے ذکر ہی نہ کیا جائے، اور اگر بیان کرنا بھی ہے تو یہ بتلانے کیلیے کہ اس اضافے کی کوئی دلیل نہیں ہے " انتہی
"سلسلة الأحاديث الصحيحة" (13/ 140)

اس چیز کو دیکھ کر کچھ تحقیق کاروں نے سلسلہ صحیحہ میں البانی رحمہ اللہ  کی اس گفتگو کو دیکھ یہ سمجھ لیا کہ البانی رحمہ اللہ کی جانب سے صحیح ترمذی میں ذکر کردہ تصحیح سے رجوع ہے۔

بہ ہر حال اسے رجوع سمجھیں یا پہلے فیصلے سے الگ اور مستقل تحقیق  گردانیں، البانی رحمہ اللہ نے حق بات کہہ دی اور رونما ہونے والی غلطی کا تدارک کر لیا۔

اور ہو سکتا ہے کہ یہ اضافہ لوگوں کی زبان زد عام اس لیے ہوا کہ احادیث کی کچھ کتابوں میں یہ اضافہ مذکور ہے، لیکن ان میں یہ اضافہ حدیث کا حصہ نہیں ہے، مطلب یہ ہے کہ جن علمائے کرام  نے یہ اضافہ ذکر کیا ہے اس کی وجہ یہ تھی کہ کچھ نسخوں میں "کریم" کا اضافہ موجود ہے، جیسے کہ مسند احمد کے محققین [مؤسسہ رسالہ] (42/ 236)میں کہتے ہیں: "نسخہ (ق) میں (عفوٌّ كريم)   ہے" انتہی

 (ق)  سے قلمی نسخہ ہے ، اس کی تفصیل کیلیے آپ مسند احمد کی تحقیق کا مقدمہ دیکھیں: (1/104)

یہی اضافہ مکنز الاسلامی کے طبعہ میں بھی موجود ہے، دیکھیں: (11/6118) حدیث نمبر: (26021) س کے محققین کہتے ہیں:  نسخہ (ق) میں عفو کریم ہے، جبکہ متن میں مذکور الفاظ دیگر نسخوں  میں موجود ہیں۔

یہی وجہ ہے کہ اس اضافے کو بہت سے علمائے کرام نے اپنی کتابوں میں ذکر کیا ہے: جیسے کہ ابن اثیر "جامع الأصول" (4/324) میں ،عمرانی "البيان في المذهب الشافعي" (3/568) میں ، خازن "لباب التأويل في معاني التنزيل" (4/ 452) میں ، ابن قیم "بدائع الفوائد" (2/ 143) میں ، خطیب شربینی "الإقناع في حل ألفاظ أبي شجاع" (1/ 247) میں ، امیر صنعانی"التحبير لإيضاح معاني التيسير" (4/ 268) میں ،اور طحطاوی " حاشية على مراقي الفلاح شرح نور الإيضاح" (ص: 401) میں ذکر کیا ہے۔

ان سب مؤلفین نے "کریم" کا اضافہ بغیر سند کے ذکر کیا ہے اور کچھ نے اس کی نسبت سنن ترمذی کی جانب کی ہے، اور یہ بھی اس وقت ہے جب  ان کتابوں کے قلمی نسخے تیار کرتے وقت دقت نظر سے کام لیا گیا ہو۔

لیکن آج ہمیں اس بات میں کوئی شک نہیں ہے کہ یہ اضافہ  حدیث کا حصہ نہیں ہے ؛ کیونکہ حدیث کی دسیوں مسند کتابیں  اس اضافے کو ذکر نہیں کرتیں، ہم نے سنن ترمذی کے متعدد قلمی نسخوں پر تحقیق کے بعد منظر عام پر آنے والے طبع شدہ نسخے بھی دیکھے ہیں ان میں  سے کسی میں بھی اس اضافے کا ذکر نہیں ہے، مثلاً: ہم نے بشار عواد کی تحقیق سے چھپنے والا نسخہ دیکھا جس کے (5/490) میں یہ حدیث بغیر اضافے کے مذکور ہے، اسی طرح شعیب ارناؤط کی تحقیق سے شائع ہونے والا نسخہ بھی اس اضافے کے بغیر ہے، ان نسخے میں یہ حدیث (6/119) پر موجود ہے۔

واللہ اعلم.

ماخذ: اللقاء الشھری نمبر ( 17 ) ۔