الحمد للہ.
جب کسی شخص کا ماموں اپنی بیوی کو طلاق بائن دے کر اپنے سے علیحدہ کرے تو وہ شخص اپنی مامی سے نکاح کرسکتا ہے ، کیونکہ مامی حرام کردہ عورتوں میں سے نہیں اس لیے اس سے نکاح میں کرنے کوئي حرج نہیں ۔
لیکن بھانجے کے لیے اپنی مامی سے کسی بھی قسم کا حرام تعلق قائم کرنا صحیح نہيں بلکہ ایسا کرنا حرام ہے ، ہوسکتا ہے کہ شیطان ان دونوں کو برائي کسی اچھی شکل میں دکھائے تواس سےبچنا ضروری ہے ، اوراسی طرح بھانجے کے لیے یہ بھی جائز نہیں کہ وہ اسے اپنے ماموں سے متنفر کرے تا کہ وہ طلاق دے تواس سے وہ خود شادی کرلے ۔
بلکہ اسے تو ان دونوں کے مابین اصلاح اورخیر وبھلائي کا کردار ادا کرنا چاہیے نہ کہ نفرت پھیلانے اور گھرانے کوتباہ کرنے والے کا ، اصل مصلحت تویہ یہی ہے کہ اولاد اپنے والد کے ساتھ ایک ہی گھرانے اورخاندان میں رہیں لیکن جب شرعی مصلحت کا تقاضہ اس کے خلاف ہو تو پھران میں علیحدگي ہوسکتی ہے ۔
اورجب کوئي ناپسندیدہ چيز پیدا ہوجائے اور ان دونوں کے مابین طلاق تک معاملہ جاپہنچے اوروہاں اس کے بارہ میں کوئي کسی قسم کا شک وشبہ بھی نہ ہو تو پھر اس طلاق شدہ مامی سے نکاح کرنے میں کوئي حرج نہیں ۔
اورجب ماموں کی اولاد اس کی پرورش میں آجائيں توان سے اچھا اوراحسن سلوک کرنا ہوگا تا کہ صلہ رحمی قائم رہے اورجب وہ ان کی پرورش میں اخلاص نیت کرے گا تواسے اللہ تعالی سے اجر عظیم حاصل ہوگا ۔
واللہ اعلم .