بدھ 24 جمادی ثانیہ 1446 - 25 دسمبر 2024
اردو

كيا دار الحرب يا دار الكفر ميں نماز جمعہ ادا كى جائيگى ؟

26800

تاریخ اشاعت : 13-02-2007

مشاہدات : 6468

سوال

اگر ہم كہيں كوئى ملك دار الحرب يا دار الكفر ہے، تو كيا وہاں نماز جمعہ كى ادائيگى واجب ہے ؟
يا دوسرے معنى ميں كيا ہم دار الحرب يا دار الكفر ميں نماز جمعہ ادا كرينگے ؟

جواب کا متن

الحمد للہ.

اللہ تعالى نے شہر يا بستى ميں رہائش پذير مسلمانوں پر نماز جمعہ فرض كى ہے، اور نماز جمعہ چھوڑ كر تجارت اور خريدوفروخت ميں مشغول رہنے سے منع كرتے ہوئے فرمايا ہے:

اے ايمان والو! جب جمعہ كے دن نماز جمعہ كى اذان دى جائے تو تم اللہ تعالى كے ذكر كى طرف دوڑو اور تجارت چھوڑ دو يہ تمہارے ليے بہتر ہے اگر تمہيں علم ہے الجمعۃ ( 9 ).

اور حديث ميں ہے عبد اللہ بن عمر، اور ابو ہريرہ رضى اللہ تعالى عنہم بيان كرتے ہيں كہ انہوں نے منبر كى لكڑيوں پر نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كو يہ فرماتے ہوئے سنا:

" لوگ نماز جمعہ چھوڑنے سے باز آ جائيں، يا پھر اللہ تعالى ان كے دلوں پر مہر ثبت كر دے گا، پھر وہ غافلين ميں سے ہو جائينگے"

صحيح مسلم ( 2 / 59 ).

اور امت مسلمہ كا اس پر اجماع ہونے كى بنا پر بھى، شريعت ميں اس كى كئى دليل نہيں ملتى كہ يہ صرف داراسلام والوں پر ہى فرض ہے، دار الحرب ميں بسنے والوں پر فرض نہيں، اس طرح كتاب و سنت كى نصوص پر عمل كرتے ہوئے جب شروط پورى ہوں تو دار الكفر ميں بسنے والے مسلمانوں پر بھى نماز جمعہ كى ادائيگى فرض ہے، كيونكہ شرعى طور پر معتبر شروط كے ساتھ نماز جمعہ ہر شخص پر فرض عين ہے.

ماخذ: ديكھيں: فتاوى اللجنۃ الدائمۃ للبحوث العلميۃ والافتاء ( 8 / 186 )