سوموار 24 جمادی اولی 1446 - 25 نومبر 2024
اردو

ملازم کے فوت ہو جانے کے بعد بھی کمپنی نے تنخواہ جاری رکھنے کا فیصلہ کیا، تو کیا سب وارث اس کے مستحق ہوں گے؟

270270

تاریخ اشاعت : 17-07-2017

مشاہدات : 4325

سوال

ایک لڑکی کا خاوند فوت ہو گیا ان کی کوئی اولاد نہیں تھی، خاوند اپنی کمپنی کے کام کے دوران ٹریفک حادثے میں جاں بحق ہوا، تو کمپنی نے اپنے وفا دار ملازم کو خراج تحسین پیش کرنے کیلیے وفات کے بعد بھی اس کی اصل تنخواہ جاری رکھنے کا فیصلہ کیا، یعنی وفات کے بعد بھی ملازم کے ساتھ ایسے ہی معاملات جاری رکھے کہ گویا وہ ابھی زندہ ہے، یعنی اسے ریٹائرمنٹ کی عمر تک تسلسل کے ساتھ تنخواہ دی جائے گی۔
خاوند کے ترکے کی تقسیم کے وقت ہم [خاوند کے رشتہ داروں]نے بیوی کو شرعی حکم کے مطابق چوتھا حصہ دیا اور ہم نے ماہانہ ملنے والی تنخواہ کو بھی ترکے میں شامل کیا تھا، واضح رہے کہ تنخواہ جاری کرنے والی کمپنی کی طرف سے ابھی تک یہ متعین نہیں کیا گیا کہ وارثوں میں سے کون یہ تنخواہ وصول کرے گا، تو ہم نے تنخواہ میں سے بھی بیوی کو شرعی حصے کے مطابق چوتھا حصہ دے دیا، لیکن بیوی نے ایسا کرنے سے انکار کر دیا اور کہا کہ اس تنخواہ پر صرف میرا حق ہے دیگر وارثوں یعنی ماں اور باپ کا حصہ نہیں ہے؛ اس کی دلیل یہ دی کہ یہ تنخواہ میرے جاں بحق ہونے والے خاوند کی ہے اور تنخواہ پر میرا زیادہ حق ہے۔ تو اب ہم اسے مکمل تنخواہ دیں یا شرعی حصے کے مطابق تنخواہ کا چوتھا حصہ دیں؟
ہماری اس بارے میں رہنمائی فرمائیں ہمیں اس بارے میں کافی پریشانی ہے، واضح ہو کہ بیوی کی طرف سے ترکے کی تقسیم کو روک دیا گیا ہے اور ان کے مطابق جب تک ان تنخواہوں کا فیصلہ نہیں ہوتا ترکہ تقسیم نہ کیا جائے۔

جواب کا متن

الحمد للہ.

میں نے یہ سوال اپنے شیخ عبد الرحمن البراک حفظہ اللہ کے سامنے پیش کیا تو انہوں نے بتلایا:

"اس مسئلے کے حل کیلیے تنخواہ دینے والی کمپنی سے رجوع کیا جائے؛ کیونکہ اس تعاون کی نوعیت وہی معین کر سکتی ہے  کہ اس رقم کا حقدار کون ہے؟

لیکن اگر کمپنی سے رجوع کرنا مشکل ہو تو یہ مال ان لوگوں کیلیے ہو گا جن کی وہ اپنی زندگی میں کفالت کرتا  تھا، یعنی وہ افراد جن پر اپنی تنخواہ خرچ کرتا تھا۔

البتہ جب یہ بیوہ آگے شادی کر لے تو پھر اسے اس تنخواہ سے کچھ نہیں ملے گا؛ کیونکہ اب اس کے اخراجات کی ذمہ داری نئے خاوند کے ذمے ہو چکی ہے" انتہی

مزید کیلیے سوال نمبر: (217207) کا جواب ملاحظہ فرمائیں۔

واللہ اعلم.

ماخذ: الشيخ محمد صالح المنجد