اتوار 21 جمادی ثانیہ 1446 - 22 دسمبر 2024
اردو

غسل جنابت ميں سر كا مسح اور خلال كرنا كافى نہيں

27065

تاریخ اشاعت : 27-04-2011

مشاہدات : 11814

سوال

سوال نمبر ( 2648 ) كے جواب ميں غسل جنابت ميں بال دھونے كا طريقہ بيان ہوا ہے، ليكن كيا صرف بالوں پر مسح اور ان كا خلال كرنا كافى ہے كيونكہ ہر بار بال دھو كر بالوں كو خشك كر كے خوبصورت بن كر اپنے خاوند كے سامنے آنے ميں مشقت پيش آتى ہے ؟

جواب کا متن

الحمد للہ.

غسل جنابت ميں سارے بدن كا دھونا واجب ہے، اور اس ميں بال بھى شامل ہيں، غسل عضو پر پانى بہانے كانام ہے.

ديكھيں: الشرح الممتع ( 1 / 128 ).

اس ليے بالوں پر پانى بہانا اور نيچے تك پہنچانا ضرورى ہے، صرف بالوں پر مسح كرنا كافى نہيں، كيونكہ يہ دھونا شمار نہيں ہوتا، اور پھر واجب تو دھونا ہے نہ كہ مسح.

عائشہ رضى اللہ تعالى عنہا بيان كرتى ہيں كہ:

" جب رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم غسل جنابت فرماتے تو سب سے پہلے اپنے ہاتھ دھوتے اور اپنے دائيں ہاتھ سے بائيں پر پانى ڈالتے اور اپنى شرمگاہ دھوتے، پھر نماز والا وضوء كرتے، اور پھر پانى لے كر اپنے بالوں كى جڑوں تك پہنچاتے حتى كہ جب ديكھتے كہ بال تر ہو چكے ہيں تو پھر اپنے سر پر تين چلو بھر كر پانى ڈالتے، پھر سارے جسم پر پانى بہاتے اور بعد ميں اپنے پاؤں دھوتے "

صحيح مسلم حديث نمبر ( 474 ).

شيخ ابن عثيمين رحمہ اللہ تعالى اس حديث كى شرح كرتے ہوئے كہتے ہيں:

غسل جنابت ميں بالوں كے نيچے تك پانى پہنچانا واجب ہے، چاہے بال بہت ہى زيادہ ہوں.

نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كا بالوں ميں اپنى انگلياں ڈالنا اور تين بار چلو بھر كر پانى ڈالنے سے يہى اخذ كيا جاتا ہے كہ يہ بالوں كى جڑيں تر كرنے كے بعد ہے. اھـ

ديكھيں: شرح بلوغ المرام صفحہ نمبر ( 399 ).

شيخ عبد العزيز بن باز رحمہ اللہ:

جو عورتيں غسل جنابت ميں اپنے سر دھونے ميں حرج محسوس كرتى ہيں ان كى راہنمائى كے ليے يہ كہا جاتا ہے كہ وہ اپنے سارے سر پر تين چلو پانى ڈالنا ہى كافى ہے، اور اس كى كوئى ضرورت نہيں كہ وہ اپنے بالوں كى حالت كو بدلے جس ميں اسے مشقت ہوتى ہو، اس كے ساتھ ساتھ يہ بھى بيان كيا جائے كہ جب عورتيں احكام شريعت پر عمل كرنے ميں صبر كريں تو ان كے ليے اجر عظيم اور بہتر انجام ہے اور اچھى اور بہتر اور ابدى زندگى كا حصول ہے "

ديكھيں: مجموع فتاوى الشيخ عبد العزيز بن باز رحمہ اللہ ( 6 / 236 ).

مزيد تفصيل كے ليے سوال نمبر ( 34776 ) كے جواب كا مطالعہ ضرور كريں.

واللہ اعلم .

ماخذ: الاسلام سوال و جواب