اتوار 21 جمادی ثانیہ 1446 - 22 دسمبر 2024
اردو

كيا مظلوم ظالم كى لا علمى ميں اپنا حق لے سكتا ہے؟

سوال

ميں ہميشہ حلال كى حرص اور حرام سے اجتناب كرتا ہوں، ميں ايك يہودى كى ملكيت تجارتى كمپنى ميں ملازم ہوں، جس كى كئى ايك دوكانيں اور شاخيں ہيں، اس نے حكومت سے مال لينے كے ليے اچانك ان دوكانوں كو بند كر ديا، اور بغير كسى سبب كے ملازمين كو كام سے روك ديا اور ان كى تنخواہيں بھى بند كرديں، صرف اپنے پاس پانچ اشخاص كو رہنے ديا ميں بھى انہيں ميں شامل ہوں، اور اس كے بعد ايك نئى دوكان كھول لي، پچھلى تنخواہيں نہيں مليں، بلكہ ہمارے حقوق سے بھى بہت كم مقدار ميں رقم ہميں دى.
اس وقت دوكان بہت كامياب چل رہى ہے ليكن وہ ہميں رقم ادا نہيں كرتا، ہر وقت يہى كہتا ہے كہ ميرے پاس رقم نہيں، تنخواہ نہ ملنے كى بنا پر ہميں مشكلات كا سامنا كرنا پڑ رہا ہے، كيونكہ ہمارا ذريعہ آمدن صرف يہى ہے، ملازمين ميں سے ميرے ايك ساتھى كا كہنا ہے كہ ہم دوكان كى آمدن سے يوميہ تنخواہ لے ليا كريں، اور جب مہينہ كے آخر ميں ہميں تنخواہ ملے تو يہ تنخواہ دوكان كے اكاؤنٹ ميں واپس كرديں گے، اور اس نے ايسا كرنا بھى شروع كر ديا ہے، ليكن ميں حرام سے ڈرتا ہوں، اور اس وقت مالى مشكلات سے بھى دوچار ہوں، ميں نے سنا ہے كہ وہ ہميں تنخواہ ادا كيے بغير ہى ملازمت سے نكال رہا ہے، آپ سے گزارش ہے كہ اس مسئلہ كو ہمارے ليے وضاحت كے ساتھ بيان كريں اور كچھ وعظ و نصيحت بھى كريں، ايك بار پھر ميں اخلاص اور امانت كے ساتھ كام كر رہا ہوں، ليكن وہ يہودى اور منافق ہے ؟

جواب کا متن

الحمد للہ.

علماء كرام كے ہاں يہ مسئلہ " مسئلۃ الظفر" كے نام سے موسوم ہے، اوراس ميں علماء كرام كا اختلاف ہے.

بعض علماء كرام نے اپنے غصب شدہ حقوق ظالم سے لينے سے منع كيا ہے، اور بعض نے اس شرط كے ساتھ جائز كہا ہے كہ: وہ اپنے حق سے زيادہ نہ لے، اور ذلت و رسوائى اورسزا ملنے كا ڈر نہ ہو، اور دونوں قولوں ميں سے صحيح بھى يہى ہے.

شيخ شنقيطى رحمہ اللہ تعالى كہتے ہيں:

اگر كوئى شخص آپ پر ظلم كرتے ہوئے آپ كا كچھ مال بغير كسى شرعى وجہ سے چھين لے، اور آپ كے پاس اس كا كوئى ثبوت بھى نہ ہو، اور آپ اتنے ہى مال پر جتنا كہ آپ پر ظلم ہوا ہے برترى كى بنياد پر قادر ہو جائيں، اس كے ساتھ آپ كو ذلت و رسوائى اور سزا سے بھى بچ رہے ہوں، تو كيا آپ اپنے حق جتنا مال لے سكتے ہيں يا نہيں؟

دو قولوں ميں صحيح اور نصوص اور قياس كے ظاہر پر زيادہ جارى يہى ہے كہ آپ بغير كسى زيادتى كے اپنے حق جتنا لے سكتے ہيں؛ كيونكہ فرمان بارى تعالى ہے:

تو تم انہيں اتنى سزا دو جتنى تمہيں دى گئى تھى... الآيۃ

اور فرمان بارى تعالى ہے:

لہذا تم بھى ان پر اتنى ہى زيادتى كرو جتنى تم پر كى گئى ہے.

اس قول كے قائلين ميں ابن سيرين، اور ابراہيم النخعى، سفيان، اور مجاھد وغيرہ رحمہم اللہ تعالى شامل ہيں.

اور علماء كرام كے ايك گروہ جن ميں امام مالك، شامل ہيں كا كہنا ہے كہ:

ايسا كرنا جائز نہيں.

خليل بن اسحاق مالكى نے اپنى مختصر ميں وديعت كے بارہ ميں كہتے ہيں:

اسے كوئى حق نہيں كہ وہ اس ميں سے اتنا ركھ لے جتنا اس پر ظلم ہوا ہے، اس قول كے قائلين نے مندرجہ ذيل حديث سے استدلال كيا ہے:

" جس نے آپ كے پاس امانت ركھى ہے اسے امانت واپس لوٹاؤ، اور جس نے تمہارے ساتھ خيانت كى اس كے ساتھ تم خيانت نہ كرو" اھـ

يہ حديث - اگر يہ حديث صحيح ہے تو - اس ميں استدلال سے كوئى فرق نہيں پڑتا؛ كيونكہ جس نے اپنے حق جتنا ليا اور اس ميں كچھ زيادتى نہ كرے اس نے خيانت كرنے والے كے ساتھ خيانت نہيں كى، بلكہ اس نے اپنے نفس كےساتھ انصاف كيا ہے جس نے اس كے ساتھ ظلم كيا تھا.

ديكھيں: اضواء البيان ( 3 / 353 ).

جيسا كہ ابو زرعہ عراقى رحمہ اللہ تعالى نے " طرح التثريب" ميں نقل كيا ہے كہ: امام بخارى، اور امام شافعى رحمہ اللہ تعالى كا قول يہى ہے.

ديكھيں: طرح التثريب ( 8 / 226 ).

اور امام ترمذى رحمہ اللہ تعالى نے نقل كيا ہے كہ بعض تابعين كا بھى يہى قول ہے، اور ان ميں سفيان ثورى رحمہ اللہ تعالى كا نام بھى ذكر كيا ہے.

اور مانعين نے جس حديث سے استدلال كيا ہے وہ ابو ہريرہ رضى اللہ تعالى عنہ سے مروى ہے، جس ميں نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كا فرمان ہے:

" جس نے تيرے پاس امانت ركھى تم اسے اس كى امانت واپس لوٹاؤ، اور جس نے تيرے ساتھ خيانت كى تم اس كے ساتھ خيانت مت كرو"

جامع ترمذى حديث نمبر ( 1264 ) سنن ابو داود حديث نمبر ( 3535 ) علامہ البانى رحمہ اللہ تعالى نے السلسلۃ الصحيحۃ ( 423 ) ميں اس حديث كو صحيح قرار ديا ہے.

لھذا آپ كو يہ حق حاصل ہے كہ آپ كام كے مالك يہودى كے مال سے اپنا حق لے ليں، ليكن شرط يہ ہے كہ اپنے حق سے زيادہ نہ ليں، اور آپ كو اس كا خدشہ نہ ہو كہ آپ كے معاملے كا انكشاف ہو جائے گا، اور اسلام كو ذلت و رسوائى كا سامنا كرنا پڑے، كيونكہ آپ لوگوں كے سامنے اپنا حق ثابت نہيں كرسكتے، اور اگر اس كے بعد وہ يہودى آپ كو آپ كا پورا يا كچھ حق ادا كر دے، تو آپ كو اپنے حق سے وصول شدہ زيادہ رقم واپس كرنا ہو گى.

واللہ اعلم .

ماخذ: الاسلام سوال و جواب