جمعہ 21 جمادی اولی 1446 - 22 نومبر 2024
اردو

شادی شدہ عورت سے شادی کی تو گھر والے مخالفت کرتے ہیں

27173

تاریخ اشاعت : 18-12-2004

مشاہدات : 12432

سوال

میں ایک مسلمان شخص ہوں اوراپنے گھروالوں کی موافقت کے بغیر چار بچوں کی ماں سے شادی کرنے کے بعد سعادت کی زندگي بسر کررہا ہوں ، ہم قرآن مجید کی تلاوت اورنمازوں کی پابندی کرتے ہیں ، اس عورت سے شادی کرنے کا مقصد یہ تھا کہ اس کے بچوں کی تربیت ہو اوراس کی زندگی میں اس کا تعاون کروں ۔
میرے والدین کااس شادی سے انکار کا سبب یہ ہے کہ میں کسی دوسرے شخص کا بوجھ کیوں اٹھا رہا ہوں ، یہ اس کے علاوہ ہے جو ذلت انہیں اپنے ‏عزیز واقارب سے حاصل ہوگی ۔ میں نے انہيں مندرجہ ذیل باتیں کہیں :
میں اس ذمہ داری کواٹھانے پر خوش ہوں اورسعادت مندی محسوس کرتا ہوں ، اورپھر یہ بھی ہے کہ میں اپنی طاقت سے زيادہ اپنے آپ کو تکلیف نہيں دیتا ۔
میں اس عورت جسے مالی اورنفسیاتی اورصحت کی مشکلات کا سامنا ہے کا تعاون کیوں نہ کروں اوراسے ایک نئی زندگی کیوں نہ دوں ، میرے عزیز واقارب صرف بیوی کے حسن وجمال اورخوبصورتی اوراس کے مال ودولت کو اہمیت دیتے ہیں انہيں دین کا کوئي فکر نہیں ۔
ہر قسم کی وضاحت کرنے کے باوجود انہوں نے میری اس شادی کی مخالفت کی لیکن اس کے باوجود میں نے یہ شادی کرلی اوراب میں ہنسی خوشی اورسعادت کی زندگي بسر کررہا ہوں ، اورہر وقت توبہ کرتا رہتا ہوں کہ میں نے اپنے والدین سے سختی کا مظاہرہ کیا ۔
میں نے ایک مولانا صاحب کو یہ کہتے ہوئے سنا : کہ جنت ماؤں کے قدموں تلے ہیں " ( میرے خیال میں ایسے ہی سنا ہے ) میں گناہ محسوس کرتا ہوں اس لیے آپ سے گزارش ہے کہ آپ مجھے بتائيں کہ اب مجھے کیا کرنا چاہیے؟

جواب کا متن

الحمد للہ.

اول :

آپ نے جو کچھ ایک مشکل میں پھنسی ہوئي بچوں والی عورت سے شادی کرکے کام کیا ہے وہ بہت اچھا اورقابل تحسین ہے اس پر آپ کو اللہ تعالی اجر عظیم عطا فرمائے گا ، اورپھر خاص کر جب وہ عورت دین والی بھی ہے جیسا کہ آپ کے سوال سے ظاہر ہورہا ہے ۔

شریعت اسلامیہ نے دین والی عورت سے شادی کرنے کی رغبت دلائي ہے کیونکہ وہ اس کے لیے ایک اچھی بیوی ثابت ہوگي ، آپنے آپ کی بھی اوراپنے خاوند کی بھی حفاظت کرے گی اور اولاد کی بھی اس طرح تربیت کرے جو اللہ تعالی کو پسند ہے ۔

اپنے خاوندکی نافرمان نہيں ہو گي بلکہ اس کی اطاعت کرے گی ، شریعت اسلامیہ میں کنواری لڑکی سے شادی کرنا شادی شدہ کے مقابلہ میں افضل اورمستحب ہے ، لیکن بعض اوقات شادی شدہ کنواری سے بھی افضل اوربہتر ہوتی ہے مثلا جب اس سے شادی کرنے میں کوئي مصلحت ہو جو کنواری سے شادی کرنے میں نہ پائي جائے ، یا پھر شادی شدہ دینی اوراخلاقی طورپر کنواری سے بہتر ہو ۔

جابر بن عبداللہ رضي اللہ تعالی عنہما بیان کرتے ہیں کہ میں رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے پوچھا اے جابر کیا تونے نکاح کرلیا ہے ؟ میں نے جواب میں عرض کیا جی ہاں نکاح کرلیا ہے ، نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا کنواری سے یا شادی شدہ سے ؟

میں نے عرض کی اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم شادی شدہ سے نکاح کیا ہے ، نبی صلی اللہ علیہ وسلم فرمانے لگے : کنواری لڑکی سے کیوں نہيں کیا تواس سے خوش طبعی کرتا وہ تجھے کھلاتی ، میں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے کہا :

میرے والد جنگ احد میں شہید ہوگئے اور اپنے پیچھے نو بیٹیاں چھوڑیں ، میں نے یہ ناپسند کیا کہ میں انہی جیسی ہم عمر لڑکی ان کے پاس گھر میں لے آؤں ، اس لیے مجھے یہ پسند آيا کہ میں ایسی عورت لاؤں کوان کی تربیت کرے اوران کا خیال رکھے اوراصلاح کرے ، نبی صلی اللہ علیہ وسلم فرمانے لگے : اللہ تعالی آپ کے لیے برکت پیدا کرے یا پھر مجھے خیروبھلائي کی دعا کی ۔ صحیح بخاری حديث نمبر ( 4052 ) صحیح مسلم حدیث نمبر ( 715 )

اورایک روایت میں ہے کہ : تو نے اچھا کیا ہے ۔

اورمسلم شریف کی روایت میں ہے کہ : آپ نے اچھا کیا ہے ، عورت یا تو اپنے دین اورمال اورخوبصورتی وجمال کی بنا پر نکاحی جاتی ہے ، تیر ہاتھ خاک میں ملیں دین والی کو اختیار کر ۔

امام شوکانی رحمہ اللہ تعالی نیل الاوطار میں کہتے ہیں :

اس میں کنواری لڑکیوں سے نکاح کرنے کےاستحباب کی دلیل پائي جاتی ہے ، لیکن اگر شادی شدہ سے نکاح کرنے کی کوئي ضرورت پیش آئے توپھر کنواری سے نہیں بلکہ شادی شدہ سے جس طرح کہ جابر رضي اللہ تعالی عنہ کے ساتھ ہوا ۔ ا ھـ دیکھیں نیل الاوطار للشوکانی ( 6 / 126 ) ۔

امام سندی رحمہ اللہ تعالی کہتے ہيں :

فذاک : اس کا معنی یہ ہے کہ کہ تو نے جو شادی شدہ عورت سے شادی کی وہ بہتر اور اچھا کیا ہے ۔ ا ھـ

توآپ نے بھی اس شادی شدہ بچوں والی عورت سے شادی کرکے ایک اچھا اوربہتر کام کیا ہے اب اس کےبعد لوگوں کی باتوں سے آپ کو کوئي نقصان نہیں ، آپ نے بھی وہی کام کیا ہے جو نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے کیا تھا ، اس لیے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی اکثر ازواج مطہرات بھی کنواری نہیں بلکہ پہلے سے شادی شدہ تھیں ۔

آپ کی شادی میں آپ کے گھر والوں کی رضامندی اورموافقت شرط نہيں ، اورخاص کر جب ان کی مخالفت اس وجہ سے ہو جو کہ آپ نے بیان کی ہے ، اس مسئلہ کےبارہ میں شیخ عبداللہ بن حمید کا فتوی سوال نمبر ( 20152 ) کے جواب میں بیان کیا جا چکاہے آپ کے لیے اس کا مطالعہ کرنا بہت ہی اہم ہے۔

اس کے ساتھ ساتھ آپ پر یہ ضروری ہے کہ آپ نے اپنے والدین کے ساتھ جو سختی کی ہے اس کی اسغفار کریں اوران سے معافی طلب کریں ، آپ پرواجب ہے کہ آپ اپنے والدین کے ساتھ نرمی اور مہربانی کا برتاؤ کریں اورانہیں راضی کرنے کی کوشش کریں ، اوران کے ساتھ اگر ضرورت پیش آئے تواچھے اوراحسن انداز سے بات چیت کریں تا کہ وہ مطمئن ہوسکیں ۔

اس سے آپ دو چیزوں کو جمع کرلیں گے ایک تو آپ اپنی رغبت اورمرضی کی شادی اوردوسری اپنے والدین کی رضا جو کہ اہم بھی ہے ۔

دوم :

وہ حدیث جس میں یہ بیان ہوا ہے کہ : ( جنت ماؤں کے قدموں کے نیچے ہے ) یہ حدیث ان الفاظ کے ساتھ صحیح نہیں ۔

ابن عباس اورانس رضي اللہ تعالی عنہ دونوں سے یہ حدیث وارد ہے ۔

ابن عباس رضي اللہ تعالی عنہ کی روایت ابن عدی رحمہ اللہ تعالی اپنی کتاب " الکامل " میں ذکر کرنے کے بعد کہا کہ ہے کہ یہ حدیث منکر ہے ۔ دیکھیں : الکامل لابن عدی ( 6 / 347 ) ۔

اورانس رضي اللہ تعالی عنہ کی روایت خطیب بغدادی رحمہ اللہ تعالی نے روایت کی ہے اوریہ بھی ضعیف ہے ۔

عجلونی کا کہنا ہے کہ : اس باب میں ایک حدیث اوربھی ہے جسے خطیب نے اپنی جامع میں اورقضاعی نے اپنی مسند میں انس رضي اللہ تعالی عنہ سے مرفوعا روایت کیا ہے کہ " جنت ماؤ‎ں کے قدموں کے نیچے ہے " اس کی سند میں منصور بن المھاجر ، اورابو النضر الاباردونوں ہی غیرمعروف راوی ہیں ۔

اوراسے خطیب نے بھی ابن عباس رضي اللہ تعالی عنہما سے ذکرکیا اوراسے ضعیف قرار دیا ہے ۔ دیکھیں : کشف الخفاء ( 1 / 401 ) ۔

اورشيخ علامہ البانی رحمہ اللہ تعالی ابن عباس کی روایت کے متعلق کہتے ہیں کہ یہ روایت موضوع ہے ، اورپھر کہتے ہیں :

اس سے ہمیں حدیث معاویہ بن جاھمۃ رضي اللہ تعالی عنہ مستغنی کردیتی ہے وہ کہتے ہیں کہ میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا اورانہیں کہنے لگا کہ میں جھاد میں جانا چاہتا ہوں اورآپ سے مشورہ کرنے آیا ہوں ، تونبی صلی اللہ علیہ وسلم فرمانے لگے : کیا تیری والدہ ہے ؟ میں نے جواب دیا جی ہاں ، نبی صلی اللہ علیہ وسلم فرمانے لگے : اس کی خدمت کرو کیونکہ جنت اسے کی ٹانگوں کے نیچے ہے ۔

سنن نسائی ( 2 / 54 ) وغیرہ نے روایت کیا ہے مثلا طبرانی ( 1 / 225 / 2 ) ان شاء اللہ اس کی سند حسن ہے اورامام حاکم رحمہ اللہ تعالی نے اسے صحیح قراردیا ہے دیکھیں مستدرک الحاکم ( 4 / 151 ) ذھبی رحمہ اللہ تعالی نے بھی اس کی موافقت کی ہے اورامام منذری رحمہ اللہ تعالی نے بھی اس کی صحت برقرار رکھی ہے ( 3 / 214 ) دیکھیں السلسلۃ الصحیحۃ للالبانی ( 593 ) ۔

واللہ اعلم  .

ماخذ: الاسلام سوال و جواب