الحمد للہ.
حقيقت كي تلاش ميں سرگرداں شخص آپ كا سوال اس بات كي نشاندہي كرتا ہے كہ واقعتا آپ حقيقت كو پہچانتا چاہتےہيں، ليكن كيا آپ نے اس سے قبل اپنےآپ سے سوال نہيں كيا كہ ميں اس قليل سي چيز پر ہي كيوں اكتفا كررہا ہوں جو اسلام كےمتعلق معرفت ہے ؟ كيوں نہ ميں مسلمانوں سے اس دين كي مكمل معلومات حاصل كرلوں، اور اس كے لئے اگر مجھے ان كے پاس سفر كركےجانا پڑے تو ميں سفر بھي كرلوں؟ كيونكہ بہت سارے لوگ مال و دولت جمع كرنے اور سير وسياحت كے لئے سفر كرتے ہيں، يا اس كے علاوہ كئي مادى اور بعض اوقات غلط قسم كےمقاصد كي بنا پر بھي سفر كرتے رہتے ہيں؟!
قضيہ اور معاملہ انجام كار ہے؛ كيا يہ جائز نہيں كہ جس حقيقت نے آپ كے دلو كو دھلا كرركھ ديا اور آپ كي عقل كو قناعت اور اطمنان ديا ہے يہ اسي ميں ہے جو آپ اس دين اسلام كےبارہ ميں جانتےاور علم نہيں ركھتے، يا پھر مكمل اور صاف حق كي صورت ميں ہے جسےآپ ديكھ نہيں پا رہے؟
اے حقيقت كو تلاش كرنے والے انسان اس كے بعد معاملہ اور بھي بہت زيادہ خطرناك ہے: يا تو ہميشہ كےلئے جنت ہے يا پھر ہميشہ والي آگ !!
ليكن آپ اس سچي رغبت كےساتھ حقيقت كي معرفت اور اس سے بھي سچائى والے ارادہ كےساتھ اس كي اتباع كےبھي محتاج ہيں، اور پھر اس كا التزام كرنے كےلئے اپنےنفس كي قوت كي بھي ضرورت ہے، اگرچہ آپ اس سے قبل جو كچھ كرتے رہے ہيں اس كي مخالفت بھي كريں.
پھر جب آپ يہ سوال كر رہے ہيں تو آپ اس مريض كي طرح لگتے ہيں جو ڈاكٹر اور جراح كےنشتر اور اس كي تيزي كو ديكھ رہا ہو اور اپني اس بيماري كو بھول جائے جو اسے ہلاك كرنے كے درپے ہے، اور داغنے والے آلے اور اس كي جلن كو لعنت ملامت كرتا رہے اور اس جذام كو بھول جائے جو اسے كھا رہا ہے، يہ كوئي عقل مند لوگوں كي شان نہيں !!
قتل كا مستحق كون ہے دريافت كرنے سے قبل آپ نے اسلام ميں جھاد كے اہم اسباب كے متعلق كيوں نہيں پوچھا ؟ !
اس كےاسباب وہ ہيں جنہيں نبي كريم صلى اللہ عليہ وسلم كے صحابہ ميں سے ربعي بن عامر رضي اللہ تعالي عنہ وغيرہ نے اختصار كےساتھ فارس كے قائد اور بادشاہ رستم كے سامنے جنگ قادسيہ مين نقل كئےجبكہ رستم معركہ سے تين دن متواتر ہر ايك سے يہي سوال كرتا رہا كہ تمہيں كونسي چيز يہاں لائى ہے؟
توجواب يہ تھا:
ہميں اللہ تعالى نے اس كام پر مقرر كيا ہے كہ جسے وہ چاہے اسے ہم بندوں كي عبادت سے نكال كر اللہ وحدہ كي عبادت كي طرف ، اور دنيا كي تنگي سے اس كي وسعت كي طرف، اور اديان كےجور ظلم سے دين اسلام كے عدل وانصاف كي جانب لےجائيں...
لھذا اللہ تعالى نے اپنے رسول صلى اللہ عليہ وسلم كو دين اسلام دے كر اپني مخلوق كي جانب بھيجا، اس دين كو ہم ميں سے جس نے قبول كيا ہم اس سے اسے قبول كرتے اور اس سے واپس پلٹ جاتے ہيں اور اسے اور اس كي زمين كو چھوڑ ديتے ہيں اور جو كوئي اسے قبول كرنے سے انكار كرتا ہے ہم اس سے جنگ كرتے ہيں حتي كہ ہم جنت ميں چلے جائيں يا پھر ہميں مدد حاصل ہو جائے.
واقع انساني آج بھي اور كل بھي يہ ہے كہ يہ دين بہت سے منحرف عقائد اور باطل افكار اوس سياسي و عسكري اور اجتماعي اور اقتصادي اور عنصري آزمائشوں اور مشكلات سے گزرتا رہا ہے.... اور يہ اس كے ساتھ مختلط ہوتے رہتے اور اس كے ساتھ بہت شديد صورت ميں مقابلہ ہوتا ہے تا كہ بالآخر اس كا نتيجہ يہ نكلے كہ لوگوں كو دين اسلام سے برگشتہ كيا جائے اور اس كے راستے سے روكا جائے !!
اور اگر تو بحث ومباحثہ قولي اور مناظرہ اچھے اور بہتر طريقہ سے ہو تو يہ دونوں منحرف افكار اور عقائد كا سامنا كرتےہيں، كيونكہ جہادي تحريك كئي ايك مادي مشكلات كا سامنا كرتى ہے، اس ميں سب سے پہلى سياسي سلطہ جو ان عوامل اور اسباب پر قائم ہے اور اس كے تھپيڑے سياسي اور عسكري قوت كو لگتےہيں جو اللہ تعالي كے علاوہ لوگوں كي معبود بني ہوئي ہے، يعني غير شرعي احكام كا نفاذ اور اس كا حكم، اور جو چيز ان كےاس بيان كو سننے اور اس عقيدہ كو تھامنے كےمابين حائل ہوتا ہے ايسي حريت اور آزادي جس پر كوئي زور نہيں چل سكتا، اور وہ دونوں ايك ساتھ بينا اور جہادي تحريك واقع بشري كا سامنا كرتي ہيں.
ديكھيں: معالم في الطريق صفحہ ( 59 ) اور اس كے بعد كےصفحات .
تواس سے يہ ظاہر ہوا كہ :
( مشروع اور جائز قتال جہاد ہي ہے، اور اس كا مقصد يہ ہے كہ سارے كا سارا دين اللہ كا ہو، اور اللہ كا كلمہ بلند ہو، لھذا جو بھي اس سے ركا اور اس نے دين اسلام قبول نہ كيا اس سے قتال كيا جائےگا، اس پر مسلمانوں كا اتفاق ہے، ليكن جو لڑائي اور ممانعت كے اہل نہيں مثلا عورتيں اور بچے اور راہب و درويش اور نابينے اور بيمار، تو جمہور علماء كرام كےہاں انہيں قتل نہيں كيا جائےگا الا يہ كہ وہ اپنےقول يا پھر فعل سے قتال كرے... كيونكہ جنگ اور قتال اس كے ساتھ ہے جو ہمارے ساتھ اس وقت جنگ كرے جب ہم اللہ تعالى كے دين كو ظاہر كرنا چاہيں، جيسا كہ اللہ تعالى كا فرمان ہے:
اور اللہ تعالى كے راستے ميں ان لوگوں سے جنگ كرو جو تمہارے ساتھ لڑائي كرتےہيں اور زيادتي نہ كرو بلاشبہ حد سے بڑھنےوالوں كےساتھ اللہ تعالى محبت نہيں كرتا ) البقرۃ ( 190 ).
اور حديث ميں يہ ثابت ہے كہ ہمارے نبي صلى اللہ عليہ وسلم كسي معركہ ميں ايك مقتولہ عورت كے پاس سے گزرے اوروہاں لوگ اكھٹے ہو چكے تھے، تو رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا: ( اس سے تو لڑائي نہيں تھي ) اور ايك شخص كو خالد بن وليد رضي اللہ تعالى عنہ كي طرف روانہ كيا جو كہ لشكر كے اگلے حصہ پر امير تھے او اس شخص كو فرمايا كہ اسے كہنا نہ تو بچوں كو قتل كرو اور نہ ہي ملازم كو". ہوسكتا ہے اس سے مراد يہ ہے كہ جب اس كے پاس اسلحہ نہ ہو، سنن ابوداود حديث نمبر ( 2669 ) علامہ البانى رحمہ اللہ تعالى نے صحيح ابوداود ( 2324 ) ميں اسے حسن صحيح كہا ہے.
اور يہ اس لئے كہ اللہ تعالى نے جانوں كا قتل اس لئے مباح كيا كہ مخلوق كي اصلاح كے لئے اس كي ضرورت تھي جيسا كہ مندرجہ ذيل فرمان باري تعالى ميں ہے:
اور فتنہ قتل سے بھى بڑا گناہ ہے البقرۃ ( 217 )
يعنى اگرچہ قتل ميں شر و فساد ہے ليكن كفار كے فتنہ ميں شروفساد اس سے بھي بڑھ كر ہے، لھذا جو كوئي كسي مسلمان كو دين اسلام پر عمل پيرا ہونے سے نہيں روكتا اس كے كفر كا نقصان صرف اس كي جان كو ہي ہے... اھ ديكھيں السياسۃ الشرعيۃ تاليف ابن تيميۃ ( 165-167 ) كچھ تصرف كےساتھ.
اور يہاں ايك امر قابل تنبيہ ہے وہ يہ كہ: بني نوع انسان ميں عداوت و دشمني اور لڑائي جھگڑا اور ظلم وزيادتي زمانہ قديم سے چلي آرہي ہے، اورجب تك نفس ميں لالچ اور خواہشات ہيں اور جب تك بني نوع انسان ميں خير اور شر موجود ہے يہ رہےگي:
ابن خلدون رحمہ اللہ تعالى كہتےہيں:
( جب سے اللہ تعالى نے مخلوق بنائي ہے اس وقت سے جنگ اور لڑائى جھگڑے جارى ہيں، اوراس كي اصل بعض انسانوں كا بعض سے انتقام لينا ہے.. اور يہ طبعي امر ہے اس سے كوئي امت اور كوئي نسل خالي نہيں ہو سكتي )
اور قديمي عيسائيوں كےمختلف فرقوں كا آپس ميں جو جنگ وجدال ہوا اس وقت مسلمان كہاں تھے، اور پھر پروٹسٹنٹ فرقے كو جو تكاليف اور ظلم كيتھولك عيسائيوں نے پہچايا وہ ؟ !
اور پھر دونوں عالمي جنگوں ميں مسلمان كہاں تھےكيا ان كا اس ميں كوئي عمل دخل تھا؟ اور پھر ہيروشيما اور ناگا ساگي كےسانحہ ميں كونسے مسلمان ملوث تھے؟ !
ہميں حق حاصل ہے كہ ہم كانٹ ہنري ڈي كاسٹري كےساتھ يہ كہيں: ( اقرب الي الصواب بات يہي ہے كہ مسلمانوں كي سلطنت كے خاتمہ ميں ان كي نرمي اور صلح پسندي ہي سبب اور كارفرما تھي )
اللہ عظيم نے سچ فرمايا:
يہ وہ ہيں جنہيں ناحق ان كے گھروں سے نكالا گيا، صرف ان كے اس قول پر كہ ہمارا پروردگار فقط اللہ ہے، اگر اللہ تعالى لوگوں كو آپ ميں ايك دوسرے سے نہ ہٹاتا رہتا تو عبادت خانےاور گرجے اور مسجديں اور يہوديوں كے معبد اور وہ مسجديں بھي منہدم كردي جاتيں جہاں اللہ تعالى كا نام كثرت سے ليا جاتا ہے، جو اللہ تعالى كي مدد كرے گا بيشك اللہ تعالى بھي ضرور اس كي مدد كرے گا، بيشك اللہ تعالى بڑي قوتوں والا اور بڑے غلبے والا ہے الحج ( 40 ).
ہوسكتا ہے جب آپ اس پر غور كريں اور پھر نبي كريم صلى اللہ عليہ وسلم كا مندرجہ ذيل فرمان سنيں :
( اللہ تعالى اس قوم سے تعجب كرتا ہے جو زنجيروں كےساتھ جنت ميں داخل ہوگي ) صحيح بخاري حديث نمبر ( 3010 )
اور فرمان ہے:
تم بہترين امت ہو جو لوگوں كے لئےنكالى گئي ہے، انہوں نے كہا لوگوں كےلئے لوگوں ميں بہتر وہ ہيں جنہيں تم ان كي گردنوں ميں زنجيروں كےساتھ لاؤ گے حتى كہ وہ اسلام ميں داخل ہو جائيں. صحيح بخاري حديث نمبر ( 4557 ) .
يعني ان كا دوسروں سے لڑائي كرنا اورپھر ہو سكتا ہے ان ميں سے بعض قيد ہو جائيں يا دوسروں كي قوت اور طاقت كے سامنے جھك جائيں اور پھر اسلامي تعليمات سے روشناس ہو كر اسلام ميں داخل ہو جائيں حالانكہ وہ ابتدائي طور پر اسلام كو ناپسند كرتے تھے...
ہو سكتا ہے اگر تم ايسا كرو تو ڈاكٹر كا ہاتھ چومنے لگو، چاہے آپ كي جلد پر اس كے نشتر كا نشان بھي باقي رہے..
واللہ اعلم .