سوموار 22 جمادی ثانیہ 1446 - 23 دسمبر 2024
اردو

اذان کے بعد اس گمان سے پانی پینا کہ ابھی طلوع فجرنہيں ہوئي

سوال

میں سوئے ہونے کے باعث اذان فجر نہيں سن سکا ، اس کا سبب یہ ہے کہ الارم کا وقت صحیح نہیں بلکہ پیچھے تھا ، میں نے جب ایک گلاس پانی پی لیا تو نماز کی اقامت ہوگئي اب مجھے کیا کرنا ہوگا مجھے فتوی دیکر عنداللہ ماجور ہوں ؟

جواب کا متن

الحمد للہ.


اہل علم کا صحیح قول یہی ہے کہ جس نے یہ گمان کرتے ہوئے کہ ابھی طلوع فجر نہيں ہوئي کھاپی لیا تواوراس بعد اسے علم ہوا کہ طلوع فجر تو ہوچکی ہے اس پر کچھ لازم نہیں آتا کیونکہ وہ وقت سے جاہل تھا لھذا وہ معذور ہوگا اورمعذور پر کچھ لازم نہيں آتا ۔

شیخ ابن عثيمین رحمہ اللہ تعالی کہتے ہیں :

جب کوئي شخص جہالت کی بنا پر روزہ توڑنے والی چيزتناول کرلے تواس کا روزہ صحیح ہے چاہےوہ وقت سے جاہل ہو یا حکم سے جاہل ہو اس میں کوئي فرق نہيں ۔

وقت سے جہالت کی مثال : رات کے آخر میں ایک شخص بیدار ہوا تواس کا گمان تھا کہ ابھی طلوع فجرنہیں ہوئي ، تواس نے کھا پی لیا لیکن بعد میں علم ہوا کہ طلوع فجر تو ہوچکی ہے تواس شخص کا روزہ صحیح ہے کیونکہ وہ وقت سے جاہل تھا ۔

حکم سے جہالت کی مثال : کوئي شخص پچھنے اورسنگی لگوائے اوراسے یہ علم نہ ہو کہ ایسا کرنے سے سے روزہ ٹوٹ جاتا ہے ، ہوہم اسے کہیں گے کہ آپ کا روزہ صحیح ہے اس کی دلیل یہ ہے کہ :

اللہ سبحانہ وتعالی کافرمان ہے :

اے ہمارے رب ! اگر ہم بھول گئے ہوں یا خطا کی ہو تو ہمیں نہ پکڑنا ، اے ہمارے رب ! ہم پر وہ بوجھ نہ ڈالنا جو ہم سے پہلے لوگوں پر ڈالا تھا ، اے ہمارے رب ! ہم پروہ بوجھ نہ ڈال جس کی ہم میں طاقت نہ ہو اورہم سے درگزر فرما اورہمیں بخش دے اورہم پر رحم کر تو ہی ہمارا مالک ہے ، ہمیں کافروں کی قوم پر غلبہ عطا فرما البقرۃ ( 286 ) ۔

یہ توقرآنی دلیل ہے ، اورسنت نبویہ میں بھی اس کی دلیل پائي جاتی ہے :

اسماء بنت ابی بکر رضی اللہ تعالی عنہا بیان کرتی ہیں کہ :

ہم نے رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے دور میں ایک بار آسمان ابرآلود ہونے کی وجہ سے روزہ افطاری کرلیا اورپھر سورج طلوع ہوگیا ۔ رواہ البخاری

تواس طرح انہوں نے دن میں ہی روزہ افطار کرلیا لیکن انہیں یہ علم نہیں تھا کہ سورج غروب ہوچکا ہے بلکہ ابرآلود ہونے کی وجہ سے گمان کیا کہ سورج غروب ہوچکا ہے ، لیکن اس کے باوجود نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے انہيں روزہ کی قضاءکا حکم نہيں دیا ، اوراگر قضاء واجب ہوتی تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم انہیں اس کا حکم دیتے اوراگر قضاء کا حکم دیا ہوتا تواسے ہم تک نقل کیا کردیا جاتا ۔

دیکھیں : مجموع الفتاوی ( 19 ) ۔

آپ مزيد تفصیل کے لیے سوال نمبر ( 38543 ) کے جواب کا مطالعہ ضرور کریں ۔

واللہ اعلم .

ماخذ: الاسلام سوال و جواب