الحمد للہ.
اگر کوئی روزے دار اپنا تھوک ہونٹ تک آنے کے بعد دوبارہ نگل جاتا ہے تو شافعی اور حنبلی فقہائے کرام کے ہاں اس کا روزہ ٹوٹ گیا ہے؛ کیونکہ لعاب یا تھوک اپنی اصل جگہ یعنی منہ کے اندرونی حصے سے جدا ہو چکا ہے لہذا اب اس کو دوبارہ نگلنا دیگر بیرونی اشیا کے نگلنے والا حکم رکھے گا۔
امام نووی رحمہ اللہ ایسے لعاب اور تھوک کو نگلنے کے متعلق گفتگو کرتے ہوئے کہتے ہیں جس سے روزہ نہیں ٹوٹتا :
"روزے دار تھوک کو اس کی جگہ [یعنی منہ کے اندرونی حصے] سے ہی نگل جائے۔ لیکن اگر وہ منہ سے باہر نکل جائے اور پھر روزے دار اسے زبان یا بغیر زبان استعمال کئے واپس اندر لے جائے اور اسے نگل لے تو اس کا روزہ ٹوٹ جائے گا۔
ہمارے [شافعی] فقہائے کرام کہتے ہیں: چاہے اگر تھوک ہونٹ کی بیرونی جانب تک نکل آئے اور روزے دار اسے واپس لے جا کر نگل جائے تو اس کا روزہ ٹوٹ جائے گا؛ کیونکہ وہ اپنے اس عمل سے کوتاہی کا شکار ہوا ہے، نیز [اس لیے بھی روزہ ٹوٹ جائے گا کہ] تھوک اس جگہ سے نکل آیا ہے جہاں سے واپس نگلنے میں کوئی حرج نہیں ہوتا ۔ متولی کہتے ہیں کہ: اگر تھوک ہونٹ تک نکل آئے پھر اسے واپس لے جا کر نگل جائے تو اس کا روزہ ٹوٹ گیا" ختم شد
المجموع (6/ 342)
اور ابن قدامہ رحمہ اللہ کہتے ہیں:
"اگر تھوک اس کے کپڑے پر لگ گیا یا انگلیوں پر لگ گیا یا ہونٹوں کے درمیان آ گیا پھر اسے واپس لے جا کر نگل گیا ، یا کسی اور کا تھوک نگل گیا تو اس کا روزہ ٹوٹ گیا؛ کیونکہ اس نے اپنے منہ میں موجود تھوک نہیں نگلا، [بلکہ وہ باہر آ چکا تھا] تو اس کا حکم وہی ہے جیسے کہ اس نے تھوک کے علاوہ کوئی اور چیز نگل لی ہے" ختم شد
المغنی (3/ 17)
جبکہ حنفی فقہائے کرام اس بات کے قائل ہیں کہ روزہ اسی وقت ٹوٹے گا جب تھوک منہ سے جدا ہو گا، اور اسے پھر دوبارہ اپنے منہ میں لے جائے۔
چنانچہ فتح القدير (2/ 332) میں ہے کہ:
"اگر تھوک اس کے منہ سے نکل جائے اور وہ [روزے دار]اسے دوبارہ واپس لے جا کر نگل جائے: تو اگر منہ سے تھوک کا تعلق نہ ٹوٹے بلکہ جڑا ہوا ہو جیسے کہ دھار بن جاتی ہے تو وہ اسے دوبارہ نگل جاتا ہے ، اس سے اس کا روزہ نہیں ٹوٹے گا۔
لیکن اگر تعلق ٹوٹ گیا تھا تو وہ اسے دوبارہ منہ میں لے جا کر نگل گیا تو اس کا روزہ ٹوٹ گیا ، لیکن اس پر کفارہ نہیں ہو گا، بالکل اسی طرح جیسے وہ کسی دوسرے کا تھوک نگل جائے تو اس پر کفارہ نہیں آتا، بلکہ صرف روزہ ٹوٹتا ہے۔
اور اگر وہ اپنے منہ میں تھوک جمع کر کے نگل جاتا ہے، تو یہ مکروہ ہے، لیکن اس سے روزہ نہیں ٹوٹے گا" ختم شد
اسی طرح مجمع الأنهر (1/ 246) میں ہے کہ:
" اگر تھوک اس کے منہ سے نکل جائے اور وہ [روزے دار]اسے دوبارہ واپس لے جا کر نگل جائے: تو اگر منہ سے تھوک کا تعلق نہ ٹوٹے بلکہ جڑا ہوا ہو جیسے کہ دھار بن جاتی ہے تو وہ اسے دوبارہ نگل جاتا ہے ، اس سے اس کا روزہ نہیں ٹوٹے گا۔
لیکن اگر تعلق ٹوٹ گیا تھا تو وہ اسے دوبارہ منہ میں لے جا کر نگل گیا تو اس کا روزہ ٹوٹ گیا ، لیکن اس پر کفارہ نہیں ہو گا، بالکل اسی طرح جیسے وہ کسی دوسرے کا تھوک نگل جائے تو اس پر کفارہ نہیں آتا، بلکہ صرف روزہ ٹوٹتا ہے۔۔۔
اور اگر اس نے اپنے ہونٹ گفتگو کے دوران یا کسی اور موقع پر تھوک سے تر کئے اور پھر اسے نگل گیا تو اس کا روزہ نہیں ٹوٹے گا" ختم شد
اسی طرح الجوهرة النيرة (1/ 140) میں ہے کہ:
"اگر روزے دار کا لعاب ٹھوڑی تک بہہ گیا اور روزے دار نیند میں تھا یا بیدار تھا ہر دو حالت میں لعاب کو جسم سے جدا ہونے سے پہلے نگل لیتا ہے تو اس کا روزہ نہیں ٹوٹے گا" ختم شد
اس بارے میں ہمیں مالکی فقہائے کرام کی گفتگو نہیں مل سکی۔
آپ اگر حنفی فقہائے کرام کا موقف لیتے ہیں تو اس میں کوئی حرج نہیں ہے؛ کیونکہ آپ کو وسوسوں کی بیماری ہے، تو یہ ایک معتبر عذر ہے۔
اگرچہ بہتر یہی ہے کہ آپ عمداً ایسا مت کریں، نیز اپنے آپ پر وسوسوں کو بھی غالب نہ آنے دیں۔
واللہ اعلم