جمعہ 19 جمادی ثانیہ 1446 - 20 دسمبر 2024
اردو

بچوں کے ضدی پن کا بہترین علاج کیا ہو سکتا ہے؟

سوال

میرا سوال میری دو بیٹیوں کے متعلق ہے۔ ان کی عمریں 4 اور 2 سال ہیں۔ مجھے ان کی پرورش کرنا بہت مشکل لگتا ہے۔ جب بھی میں ان کے ساتھ نرمی سے پیش آنے کی کوشش کرتی ہوں، تو آخر کار میں چیختی ہوں، یا انہیں مارنے لگ جاتی ہوں ، یا ایسی باتیں کہہ جاتی ہوں جو میں نہیں کہنا چاہتی، اور مجھے اس بات سے نفرت ہوتی ہے میری بیٹیاں میری بات نہیں سنتیں، ان میں سے بڑی بیٹی کو میں کچھ کہہ دوں تو آگے سے تڑتڑ جواب دینے لگتی ہے، اور اب تو دوسری بیٹی بھی ضد کرنے لگی جس سے مجھے غصہ آتا ہے۔ واضح رہے کہ میری زندگی میں کچھ ایسے اتار چڑھاؤ آئے ہیں جن کی وجہ سے میں تناؤ کا شکار ہو گئی ہوں، تو اب اس کا حل کیا ہے؟ میں اپنی بیٹیوں کو فرمانبردار کیسے بنا سکتی ہوں؟ اور میں اپنے آپ کو زیادہ سے زیادہ صبر کرنے والی کیسے بنا سکتی ہوں؟

جواب کا متن

الحمد للہ.

بچوں کی پرورش بالعموم اور بیٹیوں کی پرورش کے لیے بالخصوص اللہ تعالی کی طرف سے بڑی اور خصوصی مدد کی ضرورت ہوتی ہے۔ قدیم زمانے میں کہا جاتا تھا: "والدین اپنے بچوں کی تربیت تو کر سکتے ہیں، لیکن ان میں صلاحیت اللہ کی طرف سے پیدا ہوتی ہے ۔ " ختم شد
" الآداب الشرعية لابن مفلح" (3/552)
یہ بات بچوں کی تربیت کے حوالے سے نہایت ہی عظیم اصول اور ضابطہ ہے؛ کیونکہ بہت سے والدین یہ سمجھتے ہیں کہ وہ بذات خود اپنے بچے کی تربیت کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں؛ کہ اس کے پاس تربیتی مہارت ہے، اس کے پاس عقلی صلاحیت بھی ہے اور نفسیاتی ملکہ بھی ہے!!

وہ یہ سمجھتا ہے کہ انہیں بہترین تعلیمی اداروں میں داخل کروانے سے ، انہیں جدید علوم کے ماہر بنانے ، معاشرے کے ایلیٹ کلاس لوگوں کے بچوں کے ساتھ پڑھانے سے بچوں کی نفسیات پر قابو پا لے گا اور ان کی سرگرمیوں کو اپنی نگرانی میں محدود کر دے گا۔

تو یہ نہایت ہی سنگین غلطی ہے!!

یہ بات ٹھیک ہے کہ والدین اپنی دسترس اور دستیابی کے مطابق بچوں کی اچھی تربیت کے لیے مفید اور اچھے اسباب و ذرائع اپنائیں۔

لیکن اصل بیماری اور خرابی یہ ہے کہ والدین کے دل صرف انہی اسباب اور ذرائع پر اعتماد کرنے لگتے ہیں، اور یہ سمجھتے ہیں کہ ان اسباب کو اپنانے کے بعد ہمیں کسی اور چیز کی ضرورت نہیں ہے!

حالانکہ جب اللہ تعالی انسان کو اسی کی ذات کے سپرد کر دے تو گمراہ، اور اگر انسانی علم کے سپرد کر دے تو رسوا ہو جاتا ہے۔

یہ دیکھیں ذرا ہمارے پیارے پیغمبر صلی اللہ علیہ و سلم کو دیکھیں، حالانکہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم اللہ کے رسول ہیں، آپ کی شان کے لیے یہی اعزاز کافی ہے، لیکن پھر بھی آپ صلی اللہ علیہ و سلم کو اللہ تعالی نے فرمایا: إِنَّكَ لَا تَهْدِي مَنْ أَحْبَبْتَ وَلَكِنَّ اللَّهَ يَهْدِي مَنْ يَشَاءُ ترجمہ: یقیناً آپ جسے چاہیں ہدایت نہیں دے سکتے، جبکہ اللہ تعالی جسے چاہے ہدایت دیتا ہے۔[القصص: 56]

اسی طرح اللہ تعالی کے نبی مکرم سیدنا نوح علیہ السلام کو دیکھیے کہ اپنے بیٹے کے لیے کچھ نہ کر سکے اور بیٹا کافروں سے جا ملا!!

چنانچہ جب سیدنا نوح علیہ السلام نے اپنے رب سے راز و نیاز کی باتیں کرتے ہوئے بیٹے کے حق میں عرض کی اور دعا فرمائی: رَبِّ إِنَّ ابْنِي مِنْ أَهْلِي وَإِنَّ وَعْدَكَ الْحَقُّ وَأَنْتَ أَحْكَمُ الْحَاكِمِينَ ترجمہ: میرے پروردگار! یقیناً میرا بیٹا میرے اہل بیت میں سے ہے، اور یقیناً تیرا وعدہ بھی حق ہے، اور تو ہی بہترین فیصلے کرنے والا ہے۔[ھود: 45]

تو اللہ تعالی نے سیدنا نوح علیہ السلام کو جواب میں فرمایا:
يَا نُوحُ إِنَّهُ لَيْسَ مِنْ أَهْلِكَ إِنَّهُ عَمَلٌ غَيْرُ صَالِحٍ فَلَا تَسْأَلْنِ مَا لَيْسَ لَكَ بِهِ عِلْمٌ إِنِّي أَعِظُكَ أَنْ تَكُونَ مِنَ الْجَاهِلِينَ
 ترجمہ: اے نوح! یقیناً وہ آپ کے اہل بیت میں سے نہیں ہے؛ کیونکہ اس کے عمل صالح نہیں ہیں۔ چنانچہ اب آپ مجھ سے کسی ایسی چیز کا سوال مت کرنا جس کا آپ کو علم نہیں ہے۔ یقیناً میں آپ کو نصیحت کر رہا ہوں کہ کہیں جاہلوں میں شامل نہ ہو جانا۔ [ھود: 46]

اسی لیے نبی مکرم صلی اللہ علیہ و سلم ہر روز صبح اور شام یہ دعا فرمایا کرتے تھے کہ: يَا حَيُّ يَا قَيُّوْمُ ، بِرَحْمَتِكَ أَسْتَغِيْثُ ، أَصْلِحْ لِيْ شَأْنِيْ كُلَّهُ ، وَلَا تَكِلْنِيْ إِلَى نَفْسِيْ طَرْفَةَ عَيْنٍ [ترجمہ: اے ہمیشہ سے زندہ اور دیگر چیزوں کو قائم رکھنے والی ذات میں تیری رحمت کے واسطے سے تیری مدد طلب کرتا ہوں، میرے سارے معاملات سنوار دے اور تو مجھے پلک جھپکنے کے برابر بھی تنہا مت چھوڑ۔] اس حدیث کو امام حاکم رحمہ اللہ نے روایت کیا ہے اور البانی رحمہ اللہ نے اسے "صحيح الجامع" (5820) میں حسن قرار دیا ہے۔

تو محترمہ ذرا غور کریں کہ آج کل کتنے ہی والدین ایسے ہیں جو اس بنیادی مفہوم سے غافل ہیں!

کیا ہم اپنے بچوں کی تربیت کے لیے محض اپنے آپ پر اعتماد نہیں کیے بیٹھے! کیا ہم یہ نہیں سمجھتے کہ جو کچھ ہمیں معلوم ہے اور ہمیں سمجھ حاصل ہے وہی ہمارے لیے کافی ہے؟

ہمیں تو ایسی ذات پر اعتماد کرنا چاہیے تھا جو کہ حقیقی ڈھارس ، ملجا اور ماوی ہے، اسی سے مدد اور نصرت طلب کی جاتی ہے، وہ رب العالمین ، وہ بھر پور انداز سے ہمیشہ رحم کرنے والا ہے۔

وہی تنہا ذات ہے جو دلوں پر مکمل کنٹرول رکھتی ہے، وہ دلوں کو جیسے چاہتی ہے پھیر دیتی ہے، تمام بندوں کی پیشانیاں اسی کے ہاتھ میں ہیں، اگر وہ ہدایت دینا چاہے تو ہدایت عطا فرما دے، اور اگر گمراہ کرنا چاہے تو رہنمائی نہ فرمائے اور انسان گمراہ ہو جائے، وہ ذات ہر عیب سے پاک، طاقت والی، حکمت والی، جاننے والی، لطف سے پیش آنے والی اور نہایت باخبر ذات ہے۔

بچوں کی ضد کے علاج کے لیے اہم ترین طریقہ یہ ہے کہ: بچوں کے ضد کرنے پر حکمت، ٹھہراؤ اور تحمل سے کام لیا جائے۔

کیونکہ ضد کے بدلے میں سختی کی جائے تو ہمیشہ ضدی پن میں ہی اضافہ ہوتا ہے!!

لہذا بچوں کا یہ مسئلہ رسہ کشی کی مانند ہے کہ اگر ایک فریق کھینچنے کی کوشش کرتا ہے تو مد مقابل بھی اتنی ہی شدت سے رسہ اپنی طرف کھینچتا ہے!!

لیکن اگر اس رسہ کشی کے دوران والدہ رسی بچے کے سامنے پھینک دے، اور اپنے آپ کو بچے کی طرح ضدی نہ بنائے اور اسے چیلنج نہ کرے تو عین ممکن ہے کہ بچے میں ضدی پن سرے سے ختم ہو جائے، اور یہ بیماری بڑھنے کی بجائے سکڑنے لگ جائے اور اس کے نتیجے میں بچہ سدھر جائے گا۔

عام طور پر ضدی بچے چالاک بھی ہوتے ہیں؛ کیونکہ ضدی بچہ اپنے اہداف کو پانے کے لیے غیر معمولی راستے بھی اختیار کرتے ہیں۔

نیز ضدی بچہ اپنے آس پاس کے افراد کو بہن بھائیوں اور باپ دادا کے ڈانٹ ڈپٹ والے رویے کی وجہ سے مظلوم سمجھ رہا ہوتا ہے ؛ کیونکہ ان کے رویے سے کہیں بھی محبت اور پیار کا لہجہ نظر نہیں آتا۔

تو یہ دونوں چیزیں عموماً بچے کے نفسیاتی طور پر تنہائی کا شکار ہونے کا سبب بنتی ہیں، بچہ معاشرے سے کٹ جاتا ہے اور خود سے انتقام لینے کا سختی سے انتظار کر رہا ہوتا ہے۔

اور اس کا نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ بچہ معاشرتی اقدار کے خلاف بغاوت کرتے ہوئے ضد اور پر تشدد رویہ اپنا لیتا ہے۔

لہذا ایسی صورت حال میں آپ کی یہ ذمہ داری بنتی ہے کہ بچے کی چالاکی اور چالبازی اپنانے پر چشم پوشی اور در گزر سے کام لیں۔

بچے کے مظلومانہ احساس کو ختم کرنے کے لیے نرمی اور شفقت والا رویہ اپنائیں۔

بچے کے ضد کرنے اور باغیانہ رویہ اپنانے پر اس سے محبت کا اظہار کریں، اور اس کی بہتری کے لیے سچی رغبت دکھائیں ۔

لیکن ساتھ ہی بچے کی تربیت کے لیے مار پیٹ کے بغیر سخت موقف بھی اپنائیں، اپنے موقف کو اپناتے ہوئے بچگانہ حرکت اور چیلنج والا انداز بالکل نہ رکھیں۔

بچوں کو مکمل اپنے کنٹرول میں کرنے کے لیے دو کاموں سے بچنا اور دو کاموں کو سر انجام دینا انتہائی ضروری ہے:

جن کاموں سے بچنا ضروری ہے وہ یہ ہیں: برے لفظوں سے بچے کو مخاطب کریں اور انہیں مار پیٹ کا نشانہ بنائیں۔

اور جن کاموں کو سر انجام دینا ضروری ہے وہ یہ ہیں: اچھے القاب سے بچوں کو مخاطب کریں اور جسمانی محرومی کا نشانہ بنائیں۔

اس کی تفصیلات درج ذیل ہیں:

برے لفظوں میں بچے کو مخاطب کرنے کا مطلب یہ ہے کہ کوئی بھی ایسا گھٹیا لفظ بچے پر نہ بولا جائے جو بچے کی غلطی پر نہیں بلکہ بچے کی شخصیت کے متعلق ہو، مثلاً: بچے کو کہیں: تم لا پرواہ ہو، جھوٹے اور کذاب ہو، یا تم بہت ضدی ہو یا اسی طرح کے دیگر منفی القابات وغیرہ

یہاں ہونا یہ چاہیے کہ بچے کو ایسی صورت حال میں اپنے قریب لائیں اور منفی القابات بچے کی ذات کی بجائے بچے کے کام پر لگائیں، اور بچے کو اسی منفی صفت کے متضاد سے موصوف کریں، مثلاً:

بچے کو لاپرواہ کہنے کی بجائے ہم بچے کو کہیں: آپ تو بہت خیال کرنے والے ہو تو آپ لاپرواہی کیسے برت سکتے ہیں؟!

اسی طرح بچے کو جھوٹا کہنے کی بجائے ہم بچے کو کہیں: آپ تو سچے ہیں، لیکن آپ ایسی بات کیوں کرتے ہیں جو ابھی ہوئی ہی نہیں ہے!؟

بچے کو لڑاکو کہنے کی بجائے ہم بچے کو کہیں : آپ تو بہت اچھے بچے ہو، آپ اپنے بھائی کو کیوں مارتے ہو؟!

اسی طرح دیگر برائیوں اور خرابیوں میں کیا جائے گا۔

جسمانی مار پیٹ کسی بھی ایسے انداز سے بچے کو مارنا کہ جس کا مقصد صرف تکلیف دینا اور انتقام لینا ہو؛ یعنی بچے کو ایسے غیر انسانی طریقے سے مارنا کہ اسلامی شریعت کے بیان کردہ تادیبی کاروائی کے لیے جائز طریقے سے تجاوز ہو جائے ؛ کیونکہ شریعت میں جسمانی سزا کے 3 درجے ہیں:

سب سے کم درجہ ادب سکھانے کے لیے مارنا، اور سب سے بڑا درجہ حد لاگو کرنا اور دونوں کے درمیان تعزیری سزا آتی ہے۔

چنانچہ اگر ہم نے حد لاگو کرنے کے حوالے سے دیکھیں جو کہ مار کا سب سے بڑا درجہ ہے ، تو ہمیں معلوم ہو گا کہ حد میں بھی مارنے کے لیے شرعی قیود اور ضوابط ہیں، جس کی وجہ سے حد لاگو کرتے ہوئے مار اتنی سخت نہیں ہوتی جتنی ہمارے ہاں عام روٹین کی بچوں کی مار پیٹ میں ہو جاتی ہے!!

چنانچہ فقہائے کرام کا کہنا ہے کہ: صرف اسی شخص کو حد کے قابل سمجھا جاتا ہے جو صحت مند اور طاقت ور ہو: اسے ڈنڈے لگاتے ہوئے یہ اہتمام کیا جائے گا کہ: کسی حد میں ہی بطور سزا ڈنڈے لگائے جائیں، درمیانے سائز کا ڈنڈا ہو، تازہ اور گیلا بھی نہ ہو، نہ ہی بالکل خشک ہو، اتنا ہلکا نہ ہو کہ درد محسو نہ ہو، اور نہ ہی انتا بھاری ہو کہ زخمی کر دے۔

اسی طرح ڈنڈے مارنے والے کے بارے میں یہ شرط رکھی جاتی ہے کہ مارتے ہوئے ہاتھ اتنا بلند نہ کرے کہ بغل کی سفیدی نظر آئے، اور ایسے نازک حصوں پر مت مارے جہاں ضرب لگنے سے موت واقع ہو جائے، نیز ایک ہی جگہ پر ڈنڈے نہ مارے بلکہ مختلف جگہوں پر مارے۔

اہل علم اس بات پر متفق ہیں کہ چہرے، عضو تناسل اور حساس حصوں پر نہ مارے کہ جہاں ضرب لگنے سے موت واقع ہو سکتی ہو۔

اس بارے میں مزید کے لیے دیکھیں: "حاشية ابن عابدين" (3 / 147)، والزرقاني (8 / 114)، "الروضة" (10 / 172)، اور "المغنی" (8 / 313 - 315)" ختم شد
تو اگر یہ ساری شرائط حد لگانے میں معتبر رکھی جا رہی ہیں جو کہ ضرب لگانے کی سب سے بڑی کیفیت ہے، تو محض ادب سکھانے کے لیے کیا حکم بچے گا؟

ادب سکھانے کے لیے مارنے کا تذکرہ اللہ تعالی کے اس فرمان میں موجود ہے: وَاللَّاتِي تَخَافُونَ نُشُوزَهُنَّ فَعِظُوهُنَّ وَاهْجُرُوهُنَّ فِي الْمَضَاجِعِ وَاضْرِبُوهُنَّ فَإِنْ أَطَعْنَكُمْ فَلَا تَبْغُوا عَلَيْهِنَّ سَبِيلًا إِنَّ اللَّهَ كَانَ عَلِيًّا كَبِيرًا
ترجمہ: اور جن عورتوں کی نافرمانی اور بد دماغی کا تمہیں خوف ہو انہیں نصیحت کرو اور انہیں الگ بستروں پر چھوڑ دو اور انہیں مار کی سزا دو پھر اگر وہ تابعداری کریں تو ان پر راستہ تلاش نہ کرو بیشک اللہ تعالی بڑی بلندی اور بڑائی والا ہے۔ [النساء: 34]

علامہ قرطبی رحمہ اللہ (5/172)اس کی تفسیر میں لکھتے ہیں:
"اس آیت کریمہ میں مارنے سے مراد یہ ہے کہ ادب سکھانے کے لیے ایسے ماریں کہ جس سے نشان نہ پڑیں، یعنی نہ تو ہڈی ٹوٹے اور نہ ہی زخم بنائے، مثلاً: تھپڑ مارنا وغیرہ کیونکہ یہاں اصلاح مقصود ہے اور کچھ نہیں۔

لہذا اگر بیوی کو مارنے کی وجہ سے موت واقع ہو گئی تو خاوند مکمل طور پر ضامن ہو گا۔ یہی موقف قرآن کی تعلیم دینے والے اساتذہ کے بارے میں بھی ہے۔

اسی طرح صحیح مسلم میں ہے کہ: (تم لوگ عورتوں کے بارے میں اللہ سے ڈرو اس لیے کہ ان کو تم نے اللہ تعالی کی طرف سے بطور امانت لیا ہے اور تم نے ان کی شرمگاہ کو اللہ تعالی کے کلمہ یعنی نکاح سے حلال کیا ہے۔ اور تمہارا حق ان پر یہ ہے کہ تمہارے بستر پر کسی ایسے شخص کو نہ آنے دیں جس کا آنا تمہیں ناگوار ہو ۔۔ پھر اگر وہ ایسا کریں تو ان کو ایسا مارو کہ انہیں سخت چوٹ نہ لگے۔) [یہ الفاظ امام مسلم رحمہ اللہ کی کتاب صحیح مسلم کی کتاب الحج میں سیدنا جابر رضی اللہ عنہ کی لمبی حدیث کے ہیں۔]

آپ رحمہ اللہ اس کے بعد مزید کہتے ہیں:
"عطاء رحمہ اللہ نے سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما سے عرض کہا: ایسی مار جس سے چوٹ نہ لگے کا کیا مطلب ہے؟ تو انہوں نے کہا: مسواک وغیرہ سے مارے۔!!" یہ اثر امام طبری رحمہ اللہ نے اپنی تفسیر میں صحیح سند کے ساتھ بیان کیا ہے۔

جسمانی یا زبانی سزا کا قابل قبول متبادل : محرومی کی صورت میں سزا دینا ہے۔

یہاں محروم کرنے کا مطلب ایسے محروم کرنا جس سے بچے کی تربیت ہو، لہذا یہاں ایسا محروم کرنا مراد نہیں ہے جو مطلق العنان ہو۔

مثلاً: بچے کو دس منٹ کے لیے کھیلنے سے روک دیں، یہ ممانعت بچے کی تربیت کا باعث بنے گی ؛ کیونکہ یہاں مقصد یہ ہے کہ بچے کو سدھارنے کے لیے معنوی طور پر بات ماننے کے لیے مجبور کیا جائے۔

اسی طرح سزا دینے کے لیے کرسی پر بٹھا دیں، اور بچے کی عمر کے حساب سے اتنے ہی منٹ بٹھا کر رکھیں، مثلاً: دس سال کا بچہ تو دس منٹ کرسی پر بٹھائیں، اس طرح کرنے سے بچے کی تربیت ہوگی۔

ایسے ہی بچے کے یومیہ جیب خرچ سے کٹوتی کر لی جائے، یہ بھی تربیت کے لیے اچھا طریقہ ہے۔

لیکن بچے کو سارا دن کھیلنے سے روک دیا جائے یا اکثر وقت کھیلنے نہ دیا جائے ، یا بچے کا سارا جیب خرچ بند کر دیا جائے اس سے بچہ سزا برداشت کرنے لگ جائے گا، اور عین ممکن ہے کہ بچے کو سزا جھیلنے کی عادت پڑ جائے، اور پھر بچہ ممکنہ متبادل ذرائع سے اپنا جیب خرچ نکالنے لگے!

اسی طرح بچے کو ستارے بھی دئیے جا سکتے ہیں، یعنی اچھا رویہ اپنائے تو ستارہ دیا جائے، اور اگر کوئی غلط رویہ اپنائے تو ستارہ واپس لے لیا جائے، یہ بھی بہت مفید ہے۔

لہذا اچھے کردار پر ایک یا زائد سٹار بھی دے سکتے ہیں، اور برے کردار پر ایک یا زائد سٹار واپس بھی لیے جا سکتے ہیں۔

پھر ان جمع شدہ تاروں کے لیے متفقہ لائحہ بنا لیا جائے کہ 10 ستارے جمع کرنے پر گفٹ ملے گا اور 20 ستارے جمع کرنے پر تفریحی سفر پر جائیں گے۔ یا اسی طرح کچھ اور بھی مقرر کیا جا سکتا ہے۔

جبکہ زبانی طور پر بچے کو موہنے کے لیے تین چیزیں مد نظر رکھیں:

پہلی چیز: محبت اور پیار والے الفاظ استعمال کریں، مثلاً: آپ اپنی بیٹیوں سے کہیں کہ میں آپ سے محبت کرتی ہوں، یا اسی طرح کے مزید اچھے کلمات ہو سکتے ہیں۔

اس کی وجہ یہ ہے کہ اگر کسی سے محبت ہو تو اس سے اظہار محبت کر دینا چاہیے، نبی مکرم صلی اللہ علیہ و سلم نے ہماری تربیت کرتے ہوئے ہمیں اس کی ترغیب دلائی ہے، چنانچہ ابو کریمہ مقدام بن معدی کرب رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ نبی مکرم صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا: (جب کوئی شخص اپنے بھائی سے محبت کرے تو اسے بتلا دے کہ وہ اس سے محبت کرتا ہے۔) اس حدیث کو أبو داود (5124 ) ، اور ترمذی: (2392 ) نے روایت کیا ہے اور البانی رحمہ اللہ نے اسے صحیح قرار دیا ہے۔

اس طرح کے جملے روزانہ کی بنیاد پر غیر مشروط انداز سے کہے جائیں، ایسا نہ ہو کہ صرف خاص مواقع اور تقریبات کے موقع پر ہی یہ الفاظ دہرائے جائیں، یا صرف تبھی والدین یہ الفاظ بولیں جب والدین کا پسندیدہ کام کریں۔

دوسری چیز: بچے کی حوصلہ افزائی اور بچے کے لیے تعریفی جملوں کا استعمال تسلسل کے ساتھ کریں چاہے معمولی کام کیا نہ ہو؛ کیونکہ تسلسل کے ساتھ بہت زیادہ تنقید اور ڈانٹ ڈپٹ بچے کی شخصیت پر منفی اثر ڈالتی ہے، اور بچے کو بہت حد تک کمزور بنا دیتی ہے۔

تیسری چیز: بچے کی ڈھارس باندھنے کے لیے جملے کہیں کہ بچے کے اندار پائی جانے والی خاص خوبیوں پر یا عمومی کاموں پر بچے کو نفسیاتی طور پر سپورٹ کریں، اور ان مہارتوں کو مزید دو چند کرنے کی ترغیب دلائیں۔

جسمانی طور پر موہنے کا عمل بھی تین چیزوں سے ہوں گا:

پہلی چیز: جیسے محبت کے اظہار میں بیان ہوا کہ غیر مشروط اور تسلسل کے ساتھ روزانہ محبت کا اظہار کرنا ہے اسی طرح انہیں گلے سے بھی لگانا ہے، اور گلے لگانے کے لیے یہ ضروری نہیں ہے کہ انہوں نے کوئی اچھا کام کیا ہو تبھی گلے لگائیں، بلکہ بچوں کو گلے لگانے کی عمومی عادت بنائیں ۔

دوسری چیز: مثبت انداز میں جسمانی لمس ، یعنی بچوں کے بالوں میں ہاتھ پھیریں، ان کے کندھوں کو تھپتھپائیں ، یا اسی طرح کا کوئی اور مناسب طریقہ اپنائیں۔

منفی جسمانی لمس کی جگہ اسے اپنائیں؛ کیونکہ جب منفی اور ضدی رویے پر جسمانی لمس ہوتا ہے تو وہ عام طور پر منفی ہوتا ہے۔

تیسری چیز: بچوں کے ساتھ معنوی اور عملی دونوں طرح سے گھل مل جائیں:

معنوی طور پر اس طرح کہ جب بچے پسندیدہ مشغلے میں مصروف ہوں یا ذاتی مہارتیں آپ کو دکھا رہے ہوں تو انہیں دیکھ کر خوشی کا اظہار کریں، اور انہیں توجہ سے دیکھیں۔

اسی طرح بچوں کی ایسی مثبت سرگرمیاں جو وہ آپس میں کر رہے ہوں ان میں عملی طور پر شریک ہو جائیں کہ ان کے ساتھ مل کر کھیلیں، مزاح کریں، اور سنجیدہ و غیر سنجیدہ امور میں ان کے ساتھ گھل مل جائیں۔

آخر میں ہم کچھ ایسی چیزیں ذکر کرتے ہیں جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم بچوں اور لڑکوں کے ساتھ کیا کرتے تھے۔

چنانچہ سیدنا انس بن مالک رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ : (رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم تمام انسانوں میں اخلا ق کے سب سے اچھے تھے، آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے ایک دن مجھے کسی کام سے بھیجا ،میں نے کہا :اللہ کی قسم! میں نہیں جا ؤں گا ۔حالانکہ میرے دل میں یہ تھا کہ نبی صلی اللہ علیہ و سلم نے مجھے جس کام کا حکم دیا ہے میں اس کے لیے ضرور جاؤں گا۔ تومیں چلا گیا اور راستے میں چند لڑکوں کے پاس سے گزرا، وہ بازار میں کھیل رہے تھے ،پھر اچانک (میں نے دیکھا ) رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے پیچھے سے میری گدی سے مجھے پکڑ لیا، میں نے آپ کی طرف دیکھا تو آپ ہنس رہے تھے۔ آپ نے فرمایا: "اے چھوٹے انس! کیا تم وہاں گئے تھے جہاں (جانے کو) میں نے کہا تھا ؟"میں نے کہا جی! ہاں ،اللہ کے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم ! میں جا رہا ہوں۔) صحیح مسلم: (2310)

اسی طرح سیدنا انس رضی اللہ عنہ سے ہی مروی ہے کہ : "میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کی دس سال خدمت کی، اور اللہ کی قسم! مجھے آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے کبھی اف تک نہیں کہا، اور نہ ہی مجھے یہ کہا کہ: یہ کام کیوں کیا؟ اور یہ کام کیوں نہیں کیا؟" اس حدیث کو امام بخاری: (6038) اور مسلم : (2309) نے روایت کیا ہے۔

آپ صلی اللہ علیہ و سلم کا یہ تعامل اپنے خادم کے ساتھ تھا، تو کیا خیال ہے کہ بیٹے کے ساتھ کیسے پیش آتے ہوں گے؟

سیدنا شداد بن اوس رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ: (ہم موجود تھے کہ مغرب یا عشا کی نماز کے لیے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ و سلم تشریف لائے تو آپ نے سیدنا حسن یا حسین رضی اللہ عنہما کو اٹھا رکھا تھا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم (نماز پڑھانے کے لیے) آگے بڑھے اور بچے کو نیچے بٹھا دیا۔ پھر نماز کے لیے تکبیر تحریمہ کہی اور نماز شروع کر دی۔ نماز کے دوران میں آپ نے ایک سجدہ بہت لمبا کر دیا۔ میں نے سر اٹھا کر دیکھا تو بچہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کی پشت پر بیٹھا تھا اور آپ سجدے میں تھے۔ میں دوبارہ سجدے میں چلا گیا۔ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے نماز پوری فرمائی تو لوگوں نے گزارش کی: اے اللہ کے رسول! آپ نے نماز کے دوران میں ایک سجدہ اس قدر لمبا کیا کہ ہم نے سمجھا کوئی حادثہ ہو گیا ہے یا آپ کو وحی آ رہی ہے۔ آپ نے فرمایا: ’’ایسا کچھ بھی نہیں ہوا بلکہ میرا بیٹا میری پشت پر سوار ہو گیا تو میں نے پسند نہ کیا کہ اسے جلدی میں ڈالوں (فوراً اتار دوں) حتی کہ وہ اپنا دل خوش کر لے۔‘‘) اس حدیث کو نسائی: (1141)نے روایت کیا ہے اور البانی رحمہ اللہ نے اسے صحیح قرار دیا ہے۔

اس حدیث مبارکہ میں بچے کی چاہت کا خیال رکھنے کی دلیل ہے چاہے اللہ تعالی کی عبادت ہی کیوں نہ کی جا رہی ہو!

ہم اللہ تعالی سے دعا گو ہیں کہ اللہ تعالی ہماری اولادوں کی اصلاح فرمائے، اور ہمیں بچوں کے ساتھ ایسے انداز سے برتاؤ کرنے کی توفیق دے جس میں بچوں کی بہتری ہو، اور ان کی پرورش اچھے انداز سے ہو، اور اللہ تعالی ہم سب سے راضی بھی ہو جائے۔

واللہ اعلم

ماخذ: الاسلام سوال و جواب