سوموار 22 جمادی ثانیہ 1446 - 23 دسمبر 2024
اردو

رمضان کی قضا دیتے ہوئے شک پیدا ہوا کہ فجر سے پہلے روزے کی نیت کر لی تھی یا نہیں؟ تو اس نے اپنی نیت نفل روزے میں تبدیل کر لی۔

سوال

ایک بار میں نے رمضان کی قضا کا روزہ رکھا ہوا تھا، لیکن آدھا دن گزرنے کے بعد مجھے شک ہوا کہ میں نے روزے کی نیت فجر سے پہلے کی تھی یا بعد میں؟ تو میں نے اپنی نیت یہ کر لی کہ آج کا دن میرا روزہ نفل  ہو گا، تو کیا میرا یہ اقدام ٹھیک تھا یا نہیں؟  اور اگر ٹھیک نہیں تھا تو کیا مجھ پر کفارہ لازم آتا ہے یا نہیں۔ آپ مجھے ضرور جواب دیں مجھے اس بارے میں کافی پریشانی ہے؟

جواب کا متن

الحمد للہ.

جب کسی مکلف شخص کو روزے کی قضا دیتے ہوئے نیت میں شک ہو کہ اس نے طلوع فجر سے پہلے نیت کی تھی یا نہیں، تو اصل یہ ہے کہ اس نے نیت نہیں کی ؛ اور انسان کی اصل حالت  بھی یہی ہے کہ اس کی نیت نہیں ہوتی، اب فجر سے پہلے نیت ہونے کے بارے میں شک ہے تو یہاں شک اور اصل اس بات کی تائید کرتے ہیں کہ نیت  نہیں تھی ، اور اس اصل کو ختم کرنے کیلیے فجر سے پہلے نیت کا  یقین چاہیے جو کہ   موجود نہیں ہے۔

لیکن اگر سائلہ کو وسوسوں کا عارضہ لاحق ہے تو پھر وہ اپنی قضا والی نیت پر روزہ مکمل کر لے گی، کیونکہ جب وسوسے بہت زیادہ ہو جائیں تو پھر ان کا کوئی اعتبار نہیں ہوتا؛ اس لیے اگر شکوک بہت زیادہ آنے لگیں تو پھر ان کو جھٹک دینا لازمی ہوتا ہے، تا کہ انسان ان وسوسوں کی وجہ سے اس غیر ضروری مشقت سے بچ جائےجو کہ شریعت اسلامیہ کے خلاف ہے۔

اور یہی حکم اس وقت ہو گا کہ جب انسان کو غالب ظن یہی ہو کہ اس نے نیت صحیح وقت پر کی تھی، یا اتنا ہو کہ کوئی قرینہ پایا جائے جس سے اندازہ ہو سکے کہ آپ نے روزہ قضا کا رکھا تھا، مثلاً: ان دنوں میں آپ روزہ نہیں رکھتی تھیں، یا ان دنوں میں آپ قضا کے روزے ہی رکھ سکتی ہیں۔

اسی وجہ سے اہل علم  کہتے ہیں کہ:

والشك بعد الفعل لا يؤثر * وهكذا إذا الشكوك تكثر

کام کرنے کے بعد شک مؤثر نہیں ہوتا اور اسی طرح اس وقت جب شکوک بڑھتے ہی چلے جائیں ۔

دوم:

جو شخص رمضان کے قضا روزے رکھنے  شروع کر دے تو روزے کے درمیان میں بلا عذر  روزہ چھوڑنا جائز نہیں ہے، عذر میں سفر اور بیماری بھی شامل ہیں۔

چنانچہ اگر کوئی شخص عذر یا بغیر عذر کے قضا روزہ توڑ دیتا ہے تو اسے دوبارہ اس دن کا روزہ رکھنا پڑے گا۔

تاہم عذر یا بغیر عذر کے قضا روزہ توڑنے پر اس کے ذمے کوئی کفارہ نہیں ہو گا؛ کیونکہ کفارہ صرف رمضان میں دن کے وقت جماع کرنے سے لاگو ہوتا ہے۔

اس بارے میں مزید تفصیلات کیلیے آپ سوال نمبر: (49750) کے جواب میں ملاحظہ کر سکتے ہیں۔

چنانچہ اگر کوئی مسلمان اپنی نیت کو قضا روزے سے مطلق نفل روزے کی نیت میں بدل لے تو اس پر کوئی کفارہ نہیں ہے، تاہم اسے توبہ استغفار کرنی چاہیے۔

خلاصہ یہ ہے کہ:

اگر قضا روزہ رکھنے کی نیت رات کے کسی حصے میں تھی تو پھر اسے توڑنا جائز نہیں ہے۔

لیکن اگر کسی نے اس طرح اپنے روزے کی نیت ماضی میں توڑی تھی تو اسے توبہ و استغفار کرنا چاہیے، اس کیلیے کوئی مخصوص کفارہ نہیں ہے۔

اگر آپ کو رات کے کسی حصے میں قضا روزے کی نیت پر شک ہے تو اصل یہ ہے کہ آپ نے نیت نہیں کی تھی، تو ایسے میں ہم یقین پر عمل کرتے ہوئے کہیں گے کہ نیت کا خیال فجر کے بعد آیا تو اس طرح آپ کا یہ روزہ نفل کی صورت میں ٹھیک ہو گا، البتہ  یہ اس وقت ہے جب شک معتبر بھی ہو۔

لیکن اگر آپ وسوسوں کی بیماری میں مبتلا ہیں تو پھر یہ شک  معتبر نہیں ہے، اور واجب روزوں میں شک مؤثر نہیں ہوتا، اس لیے آپ واجب روزے کی نیت نہیں توڑ سکتے۔

اور چونکہ آپ روزے کی نیت پہلے ہی تبدیل کر چکی ہیں تو آپ اس دن کے عوض ایک اور روزہ رکھیں، لیکن آئندہ ایسا مت کریں، آپ پر کوئی خاص کفارہ بھی نہیں ہے۔

واللہ اعلم

ماخذ: الاسلام سوال و جواب