جمعرات 18 رمضان 1445 - 28 مارچ 2024
اردو

رمضان میں دن کے وقت لواطت کا ارتکاب کر لیا، انہیں کفارے کے بارے میں علم نہیں تھا

279912

تاریخ اشاعت : 17-04-2022

مشاہدات : 2324

سوال

ایک بھائی کا سوال ہے کہ: اس نے تقریباً دس سال قبل بالغ ہونے کے فوری بعد ہی ایک شخص کے ساتھ لوطی کام کا ارتکاب کر لیا تھا، اور اللہ معاف فرمائے یہ کام رمضان میں دن کے وقت کیا تھا، اس وقت دونوں کو کفارے کا علم نہیں تھا، اس کے بعد اللہ تعالی نے دونوں کو توفیق دی اور وہ توبہ تائب ہو گئے، پھر انہیں شیخ ابن عثیمین رحمہ اللہ کا فتوی یوٹیوب پر ملا کہ اس عمل کا کفارہ وہی ہو گا جو رمضان میں دن کے وقت جماع کرنے کا ہے، تو اب سوال یہ ہے کہ کیا یہ کفارہ دونوں کو دینا ہو گا؟ اور کیا کفارے سے لا علمی کا بھی کوئی اثر ہو گا؟ اور کیا اس کے لیے آلہ تناسل کا شرمگاہ میں داخل ہو جانا شرط ہے؟ کافی مدت گزر چکی ہے اب انہیں یاد نہیں ہے!

جواب کا متن

الحمد للہ.

اول:
روزے دار کے لیے رمضان میں دن کے وقت جماع سے رکنا لازم ہے ، اگر کوئی شخص یہ کام کرتا ہے تو اسے کفارہ مغلظہ دینا ہو گا چاہے اس نے جماع اگلی یا پچھلی شرمگاہ میں کیا ہو اور چاہے وہ مرد ہو یا عورت۔

اگر یہ جماع آدمی کی پچھلی شرمگاہ میں کیا ہے تو یہ لواطت ہے جو کہ بذات خود کبیرہ ترین گناہ ہے، تو ایسے شخص نے دو کبیرہ گناہ کیے ہیں ایک لواطت اور دوسرا جان بوجھ کر رمضان میں دن کے وقت روزہ توڑا۔

ایسے شخص پر توبہ لازم ہے، اسی طرح کفارہ بھی دے اور اس دن کا روزہ بھی بطور قضا رکھے۔

اور اگر اس شخص نے ابھی تک اس روزے کی قضا نہیں دی تو روزے کے ساتھ ایک مسکین کو کھانا بھی کھلائے اور اس کے لیے ڈیڑھ کلو چاول یا کوئی بھی اناج دے۔

 جیسے کہ الإقناع (1/ 312) میں ہے کہ:
"اگر ماہ رمضان میں دن کے وقت حقیقی آلہ تناسل کے ذریعے زندہ یا مردہ ، انسان یا حیوان کی حقیقی اگلی یا پچھلی شرمگاہ میں جماع کرے اور انزال ہو یا نہ ہو اس پر قضا بھی لازم ہے اور کفارہ بھی ۔" ختم شد مختصراً

دوم:

کفارہ لوطی عمل کرنے اور کروانے والے دونوں پر لازم ہو گا۔

سوم:

کفارہ واجب ہونے کے بارے میں لا علمی سے کفارہ ساقط نہیں ہو گا، اس بارے میں اصول یہ ہے کہ اگر کوئی شخص کسی کام کی حرمت تو جانتا ہو لیکن سزا نہ جانتا ہو تو اس کا یہ عذر قبول نہیں ہو گا، جیسے کہ ایک صحابی اپنی اہلیہ کے ساتھ رمضان میں دن کے وقت جسمانی تعلقات قائم کر بیٹھے لیکن انہیں کفارے کے بارے میں علم نہیں تھا تو یہ لا علمی ان سے کفارے کو ساقط کرنے کی وجہ نہیں بن سکی۔

شیخ ابن عثیمین رحمہ اللہ کہتے ہیں:
"اگر کوئی کہے: رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کے پاس جو آدمی آیا تھا کیا وہ لا علم نہیں تھا؟
تو اس کا جواب یہ ہے کہ: وہ کفارے سے لا علم تھا، لیکن یہ بات اسے علم تھی کہ روزے کے دوران جماع منع ہے، اسی لیے تو اس صحابی نے آ کر کہا تھا: "میں ہلاک ہو گیا!!"
اور ہم بھی جب یہ کہتے ہیں کہ : لا علمی عذر ہے، تو اس سے یہ مطلب نہیں ہوتا کہ کسی جرم کی سزا سے لا علم ہو، بلکہ ہماری مراد یہ ہوتی ہے کہ وہ اس عمل کی حرمت یا حلت سے لا علم ہو۔

چنانچہ اگر کوئی شخص کسی سے زنا کر لے اور اسے علم نہ ہو کہ زنا حرام ہے جیسے کہ کوئی غیر اسلامی ممالک میں رہتا ہے اور اس نے حال ہی میں اسلام قبول کیا ہے ، یا پھر وہ کسی جنگل کا باسی ہے جہاں زنا کو حرام نہیں سمجھا جاتا، تو ایسے شخص پر کوئی حد نہیں لگے گی؛ کیونکہ اگر اسے علم ہوتا کہ زنا حرام ہے ، لیکن اسے اس کی سزا رجم یعنی ڈنڈے مع جلا وطنی کا علم نہ ہو تو اسے اس حرام کام کے کرنے پر حد لگائی جائے گی ؛ کیونکہ کسی حرام کام کی سزا سے لا علمی عذر شمار نہیں ہوتی، البتہ کسی کام کے حرام ہونے کے متعلق لا علمی عذر شمار ہو تی ہے۔" ختم شد
الشرح الممتع (6/417)

اس بارے میں مزید کے لیے آپ سوال نمبر: (20237 ) کا جواب ملاحظہ کریں۔

چہارم:

کفارہ واجب ہونے کے لیے شرمگاہ میں آلہ تناسل کی سپاری کا داخل ہونا لازم ہے جسے حشفہ بھی کہتے ہیں ، اس کے داخل ہونے سے جماع کے مکمل احکامات لاگو ہوتے ہیں۔

علامہ ابن قیم رحمہ اللہ کہتے ہیں:
"ختان عربی زبان میں مرد کے آلہ تناسل کی سپاری کے ارد گرد بنے گول کنارے کو کہتے ہیں، اس حصے کے شرمگاہ میں غائب ہونے پر احکامات مرتب ہوتے ہیں، چنانچہ اس پر 300 سے زائد احکام ہیں، کچھ اہل علم نے ان احکامات کو جمع کیا تو ان کی تعداد 392 ہو گئی ۔" ختم شد
"تحفة المودود بأحكام المولود" ص152

اگر سپاری شرمگاہ میں داخل نہیں ہوئی ، یا اس کے داخل ہونے کے متعلق شک ہے تو پھر کفارہ واجب نہیں ہو گا؛ کیونکہ شک کی بنا پر کوئی چیز واجب نہیں ہوتی، البتہ حرام کام سے توبہ کرنا لازم ہو گا۔

واللہ اعلم

ماخذ: الاسلام سوال و جواب