اگر نجاست زائل کر دی جائے لیکن اس کا حکم باقی رہے، اور وہ جگہ کسی اور گیلی چیز سے چھو جائے تو کیا وہ بھی نجس ہو جائے گی؟

سوال: 280039

اگر کتے کی نجاست صرف پانی سے دور کر دی جائے، تو کیا وہ گیلی چیز جو اس سے ملے نجس ہو جائے گی؟

جواب کا متن

ہمہ قسم کی حمد اللہ تعالی کے لیے، اور دورو و سلام ہوں اللہ کے رسول پر، بعد ازاں:

کتے کی نجاست سے آلودہ چیز کو پاک کرنے کے لیے ضروری ہے کہ اسے سات مرتبہ دھویا جائے جن میں سے ایک بار مٹی سے دھونا لازم ہے؛ کیونکہ مسلم (حدیث نمبر: 279) میں حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا:  ’’تم میں سے کسی کے برتن میں اگر کتا منہ ڈال دے، تو اسے سات بار دھونا چاہیے، جن میں سے پہلی بار مٹی سے ہو۔‘‘

بعض فقہاء کے نزدیک مٹی کی جگہ صابن، اشنان یا چوکر استعمال کرنا بھی کافی ہے، اور یہی حنابلہ کا موقف ہے۔ (مزید دیکھیں: الروض المربع، صفحہ 50)

کتے کی نجاست سے مراد اس کا لعاب (تھوک)، رطوبت، پیشاب اور لید ہے۔

علمائے کرام  کا اس بات میں اختلاف ہے کہ آیا کتے کا جسم پاک ہے یا ناپاک؟ اور راجح بات یہ ہے کہ اس کا جسم پاک ہے، کیونکہ چیزوں میں اصل طہارت ہے۔

’’الموسوعة الفقهية‘‘ (جلد 35، صفحہ 129) میں ہے:
’’احناف کے نزدیک کُتا بذاتِ خود نجس نہیں، البتہ اس کا جھوٹا اور دوسری رطوبتیں نجس ہیں۔ مالکیہ کا بھی یہی موقف ہے کہ کُتا بذاتِ خود پاک ہے، کیونکہ ان کے نزدیک ہر جاندار، خواہ وہ کتا ہو یا خنزیر، پاک ہوتا ہے۔ اسی طرح اس کا پسینہ، آنسو، ناک کا پانی اور تھوک بھی پاک ہیں۔ البتہ جو انڈا، لعاب، آنسو، یا تھوک وغیرہ جیسی چیز کسی جانور سے اس کی موت کے بعد شرعی ذبح کے بغیر  نکلے، وہ نجس ہوں گے، یہ اس جانور کے بارے میں ہے جس کی نعش مرنے کے بعد نجس ہو۔

جبکہ شافعیہ اور حنابلہ کا کہنا ہے کہ کتا بذاتِ خود نجس ہے۔‘‘ ختم شد۔

لہٰذا اگر کتے کی نجاست کسی کپڑے کو لگ جائے، تو صرف اتنا کافی نہیں کہ اس سے نجاست کی اصل چیز دور کر دی جائے، بلکہ اسے سات بار دھونا ضروری ہے جن میں ایک بار مٹی سے دھونا لازم ہے۔

اور اگر کسی کپڑے سے صرف نجاست والی  اصل چیز دور کر دی گئی ہو، لیکن سات بار دھونا نہ کیا گیا ہو، تو اس پر نجاست کا حکم برقرار رہے گا۔

البتہ اس صورت میں اگر وہ کپڑا کسی اور گیلی چیز سے چھو جائے، تو وہ چیز نجس نہیں ہو گی، کیونکہ نجاست کا حکم کسی اور چیز میں منتقل نہیں ہوتا۔

مالکی فقہ کے عالم خلیل نے اپنی کتاب ’’مختصر‘‘ میں فرمایا:
’’اگر نجاست کو کسی غیر مطلق (یعنی غیر خالص پانی) سے دور کیا جائے، تو اس سے نجاست والی جگہ کو چھونے والی چیز نجس نہیں ہو گی۔‘‘ ختم شد۔

علامہ حطاب نے اپنی شرح ’’مواهب الجليل‘‘ (جلد 1، صفحہ 165) میں فرمایا:
’’یعنی اگر نجاست کو غیر خالص پانی (جیسے گلاب کا پانی)، یا پانی کے علاوہ کسی ایسی چیز سے زائل کیا جائے جو میل صاف کرتی ہو، جیسے سرکہ وغیرہ، اور ہم یہ کہیں کہ اس طریقے سے نجاست والی جگہ پاک نہیں ہوئی اور اس پر اب بھی نجاست کا حکم باقی ہے، اور اس جگہ کو کوئی گیلی چیز چھو لے، یا وہ جگہ کسی خشک چیز کے ساتھ گیلی حالت میں چھو جائے، یا بعد میں جب وہ گیلی ہو تو کوئی چیز اس سے چھو جائے، تو کیا وہ چیز نجس ہو گی یا نہیں؟ اس بارے میں دو اقوال ہیں۔ ابن عبدالسلام، مصنف (خلیل) اور دیگر علماء کا قول اور جمہور کی رائے یہی ہے کہ ایسی حالت میں نجاست منتقل نہیں ہوتی۔‘‘ ختم شد

واللہ اعلم

حوالہ جات

ماخذ

الاسلام سوال و جواب

at email

ایمیل خبرنامہ

اسلام سوال و جواب کی میلنگ لسٹ میں شامل ہوں

phone

اسلام سوال و جواب ایپ

مواد تک فوری رسائی اور آف لائن مطالعہ کے لیے

download iosdownload android