استنجا یا مذی دھونے کے دوران بدن پر بہنے والا پانی پاک ہے یا ناپاک؟

سوال: 282879

جب ہم نجاست کو دھوتے ہیں یا استنجا کرتے ہیں، تو وہ پانی جو نجاست سے الگ نہیں ہوتا بلکہ وہی پانی نجاست پر بہتا ہے، اور پھر جسم کے دوسرے حصوں جیسے رانوں پر یا کپڑوں پر بھی بہہ جاتا ہے، جیسے کہ اگر کوئی مذی خارج ہو تو جب ہم اسے دھوتے ہیں تو وہ دھلا ہوا پانی رانوں یا کپڑوں پر بہہ جائے—تو کیا ایسا پانی ناپاک ہوتا ہے یا پاک شمار ہوتا ہے؟

جواب کا متن

ہمہ قسم کی حمد اللہ تعالی کے لیے، اور دورو و سلام ہوں اللہ کے رسول پر، بعد ازاں:

استنجا کے دوران جو پانی بدن سے بہہ کر گرتا ہے، اگر وہ نجاست سے متاثر ہو کر بدل جائے (یعنی رنگ، بو یا ذائقہ میں نجاست کا اثر ظاہر ہو)، تو وہ پانی ناپاک شمار ہو گا، اور اگر وہ پانی نجاست سے متاثر نہ ہو تو وہ پاک ہے، چاہے وہ بدن پر بہہ جائے یا ٹپک جائے۔ اس حکم میں اصل بنیاد پانی کے ’’تغیر‘‘ (یعنی نجاست سے متاثر ہونے) پر ہے۔ یہی امام مالک رحمہ اللہ کا مذہب ہے۔

علامہ ابن الحاجب رحمہ اللہ نے ’’جامع الأمهات‘‘ صفحہ 38 میں فرمایا:
’’ جسم کی دھلائی کے دوران کا وہ پانی جو نجاست سے متاثر ہو جائے، وہ ناپاک ہے، اور جو متاثر نہ ہو وہ پاک ہے۔‘‘ ختم شد

مزید دیکھیں: الموسوعة الفقهية: (جلد 29، صفحہ 99)

لہٰذا اگر آپ کو یقین ہو کہ مذی یا پیشاب کی وجہ سے پانی متاثر ہو گیا تھا، اور وہی پانی بدن یا کپڑوں پر گرا، تو پھر جہاں تک پہنچا ہے اس جگہ کو دھونا ضروری ہو گا۔ لیکن اگر محض شک ہو اور یقین نہ ہو، تو آپ پر کچھ بھی کرنا واجب نہیں۔

یہ بات بھی اہم ہے کہ ایسی باتوں سے بچا جائے، کیونکہ ان کی وجہ سے انسان شک اور بے چینی میں مبتلا ہو جاتا ہے۔ یاد رکھیں کہ آلہ تناسل کے سوراخ پر مذی یا پیشاب کے اثرات نہایت معمولی ہوتے ہیں، اور اتنی قلیل نجاست سے پانی کا بدل جانا بعید ہے۔

شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
’’پانی بذات خود پاک اور پاک کرنے والا ہوتا ہے، مگر جب وہ نجاست سے متاثر ہو جائے اور نجاست کا اثر اس میں ظاہر ہو جائے، تو اس کا استعمال گویا ناپاک چیز کا استعمال بن جاتا ہے۔ شریعت نے ایسے پانی کو استعمال کرنے سے اس لیے منع کیا ہے کہ اس میں ناپاک چیز شامل ہو گئی ہے، اس لیے نہیں کہ یہ پانی فی نفسہٖ ناپاک ہو گیا ہے، چنانچہ جب پانی میں نجاست ملنے کی کوئی ظاہری علامت نہ ہو، تو محض شک کی بنیاد پر اسے ناپاک قرار دینا سختی اور تکلیف میں ڈالنے کے مترادف ہے، اور اللہ تعالی نے ہماری شریعت میں ایسی کسی قسم کی سختی ہم پر نہیں کی ؛ بلکہ ایسی بے جا سختیوں سے ہماری شریعت کو پاک رکھا ہے۔
سیدنا عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ سے ثابت ہے کہ آپ نے ایک نصرانی عورت کے مٹکے سے وضو کیا، حالانکہ اس پانی کے ناپاک ہونے کا احتمال موجود تھا۔ پھر ایک بار آپ اپنے ساتھی کے ساتھ ایک پرنالے کے نیچے سے گزرے، ساتھی نے پرنالے والے سے پوچھا: پرنالے سے گرنے والا تیرا پانی پاک ہے یا ناپاک؟ تو اس پر سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے فوراً کہا: مت بتاؤ! یہ وسوسوں میں مبتلا ہو چکا ہے۔
چنانچہ اس مسئلے میں امام احمد جیسے ائمہ کرام نے صراحت کی ہے کہ: اگر کسی پر پرنالے وغیرہ سے پانی گرے اور اس کے نجس ہونے کی کوئی علامت بھی نہ ہو تو اس کے بارے میں سوال کرنا لازم نہیں ہے۔ بلکہ سوال کرنا ہی مکروہ ہے۔‘‘ ختم شد

الفتاویٰ الکبریٰ: ( جلد 1، صفحہ 225-226)

لہٰذا ہماری نصیحت یہ ہے کہ آپ ناپاک جگہ پر پانی ڈال کر اسے دھو دیں، یہی کافی ہے۔ اگر وہ پانی بدن پر بہہ جائے، تو جب تک اس کے نجاست سے متاثر ہونے کا یقین نہ ہو، اس کی طرف دھیان نہ دیں۔ عموماً ایسا پانی معمولی نجاست سے تبدیل نہیں ہوتا۔ نیز وسوسوں سے بچیں کیونکہ یہ ایک خطرناک مرض اور بہت بڑی آزمائش ہیں۔

واللہ اعلم

حوالہ جات

ماخذ

الاسلام سوال و جواب

at email

ایمیل خبرنامہ

اسلام سوال و جواب کی میلنگ لسٹ میں شامل ہوں

phone

اسلام سوال و جواب ایپ

مواد تک فوری رسائی اور آف لائن مطالعہ کے لیے

download iosdownload android