جمعرات 16 شوال 1445 - 25 اپریل 2024
اردو

کون سا عمل افضل ہے کہ ابھی ضرورت مندوں کو نفلی صدقہ دیں، اور پھر وقت پر زکاۃ ادا کریں، یا پیشگی زکاۃ دے دیں ؟

سوال

کیا آئندہ رمضان میں زکاۃ کے وقت سے قبل پیشگی زکاۃ ادا کرنا جائز ہے؟  یا پوری زکاۃ پیشگی نہ دی جائے بلکہ ضرورت مند مسلمانوں کو زکاۃ کا کچھ حصہ سال پورا ہونے سے پہلے دے دیا جائے؟ اگر میں اب زکاۃ کی نیت کر لوں، اور پھر آئندہ رمضان میں مکمل زکاۃ  ادا کروں تو کیا اس صورت میں اسے صدقہ شمار کیا جائے گا؟ اور یہ بھی بتلائیں کہ شرعی طور پر کیا افضل ہے؟

جواب کا متن

الحمد للہ.

اول:

جمہور علمائے کرام کے ہاں پیشگی زکاۃ ادا کرنے میں کوئی ممانعت نہیں ہے۔

قبل از وقت زکاۃ ادا کرنے کی دلیل  ابو عبید القاسم بن سلام رحمہ اللہ نے اپنی کتاب: " الأموال " ( 1885 ) میں سیدنا علی رضی اللہ عنہ سے بیان کی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما سے دو سال کی زکاۃ پیشگی وصول کی تھی۔
علامہ البانیؒ  نے اس حدیث کو "الإرواء" (3/346) میں حسن قرار دیا ہے۔

اور ایک روایت میں ہے کہ:
سیدنا علی رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ سیدنا عباس رضی اللہ عنہ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم سے قبل از وقت پیشگی زکاۃ ادا کرنے کے بارے میں اجازت چاہی، تو آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے انہیں رخصت دے دی۔
ترمذی:  ( 673 ) ، ابو داود: ( 1624 )  اور ابن ماجہ : ( 1795 )  نے اسے روایت کیا ہے اور الشیخ احمد شاکر نے مسند احمد  ( 822 ) کی تحقیق میں اسے صحیح قرار دیا ہے۔

یہ بات مسلمہ ہے کہ غریبوں اور مساکین  سمیت جس کسی مسلمان کو ناگہانی مالی یا جانی آفت کا سامنا ہو تو وہ زکاۃ کے مستحق ہوتے ہیں، بلکہ ان لوگوں کو دیگر تمام لوگوں سے زیادہ زکاۃ  کی ضرورت ہوتی ہے کیونکہ انہیں  اس وقت دیگر لوگوں سے بڑھ کر مشکلات کا سامنا ہے۔

یہاں یہ بھی واضح رہے کہ اہل علم کے راجح موقف کے مطابق زکاۃ دوسرے ملک میں بھی منتقل کی جا سکتی ہے۔

اس بارے میں مزید کے لیے آپ سوال نمبر: (43146 ) کا جواب ملاحظہ کریں۔  

دوم:
زکاۃ کی رقم مستحق افراد تک پہنچانے کے لیے معتمد ذرائع کو دینا بھی جائز ہے۔

کسی کو زکاۃ کی رقم پہنچانے کی ذمہ داری سونپتے ہوئے  یہ شرط ہے کہ  وہ ذرائع زکاۃ کی رقوم وصول کرتے ہوں، اور زکاۃ کی رقم کو صرف زکاۃ کے 8 مصارف تک پہنچانے کا خاص اہتمام کرتے ہوں، زکاۃ کے یہ آٹھ مصارف اللہ تعالی نے قرآن کریم کی اس آیت میں ذکر فرمائے ہیں:
إِنَّمَا الصَّدَقَاتُ لِلْفُقَرَاءِ وَالْمَسَاكِينِ وَالْعَامِلِينَ عَلَيْهَا وَالْمُؤَلَّفَةِ قُلُوبُهُمْ وَفِي الرِّقَابِ وَالْغَارِمِينَ وَفِي سَبِيلِ اللَّهِ وَابْنِ السَّبِيلِ فَرِيضَةً مِنَ اللَّهِ وَاللَّهُ عَلِيمٌ حَكِيمٌ
 ترجمہ: یقیناً صدقات فقیروں، مساکین، زکاۃ جمع کرنے والے کارندوں، تالیف قلبی ، گردنیں آزاد کروانے، مقروض  لوگوں ، جہاد فی سبیل اللہ اور مسافروں کے لیے ہیں۔ یہ اللہ تعالی کی طرف سے فریضہ ہے، اور اللہ تعالی جاننے والا اور حکمت والا ہے۔[التوبہ: 60]  

اس بارے میں مزید کے لیے آپ سوال نمبر: (46209 ) اور (70075 )  کا جواب ملاحظہ کریں۔  

اگر آپ کو یہ محسوس ہو کہ آپ کا نمائندہ یا وہ ذریعہ جسے آپ زکاۃ کی رقم مستحقین تک پہنچانے کے لیے ذمہ داری سپرد کر رہے ہیں وہ صحیح مصارفِ زکاۃ  کی تلاش  میں سستی کا شکار ہو سکتے ہیں، مثلاً: زکاۃ کی رقم غیر مسلموں کے ہاتھ میں دے دیں، یا کسی اور غیر شرعی مصرف میں تقسیم کر دیں  تو پھر آپ انہیں نفل صدقے کی رقم دے دیں۔

جبکہ زکاۃ کی رقم آپ خود ہی تقسیم کریں ؛ تا کہ آپ کو یقین ہو کہ زکاۃ اپنے صحیح مصرف میں تقسیم ہوئی ہے۔

سوم:
اگر آپ زکاۃ کی رقم دینے کی نیت ابھی کر لیتے ہیں اور پھر رمضان میں دوبارہ زکاۃ نکالتے ہیں تو فرض زکاۃ وہی ہو گی جو آپ نے پہلے نکالی، چنانچہ رمضان میں ادا کردہ رقم نفل صدقہ ہو گا۔

اگر صورت حال اس طرح کی ہو کہ صرف زکاۃ کی رقم ادا کرنے کی ہی گنجائش ہے کہ ابھی ناگہانی ضرورت پوری کرنے کے لیے زکاۃ ادا کی جائے یا وقت آنے پر زکاۃ کی رقم نکالی جائے تو پھر  افضل یہی ہو گا کہ ضرورت پوری کرنے کے لیے زکاۃ کی ادائیگی پیشگی کر دی جائے۔
اس بارے میں مزید کے لیے آپ سوال نمبر: (98528 ) کا جواب ملاحظہ کریں۔  

اور اگر آپ کے لیے یہ ممکن ہو کہ ابھی ضرورت مندوں کی ضرورت اپنے ذاتی مال سے پوری کر دیں اور اسے نفلی خیرات شمار کر لیں، پھر زکاۃ کا وقت آنے پر زکاۃ بھی ادا کریں ، تو یہ یقیناً افضل اور زیادہ بہتر عمل ہے، اس طرح خیر و بھلائی کی متعدد صورتیں جمع ہو جائیں گی کیونکہ آپ اپنی دولت سے لوگوں کی مشکل آسان کریں گے، ضرورت مند کی ضرورت پوری کریں گے ، اور پھر زکاۃ کا سال پورا ہونے پر زکاۃ بھی ادا کریں گے ، جو کہ رمضان میں اضافی ثواب حاصل ہونے کا باعث بھی بنے گا۔ اس لیے کہ آپ کے سوال سے ہم یہ سمجھے ہیں کہ رمضان میں آپ کی زکاۃ کا سال مکمل ہو رہا ہے  تو آپ رمضان میں زکاۃ ادا کریں گے۔

واللہ اعلم

ماخذ: اسلام سوال و جواب