اتوار 21 جمادی ثانیہ 1446 - 22 دسمبر 2024
اردو

شجاعت کسے کہتے ہیں؟ اور اسے اپنانے کے لیے اسباب

سوال

اسلام میں کس چیز کو شجاعت کہا جاتا ہے؟ اور انسان کس طرح شجاع بن سکتا ہے؟

جواب کا خلاصہ

شجاعت: پیش آمدہ سنگین مسائل میں ثابت قدم رہنا اور خطرات میں حواس باختہ نہ ہونا، شجاعت کہلاتا ہے۔

جواب کا متن

الحمد للہ.

اول:

لغوی طور پر شجاعت: لڑائی کے وقت مضبوط دلی کو کہتے ہیں، اسی لیے عربی میں { قد شَجُعَ، شَجاعةً} اس وقت کہا جاتا ہے جب کوئی جنگ میں خوب دل جمعی کے ساتھ لڑائی لڑے۔"تهذيب اللغة" (1/ 214) ، "لسان العرب" (8/ 173)

ابن فارس رحمہ اللہ کہتے ہیں:
"شین، جیم، اور عین سے ایک ہی اصل ہے، جو کہ انسان میں جرأت اور پیش قدمی پر بولا جاتا ہے۔" ختم شد
"مقاييس اللغة" (3/ 247)

دوم:
اصطلاحی طور پر شجاعت :

پیش آمدہ سنگین مسائل میں ثابت قدم رہنا اور خطرات میں حواس باختہ نہ ہونا، شجاعت کہلاتا ہے۔

چنانچہ ابن قیم رحمہ اللہ کہتے ہیں:
"کچھ لوگ شجاعت اور قوت میں فرق نہیں کر پاتے دونوں کو ایک ہی سمجھ لیتے ہیں، حالانکہ یہ دونوں الگ الگ چیزیں ہیں؛ کیونکہ شجاعت سنگین حالات میں ثابت قدم رہنا ہے، اگرچہ گرفت کمزور ہی کیوں نہ ہو۔
اسی لیے ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کے بعد امت کے سب سے شجاع ترین فرد تھے، جبکہ عمر رضی اللہ عنہ اور دیگر ائمہ اسلام ان سے زیادہ گرفت رکھتے تھے، لیکن سیدنا ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ تمام تر صحابہ کرام سے ثابت قدمی میں ممتاز اور نمایاں تھے، آپ کی یہ خوبی ہر ایسے موقع پر عیاں تھی جہاں پہاڑ بھی لرز جائیں، لیکن سیدنا ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ ثابت قدم رہے، اور دوسروں کی ڈھارس باندھتے رہے، بڑے بڑے کبار اور سر کردہ صحابہ کرام بھی سیدنا ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ کی پشت پناہی میں آتے اور صدیق رضی اللہ عنہ ان کی ہمت باندھتے اور حوصلہ دیتے تھے۔" ختم شد
"الفروسية" (ص 500)

انہوں نے یہ بھی کہا ہے کہ:
"شجاعت کا تعلق دل سے ہے، اور شجاعت خطرات اور اندیشوں میں ثابت قدم رہنے کو کہتے ہیں۔
شجاعت ایسا اخلاقی وصف ہے جو ڈٹ جانے اور حسن ظن سے پیدا ہوتا ہے، چنانچہ جس وقت انسان کو کامیابی کی امید ہو اور ڈٹ جائے تو شجاعت پیدا ہوتی ہے۔
جبکہ بزدلی کا ماخذ بد ظنی اور ناکامی کے نفسیاتی خیالات ہوتے ہیں۔۔۔" ختم شد
"الروح" (ص 236)

ابن حزم رحمہ اللہ کہتے ہیں:
"شجاعت کی تعریف: دین اور اپنی خواتین کی حفاظت کے لیے جان نچھاور کرنا، مظلوم پڑوسی اور آپ سے پناہ مانگنے والے کی مدد کے لیے تیار رہنا ، کسی کی دولت یا عزت پر ہاتھ ڈالا جا رہا ہو اس کی فریاد رسی کرنا، بلکہ راہ ِ حق میں کسی بھی شخص کے ساتھ کھڑے ہونا چاہے مقابلے میں افراد تھوڑے ہوں یا زیادہ شجاعت کہلاتا ہے۔

دوسری طرف ہماری ذکر کردہ جگہوں میں کسی قسم کی کوتاہی کرنا بزدل اور ڈرپوک شخصیت کی علامت ہے۔
جبکہ اپنی جان دنیاوی امور میں جھونکنا بے وقوفی اور پاگل پن ہے۔
ان سب میں مہان پاگل وہ ہے جو اپنی جان دوسروں کے حقوق اور واجبات ادا کرنے کی بجائے روکنے میں لگا دے۔ یا ان واجبات و حقوق کی ادائیگی نہ کرنے والے کے دفاع میں جھونک دے۔" ختم شد
"الأخلاق والسير" (ص 32)

سوم:
رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم سب سے زیادہ شجاع تھے، جیسے کہ انس رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم سب سے زیادہ خوب صورت اور سب سے زیادہ شجاعت والے تھے ۔ ایک رات اہل مدینہ پر [زور دار آواز سن کر] بڑا خوف چھا گیا تھا ، سب لوگ اس آواز کی طرف بڑھے لیکن نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم آواز کی سمت سے واپس آتے ہوئے لوگوں کو ملے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم اس واقعہ کی تحقیق کر چکے تھے۔ آپ صلی اللہ علیہ و سلم ابو طلحہ رضی اللہ عنہ کے ننگی پیٹھ والے گھوڑے پر سوار تھے ۔ اور آپ صلی اللہ علیہ و سلم کی گردن سے تلوار لٹک رہی تھی اور آپ صلی اللہ علیہ و سلم فرما رہے تھے کہ (ڈرو مت ، ڈرو مت۔)
اس حدیث کو امام بخاری: (2908) اور مسلم : (2307) نے روایت کیا ہے۔

چہارم:

شجاعت حاصل کرنے کے اسباب کئی ہیں، ان میں سے کچھ درج ذیل ہیں:

  • مضبوط ایمان اور ایمان پر ثابت قدمی
  • نڈر اور بے باک اسلامی مشاہیر کی سیرت کا مطالعہ۔
  • حق بات کہنے اور ببانگ دہل کہنے کی ہمت۔
  • برائی سے روکنے اور منع کرنے کی طاقت۔
  • اپنے آپ پر مکمل کنٹرول رکھنے کی صلاحیت، جیسے کہ سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا: (مضبوط وہ شخص نہیں ہے جو دنگل میں پچھاڑ دے، مضبوط وہ شخص ہے جو غصے میں اپنے آپ پر کنٹرول کرے) اس حدیث کو امام بخاری: (6114) اور مسلم : (2609) نے روایت کیا ہے۔

ابن الاثیر رحمہ اللہ "النهاية" (3/ 23) میں کہتے ہیں:
"عربی زبان میں { الصُّرَعَة} ایسے شخص کو کہتے ہیں جسے بچھاڑنا مشکل ہو اور ہمیشہ فاتح قرار پائے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم نے اس خوبی کو ایسے شخص میں منتقل فرما دیا جو غصے کے وقت اپنے نفس کو پچھاڑ دے اور اسے قابو میں رکھے، تو جب انسان نے اپنے نفس کو غصے میں قابو کر لیا تو اس نے اپنے سب سے بڑے دشمن اور مقابلے باز کو قابو کر لیا۔ " ختم شد

  • شرعی احکامات کا مکمل احترام
  • اللہ تعالی کی مقرر کردہ حدود کا احترام
  • آگے بڑھ کر اقدام کرنے والی جگہوں میں پیش قدمی
  • مظلوم کی مدد، اور ظلم کے خاتمے کے لیے کد و کاوش

واللہ اعلم

ماخذ: الاسلام سوال و جواب