الحمد للہ.
اول:
کسی کے لیے غیر موجود چیز فروخت کرنا جائز نہیں، صرف بیع سلم (آرڈر پر کسی چیز کو بنوانا) میں جائز ہے۔
اور ہم سوال نمبر : (259320)کے جواب میں وضاحت کر آئے ہیں کہ جب تک رقم آن لائن مڈل مین کے پاس موجود ہے اور آپ اسے نہیں لے سکتے تو بیع سلم بھی درست نہیں ہے، کیونکہ بیع سلم کے درست ہونے کی شرط یہ ہے کہ رقم معاہدے کی نشست کے دوران مکمل وصول کر لی جائے۔ اس کی ایک صورت یہ ہو سکتی ہے کہ اگر رقم آپ کے اکاؤنٹ میں جمع ہو جائے اور آپ اسے براہ راست نکال سکیں۔ لیکن سوال میں بیان کردہ لین دین میں ایسا نہیں ہے۔
مطالب اولی النھی: (3/20) میں ہے کہ : دکاندار کے پاس کوئی معین چیز نہ ہو تو اس کی فروخت جائز نہیں ہے یا اسے بیچنے کی اجازت نہیں دی گئی، کیونکہ حکیم بن حزام کی مرفوع حدیث ہے: وہ چیز نہ بیچو جو تمہارے پاس نہیں ہے۔" اسے ابن ماجہ اور ترمذی نے روایت کیا ہے، اور ترمذی نے اسے صحیح کہا ہے۔
تاہم اگر کسی چیز کی صفات بیان کر دی گئیں ہیں معین نہیں کی گئی، تو اس میں بیع سلم جائز ہے؛ کیونکہ اس صورت میں وہ تصرف کر سکتا ہے کہ جب وہ مجلس عقد میں اس چیز کو اپنے قبضے میں لے لے گا یا اس چیز کی قیمت وصول کرے گا۔ اگر اس وقت اس نے وہ چیز حاصل نہ کی ہو یا پوری قیمت وصول نہ کی ہو تو یہاں بیع سلم بھی صحیح نہیں ہے کیونکہ یہ قرض کے بدلے بیچنے کے مترادف ہے جو کہ منع ہے" ختم شد
اس بنا پر جو چیز سوال میں مذکور ہے اس کے مطابق آپ کے لیے اس چیز کو بیچنا جائز نہیں ہے جس پر آپ نے ابھی تک قبضہ نہیں کیا ۔
جس چیز کا مالک نہ ہو اسے بیچنے کی ممانعت کی بنیادی دلیل سنن نسائی (4613)، ابو داود (3503) اور ترمذی (1232) نے حکیم بن حزام سے روایت کی ہے، انہوں نے کہا: میں نے پوچھا: یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم میرے پاس ایک آدمی آ کر مجھے کوئی ایسی چیز فروخت کرنے کا کہتا ہے جو میرے پاس نہیں ۔ کیا میں اس کے ساتھ سودا کروں پھر جا کر اس کے لیے بازار سے خرید لوں؟ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: (جو چیز تمہارے پاس نہ ہو اسے نہ بیچو) اس حدیث کو البانی نے صحیح نسائی میں صحیح قرار دیا ہے۔
دوم:
انٹرنیٹ پر غیر مملوکہ چیز کو فروخت کرنے کے لیے دو طریقے ہو سکتے ہیں:
پہلا طریقہ:
خریداری کا آرڈر کرنے والے کے لیے منافع رکھ کر خریداری کرنا۔ اس صورت میں یہ ہو گا کہ آپ مطلوبہ چیز کے خریدار سے معاہدہ کریں کہ آپ اس کے لیے یہ چیز خرید رہے ہیں اور اس پر مخصوص تناسب سے نفع لیں گے۔ اس صورت میں یہ صرف ایک وعدہ ہو گا جو کسی بھی فریق پر لازم نہیں ہو گا، لہذا کامل بیع بھی نہیں ہے۔
تاہم اس صورت میں آپ کو یہ حق نہیں ہے کہ آپ مکمل قیمت، یا اس کا کچھ حصہ پہلے سے بطور ضمانت لیں کہ وہ سنجیدہ خریدار ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ مطلوبہ چیز خریدنے سے پہلے گاہک سے یہ رقم لینا اس بات کی طرف اشارہ کرتا ہے کہ ان کے درمیان معاہدہ محض بیع کا وعدہ نہیں ہے۔ بلکہ یہ ایک پختہ عزم ہے، اور یہ رقم در حقیقت اس عزم کی تصدیق اور ضمانت کے لیے ہے۔
یہ اس شرط کے خلاف ہے جو اوپر بیان کی گئی ہے کہ بیع کا وعدہ دونوں فریقوں یا ان میں سے کسی ایک پر لازم نہیں ہونا چاہیے۔
اس کی وضاحت پہلے سوال نمبر: (229091 )کے جواب میں بھی بیان ہو چکی ہے۔
یہ بھی شرط ہے کہ گاہک کے ساتھ معاہدہ کرنے سے پہلے آپ کو چیز خریدنی چاہیے اور اسے اپنے قبضے میں لینا چاہیے۔
لہذا جب آپ نے وہ چیز خرید لی اور اس پر قبضہ کر لیا تو آپ کے لیے اسے گاہک کو بیچنا جائز ہے۔
ہم نے شرط لگائی کہ تم اس پر قبضہ کر لو، کیونکہ حکیم بن حزام کی حدیث کے بعض الفاظ میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے فرمایا: " جب تم کوئی چیز خریدو تو اسے فروخت نہ کرو جب تک کہ تم اس پر قبضہ نہ کر لو۔" اسے احمد (15399) اور نسائی (4613) نے روایت کیا ہے۔ البانی نے صحیح الجامع: (342) میں اسے صحیح قرار دیا ہے ۔
نیز امام دارقطنی اور ابوداود (3499) نے زید بن ثابت رضی اللہ عنہ سے روایت کی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے کسی چیز کو خریدی ہوئی جگہ پر بیچنے سے منع فرمایا، یہاں تک کہ تاجر اسے اپنے گھر میں منتقل کر لیں۔ اس حدیث کو البانی نے صحیح ابو داود میں حسن قرار دیا ہے۔
اس بنا پر، یہ آپ کے لیے درست نہیں ہے کہ آپ ایمیزون سے گاہک کو مطلوبہ چیز بھیجنے کا کہیں۔ بلکہ آپ پہلے اسے ایمیزون Amazon سے وصول کریں ، یا آپ کا نمائندہ اس چیز کو آپ کی طرف سے وصول کرے، پھر اس کے بعد آپ اسے کسٹمر کو فروخت کر سکتے ہیں۔
دوسرا طریقہ: فیس کے بدلے میں بطور نمائندہ کام کریں۔
اس صورت میں آپ صارفین کی جانب سے ایک ایجنٹ کے طور پر کام کریں، ان کے لیے وہ مصنوعات خریدیں جو ایمیزون پر دستیاب ہیں، اور ان کی قیمت وہی ہو جو ویب سائٹ پر بیان کی گئی ہے اس میں اضافہ نہیں کریں گے، تاہم اپنی محنت کا عوض بطور کمیشن لیں گے، یہاں یہ شرط ہے کہ آپ پروڈکٹ کو گاہک کے پیسوں سے خریدیں گے، اپنے پیسوں سے نہیں۔
اس صورت میں یہ شرط نہیں ہو گی کہ پہلے آپ چیز خریدیں یا پہلے اسے اپنے قبضے میں لیں، بلکہ آپ براہ راست گاہک کے لیے ہی چیز خریدیں گے، اور ایمیزون وغیرہ سے کہیں کہ وہ گاہک کی طرف پارسل کر دے۔
لیکن در حقیقت گاہک کی جانب سے ادا کردہ رقم ویب سائٹ کے پاس ہی رہتی ہے اور آپ اپنے ذاتی پیسوں سے مطلوبہ چیز خریدتے ہیں، تو اس کا مطلب یہ بنتا ہے کہ آپ جو قیمت ادا کرتے ہیں وہ آپ کی ذاتی رقم ہے، اور وہ آپ کی طرف سے گاہک کو قرض کے طور پر دی گئی ہے، اور شریعت میں بیک وقت قرض خواہ بننا اور معاوضہ لیکر نمائندگی کرنا منع ہے۔ اس لیے کہ جمہور فقہائے کرام کے ہاں قرض اور معاوضہ لے کر کوئی کام کرنا دونوں کو بیک وقت جمع نہیں کیا جا سکتا۔
مقرر نفع کی بنیاد پر کاروبار کرنے کے بارے میں اسلامی فقہ اکادمی کی قرارداد میں کہا گیا:
"دوم: اگر مڈل مین گاہک پر یہ شرط لگائے کہ وہ اسی کے ذریعے تجارت کرے، تو اس سے قرض اور دلالی یک جا ہو جائے گی، جو کہ قرض کو لین دین کے ساتھ جمع کرنے کے تحت آتا ہے، اور یہ اسلامی تعلیمات کے مطابق ممنوع ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”قرض کو خریدوفروخت کے ساتھ ملانا جائز نہیں۔“ اس حدیث کو ابوداؤد (3/384) اور ترمذی (3/526) نے روایت کیا ہے۔ نیز امام ترمذی نے اسے حسن صحیح قرار دیا ہے۔
اس طرح دلال اپنے قرض سے فائدہ اٹھائے گا اور فقہا کا اس بات پر اتفاق ہے کہ کوئی بھی قرض جو فائدہ پہنچاتا ہو سود کے تحت آتا ہے جو کہ حرام ہے" ختم شد
مندرجہ بالا تفصیلات کی روشنی میں: صرف پہلا طریقہ ہی اپنی تمام شرائط وضوابط کے ساتھ ایسا طریقہ ہے جسے آپ اپنا سکتے ہیں ۔
واللہ اعلم