جمعہ 21 جمادی اولی 1446 - 22 نومبر 2024
اردو

رات کے آخری حصے میں تراویح سے فراغت کے بعد الگ سے تہجد کا اہتمام شرعاً جائز ہے۔

سوال

میں نے یوٹیوب پر ایک ویڈیو کلپ سنا ہے جس میں تھا کہ نماز تہجد بدعت ہے، تراویح اور تہجد میں تفریق کہیں نہیں ملتا ، یہ دونوں نمازیں ایک ہی ہیں انہیں رات کے آغاز اور اختتام دونوں اوقات میں پڑھا جا سکتا ہے، دونوں میں تفریق کرتے ہوئے سب سے پہلے جنہوں نے یہ کام شروع کیا تھا وہ امامِ حرم جناب عبد اللہ خلیفی رحمہ اللہ تھے، آپ نے تقریباً 50 سال قبل اس انداز سے تفریق کی تھی اس سے پہلے یہ تفریق نہیں ملتی، تو کیا ان کی یہ بات صحیح ہے؟ نیز تراویح اور تہجد کو اس طرح الگ الگ پڑھنے کا کیا حکم ہے، بہت سے لوگ اس انداز سے تراویح اور تہجد میں فرق کرتے ہیں۔

جواب کا متن

الحمد للہ.

اول:

قیام اللیل رمضان اور غیر رمضان میں بھی مستحب ہے، جبکہ رمضان میں قیام اللیل کی کافی تاکید کی گئی ہے، رمضان میں قیام اللیل با جماعت بھی ادا کیا جا سکتا ہے؛ کیونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم سے با جماعت قیام ثابت ہے، آپ صلی اللہ علیہ و سلم کے بعد صحابہ کرام نے بھی با جماعت قیام کیا ہے۔

قیام اللیل کا وقت نماز عشا کی سنتوں سے لیکر طلوع فجر تک ہے، نیز قیام اللیل کے لیے رکعات کی تعداد کی کوئی حد بندی نہیں ہے؛ اس لیے کہ صحیح حدیث ہے کہ: عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کہتے ہیں: ایک شخص نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم سے پوچھا آپ اس وقت منبر پر تھے: "آپ رات کی نماز کے بارے میں بتلائیں" تو آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا: (دو، دو رکعت پڑھتے جائیں، تو جب طلوع فجر کا خدشہ ہو تو ایک رکعت وتر پڑھ لے ، یہ ایک رکعت اس کی سابقہ پڑھی ہوئی تمام نماز کی تعداد کو وتر بنا دے گی) اس حدیث کو امام بخاری: (472) اور مسلم : (749)نے روایت کیا ہے۔

قیام اللیل کو ہی تراویح کہا جاتا ہے؛ اسے تراویح کہنے کی وجہ یہ ہے کہ چار رکعات کے بعد کچھ دیر راحت پانے کے لیے وقفہ کرتے تھے اسی مناسبت سے اسے تراویح کہتے ہیں۔

جبکہ تہجد کا مطلب ہے قیام کرنا، بعض کہتے ہیں کہ سو کر بیدار ہونے کے بعد پڑھی جانے والی نماز کو خصوصی طور پر تہجد کہتے ہیں۔

بہ ہر حال پوری رات میں کسی بھی وقت قیام کر سکتے ہیں، چنانچہ اگر کوئی شخص ساری رات قیام کرتا ہے تو یہ اس کی بہت بڑی نیکی ہے، اور اگر رات کے آغاز میں قیام کرے پھر آخری حصے میں بھی کر لے تو اس میں کوئی حرج نہیں ہے، اس میں ممانعت کی کوئی وجہ بھی نہیں ہے، دو حصوں میں قیام اللیل کو تقسیم کرنے کا عمل آسانی اور سہولت کی غرض سے مسلمان بڑے عرصے سے کرتے چلے آ رہے ہیں۔

اور جو معاصر اہل علم اس عمل سے منع کرتے ہیں وہ اس لیے منع کرتے ہیں کہ اس طرح قیام اللیل کی رکعات گیارہ سے بڑھ جاتی ہیں، اور اسے بدعت شمار کرتے ہیں!!

حالانکہ یہ موقف کمزور ہے؛ کیونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کے سابقہ صحیح بخاری کے فرمان میں قیام اللیل کی تعداد کو مطلق رکھا گیا ہے، مقید نہیں کیا گیا۔ اسی طرح صحابہ کرام نے بھی نبی صلی اللہ علیہ و سلم کے بعد گیارہ رکعات سے زیادہ قیام کیا ہے، کیونکہ صحابہ کرام سے یہ مروی ہے کہ بعض صحابہ کرام 20 اور بعض 39 رکعات یا اس کے علاوہ تعداد میں بھی قیام اللیل کی رکعات پڑھا کرتے تھے۔

جیسے کہ امام ترمذی رحمہ اللہ اپنی کتاب سنن ترمذی: (3/160) میں کہتے ہیں:
"اہل علم کا رمضان میں قیام کے بارے میں اختلاف ہے، چنانچہ بعض یہ سمجھتے ہیں کہ وتر سمیت 41 رکعات پڑھی جائیں، یہ اہل مدینہ کا موقف ہے، مدینہ کے لوگوں کا اسی پر عمل ہے۔ جبکہ اکثر اہل علم اس تعداد کے قائل ہیں جو سیدنا عمر، علی اور دیگر صحابہ کرام رضی اللہ عنہم جمیعا سے مروی ہے، اور وہ 20 رکعت کا موقف ہے، یہی موقف سفیان ثوری، ابن مبارک، اور شافعی رحمہم اللہ کا ہے۔

چنانچہ امام شافعی رحمہ اللہ کہتے ہیں: میں نے اپنے شہر مکہ میں لوگوں کو اسی طرح 20 رکعت پڑھتے ہوئے پایا ۔

امام احمد رحمہ اللہ کہتے ہیں: قیام اللیل کے بارے میں مختلف تعداد منقول ہے، کوئی حتمی عدد نہیں ہے۔

جبکہ امام اسحاق رحمہ اللہ کہتے ہیں: ہمیں 41 رکعت کا موقف پسند ہے ، یہ تعداد ابی بن کعب رضی اللہ عنہ سے یہ مروی ہے۔" ختم شد

اسی طرح ابن عبد البر رحمہ اللہ "الاستذكار" (2/69) میں لکھتے ہیں:

"سیدنا علی ، شتیر بن شکل، ابن ابی ملیکہ، حارث ہمدانی، ابو بختری اور جمہور علمائے کرام سے 20 رکعت منقول ہیں، یہی موقف کوفی، شافعی اور اکثر فقہائے کرام کا ہے، یہی موقف ابی بن کعب سے صحیح ثابت ہے، نیز صحابہ کرام میں سے کوئی بھی اس تعداد کا مخالف نہیں ہے، جبکہ عطاء رحمہ اللہ کہتے ہیں: "میں نے ایسے لوگوں کو پایا ہے جو وتر سمیت 23 رکعت قیام اللیل کیا کرتے تھے"" ختم شد

مذکورہ بالا اقوال کی اسانید آپ "مصنف ابن أبي شيبة" (2/163) میں دیکھ سکتے ہیں۔

اس بارے میں مزید کے لیے آپ سوال نمبر: (82152) کا جواب بھی ملاحظہ کریں۔

پھر یہ بھی دیکھیں کہ: اگر کوئی شخص 23 رکعت اکٹھی پڑھ لیتا ہے، یا کوئی رات کے آغاز میں 8 یا 10 رکعت پڑھ لیتا ہے اور آخری حصے میں 11 رکعت ادا کر لیتا ہے تو اس میں کیا فرق ہے؟

تو حقیقت میں مسئلے کی بنیاد اس بات پر ہے کہ تراویح کے لیے رکعات کی تعداد کی کوئی حد بندی نہیں ہے، نیز ساری رات قیام اللیل کا وقت ہے، اور یہ کہ درمیان میں کیا جانے والا فاصلہ بطور عبادت نہیں کیا جاتا بلکہ آسانی اور زیادہ سے زیادہ عبادت کرنے کے لیے کیا جاتا ہے کہ رات کی آخری یعنی تیسری تہائی میں بھی عبادت ہو جائے ۔ چنانچہ جو شخص ان بنیادی اور ابتدائی باتوں کو تسلیم کر لے تو اب اس کے لیے قیام کو دو حصوں میں تقسیم کرنے پر اعتراض کی کوئی گنجائش باقی نہیں رہتی۔

جیسے کہ شیخ صالح الفوزان رحمہ اللہ اپنی کتاب: "إتحاف أهل الإيمان بمجالس شهر رمضان" میں کہتے ہیں: "مسلمان رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کی اقتدا کرتے ہوئے رمضان کے آخری عشرے میں عبادت کے لیے خوب اور خصوصی محنت کرتے ہیں، ان کا مقصد ہزار مہینوں سے افضل رات یعنی لیلۃ القدر کی تلاش ہوتا ہے۔ چنانچہ جو لوگ رمضان کے آغاز میں 23 رکعات پڑھتے ہیں اور رمضان کے آخری عشرے میں تراویح کے نام سے پہلے دس رکعات پڑھتے ہیں اور پھر رات کے آخری حصے میں قیام اللیل کے نام پر دس لمبی لمبی رکعات مع 3 وتر ادا کرتے ہیں تو یہ صرف نام کا فرق ہے، وگرنہ رات کے آغاز اور آخر والی دونوں نمازوں کو تراویح اور قیام کہہ سکتے ہیں۔

اور اگر کوئی شخص رمضان کے آغاز میں 10 یا 13 رکعات ادا کرتا ہے ، پھر رمضان کے آخری عشرے کی فضیلت پانے کے لیے مزید لمبی لمبی 10 رکعات کا اضافہ کر کے رات کے آخری حصے میں پڑھتا ہے، اور عبادت کے لیے زیادہ محنت کرتا ہے تو اس کے عمل کے لیے بھی صحابہ کرام اور دیگر سلف صالحین میں عملی نمونے موجود ہیں؛ کیونکہ سلف صالحین سے منقول ہے کہ وہ 23 رکعات ادا کیا کرتے تھے، جیسے کہ پہلے اس کی تفصیل گزر چکی ہے، اس طرح سے یہ لوگ دونوں اقوال پر عمل کرنے والے بن جاتے ہیں: پہلا قول پہلے 20 ایام میں 13 رکعات پڑھنا، اور آخری عشرے میں 23 رکعات پڑھنا۔" ختم شد

اس موضوع پر مکمل گفتگو آپ مندرجہ ذیل ربط پر پڑھ سکتے ہیں:

http://iswy.co/evnq3

دوم:

تراویح اور قیام میں فاصلہ کرتے ہوئے قیام اللیل کو دو حصوں میں تقسیم کرنا بہت قدیم سے چلا آ رہا ہے، ایسا نہیں ہے کہ اس کی مدت سوال میں مذکور 50 سال یا کم و بیش ہے۔

جیسے کہ ابن رجب رحمہ اللہ کہتے ہیں:

"علامہ مروذی نے امام احمد سے روایت کیا ہے کہ : ان سے پوچھا گیا: ایک آدمی رمضان میں نماز تراویح پڑھا کر انہیں وتر بھی پڑھا دیتا ہے، حالانکہ اس نے کچھ اور لوگوں کو مزید نماز تراویح پڑھانی ہے تو وہ کیا کرے؟: تو امام احمد نے کہا: وہ ایک جگہ سے فراغت پا کر کھانے پینے یا بات چیت میں تھوڑی دیر مشغول ہو جائے اور وقفہ پیدا کر لے۔

اس کی وضاحت میں ابو حفص برمکی کہتے ہیں: اس وقفے کی وجہ یہ ہے کہ امام احمد وتر کے ساتھ کسی اور نماز کو ملانے کو مکروہ کہتے ہیں اس لیے وقفے کے دوران کوئی نماز سے ہٹ کر کام کر لے؛ تا کہ وتر اور دوسری نماز میں فاصلہ اور وقفہ آ جائے۔

یہ وقفہ اس وقت ہے جب اسی جگہ پر دوسری جماعت کو نماز پڑھانی ہے، لیکن اگر کسی اور جگہ جا کر نماز پڑھانی ہے تو اس کا ایک جگہ سے دوسری جگہ جانا ہی وقفہ اور فاصلے کا باعث بن جائے گا، تاہم وتر دوسری بار مت پڑھے؛ کیونکہ ایک رات میں دو بار وتر ادا نہیں کیے جاتے۔" ختم شد

واضح رہے کہ امام احمد سے صراحتًا جو موقف منقول ہے وہ اس سے ہٹ کر ہے:

ایک شخص امام کے ساتھ وتر پڑھ کر گھر میں جائے تو صالح کی امام احمد سے روایت کے مطابق ایسا شخص لیٹنے کے بعد یا پھر لمبی گفتگو کے بعد دوبارہ قیام کرے۔

جبکہ رمضان میں تعقیب کے بارے میں امام احمد سے مختلف روایات ہیں: تعقیب یہ ہے کہ مسجد میں قیام با جماعت ادا کر کے مسجد سے چلے جائیں، اور رات کے آخری حصے میں دوبارہ پھر مسجد میں جمع ہو کر با جماعت قیام کریں۔ تعقیب یہ کی وضاحت ابو بکر عبد العزیز بن جعفر اور دیگر حنبلی فقہائے کرام نے کی ہے۔

مروذیؒ اور دیگر نے امام احمد سے نقل کیا ہے کہ : اس میں کوئی حرج نہیں ہے، اس کے بارے میں انس رضی اللہ عنہ سے مروی ہے۔

جبکہ ابن الحکم نے امام احمد سے نقل کیا کہ: میں اسے مکروہ سمجھتا ہوں، اسی طرح انس رضی اللہ عنہ سے بھی مکروہ ہونا منقول ہے، اسی طرح ابو مجلز اور دیگر سے بھی کراہت منقول ہے، تاہم رات کے آخری حصے تک قیام اللیل موخر کرتے تھے، جیسے کہ عمر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں۔

اس کی وضاحت میں ابو بکر عبد العزیز کہتے ہیں: محمد بن الحکم کی روایت میں امام احمد کا قدیم قول نقل ہوا ہے، چنانچہ عمل اسی موقف پر ہے جسے متعدد شاگردوں نے نقل کیا ہے کہ تعقیب میں کوئی حرج نہیں ہے۔ ختم شد

امام ثوریؒ کہتے ہیں: تعقیب بدعتی عمل ہے۔

ہمارے کچھ فقہائے کرام ایسے ہیں جنہوں نے تعقیب کو صراحت کے ساتھ مکروہ سمجھا ہے، تاہم کچھ دیر سو کر دوبارہ قیام کیا جائے یا آدھی رات گزرنے کے بعد کیا جائے تو اس کی اجازت دی ہے، انہوں نے اس کی شرط رکھی ہیں: پہلے قیام کے بعد با جماعت وتر ادا کر لیے ہوں۔ یہ موقف ابن حامد، القاضی اور ان کے شاگردوں کا ہے۔ نیز امام احمد رحمہ اللہ نے یہ شرط نہیں لگائی۔

جبکہ اکثر فقہائے کرام تعقیب کو کسی بھی حالت میں مکروہ نہیں سمجھتے۔۔۔

جیسے کہ ابن منصور نے اسحاق بن راہویہ سے نقل کیا ہے کہ اگر امام تراویح کی نماز رات کے اول حصے میں پوری کر لے تو اس امام کے لیے رات کے آخری حصے میں دوبارہ سے جماعت کروانا مکروہ ہے؛ جیسے کہ انس، اور سعید بن جبیر سے اس عمل کا مکروہ ہونا منقول ہے۔ لیکن اگر رات کے اول حصے میں تراویح مکمل نہ کرے بلکہ رات کے آخری حصے میں مکمل کرے تو پھر مکروہ نہیں ہے" ختم شد
"فتح الباری" از ابن رجب (9/ 174)

کراہت اس صورت میں ہے جب امام نے رات کے اول حصے میں وتر پڑھا دئیے ہوں اور دوبارہ پھر انہیں قیام کروائے، اس طرح سے کچھ لوگ آج بھی کرتے ہیں کیونکہ اکثر فقہائے کرام اس صورت کو بھی مکروہ نہیں سمجھتے، جیسے کہ ابن رجب رحمہ اللہ سے مروی ہے۔

اس ساری تفصیل کا مقصد یہ ہے کہ دو حصوں میں قیام کو تقسیم کرنا قدیم معاملہ ہے، اس مسئلے پر بھی سلف صالحین کے ہاں گفتگو پائی جاتی ہے۔

اسی طرح الشیخ ابن عثیمین رحمہ اللہ کہتے ہیں:
"مصنف کا کہنا ہے کہ جماعت کی صورت میں تعقیب نہیں ہوتی، یعنی مطلب یہ ہے کہ وتر سمیت تراویح ادا کرنے کے بعد بھی قیام اللیل کرنا مکروہ نہیں ہے، تعقیب کا یہ مطلب ہے کہ با جماعت تراویح مع وتر ادا کرنے کے بعد مزید قیام اللیل کیا جائے۔

مصنف کے کلام سے ظاہر ہوتا ہے کہ مسجد میں بھی ہو تو مکروہ نہیں ہے۔

اس کو مثال سے یوں سمجھیں: مسجد میں تراویح مع وتر ادا کر نے کے بعد لوگوں نے کہا: رات کے آخری حصے میں بھی آ جائیں با جماعت قیام کرتے ہیں، تو یہ صورت مصنف کے موقف کے مطابق مکروہ نہیں ہے۔

تاہم یہ موقف کمزور ہے؛ کیونکہ اس موقف کی دلیل سیدنا انس بن مالک رضی اللہ عنہ کا اثر ہے کہ انہوں نے کہا: اس میں کوئی حرج نہیں ہے؛ کیونکہ رات کے آخری حصے میں بھی انہوں نے خیر کا ارادہ کیا ہے۔۔۔ یعنی مطلب یہ ہے کہ تم نماز کے لیے دوبارہ آؤ تو اللہ سے خیر و ثواب کی امید کرتے ہوئے ہی آؤ۔

لیکن یہ اثر اگر سیدنا انس رضی اللہ عنہ سے ثابت ہو بھی جائے تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کے فرمان سے متصادم ہے، آپ صلی اللہ علیہ و سلم کا فرمان ہے: (تم اپنی رات کی آخری نماز وتر کو بناؤ)؛ کیونکہ ان لوگوں نے وتر پڑھ لیا ہے تو اب اگر وتر کے بعد مزید قیام اللیل کرتے ہیں تو ان کی رات کی آخری نماز وتر نہیں رہے گی۔

اس لیے راجح موقف یہی ہے کہ تعقیب کی مذکورہ صورت مکروہ ہے، امام احمد سے منقول دو میں سے ایک کا یہی مفہوم ہے، چنانچہ { المقنع}، { الفروع} اور { الفائق} وغیرہ میں دونوں روایات امام احمد سے مطلق آئی ہیں، یعنی دونوں روایتیں امام احمد سے یکساں انداز میں منقول ہیں کسی کو دوسری پر ترجیح نہیں دی جا سکتی۔

لیکن تعقیب کی یہ صورت تراویح کے بعد اور وتر سے پہلے ہو تو مکروہ نہ ہونے کا قول صحیح ہو جائے گا، اسی پر لوگوں کا آخری عشرے میں عمل ہوتا ہے کہ لوگ رات کے اول حصے میں تراویح پڑھتے ہیں اور پھر رات کے آخری حصے میں دوبارہ قیام شروع ہو جاتا ہے، چنانچہ مختصر سی نیند کے بعد دوبارہ پھر کھڑے ہو کر تہجد پڑھنے لگتے ہیں۔"
"الشرح الممتع" (4/ 67)

واللہ اعلم

ماخذ: الاسلام سوال و جواب