اتوار 21 جمادی ثانیہ 1446 - 22 دسمبر 2024
اردو

ملازمت پیشہ فرد کمپنی مالک کے سامنے تواضع اور انکساری اختیار کرے تو اس کا کیا حکم ہے؟

سوال

میں یونیورسٹی کا طالب علم ہوں، میں اپنی پڑھائی کے ساتھ کمائی کر کے اپنے اخراجات خود اٹھانا چاہتا ہوں، بلکہ اپنے گھر والوں کا سہارا بھی بننا چاہتا ہوں مجھے اس حوالے سے کسی قسم کی پریشانی کا سامنا نہیں ہے، بس صرف ایک بات ہے کہ دکان کے مالک سمیت لوگوں کے سامنے اور تواضع اور انکساری اختیار کرنے کے بارے میں میرے دل میں خدشات ہیں کہ کیا یہ غیر اللہ کے سامنے انکساری نہیں ہے؟ اور اس طرح کمائی گئی روزی بھی حرام ہو گی؟ اس انکساری اور تواضع کو لوگوں کے سامنے بالعموم جبکہ مالک دکان کے سامنے بالخصوص کس طرح ختم کیا جا سکتا ہے؟ اگر آپ مجھے اس حوالے سے کسی کتاب کا مشورہ دیں تو یہ بھی اچھا ہے؛ کیونکہ مجھے کتاب بینی کا شوق ہے۔

جواب کا متن

الحمد للہ.

تجارت یا صنعت کسی کو بھی اختیار کریں تو اس میں جواز ہے، ان دونوں میں سے کوئی بھی کام معصیت نہیں ہے، ہاں جس کام کے بارے میں حرمت کی دلیل ہے تو صرف وہی تجارت یا صنعت حرام ہے۔

شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ کہتے ہیں:
"قول و فعل سے تعلق رکھنے والے کاموں کی دو قسمیں ہیں: عبادات؛ ان کی بدولت دین مکمل ہوتا ہے۔ عادات؛ ان کی لوگوں کو اپنے دنیاوی امور میں ضرورت پیش آتی ہے۔

تمام اصولِ شریعت کا مطالعہ کرنے کے بعد یہ چیز سامنے آتی ہے کہ: ایسی عبادات جنہیں اللہ تعالی نے فرض قرار دیا ہے یا پسندیدہ کہا ہے ان کا ثبوت شرعی نص کے بغیر ممکن نہیں ہے ۔۔۔
جبکہ عادات کے بارے میں اصل جواز ہے، لہذا صرف وہی عادات ممنوع قرار پائیں گی جنہیں شریعت میں حرام قرار دیا گیا ہے، بصورتِ دیگر ہم اللہ تعالی کے اس فرمان کے مصداق ٹھہریں گے: قُلْ أَرَأَيْتُمْ مَا أَنْزَلَ اللَّهُ لَكُمْ مِنْ رِزْقٍ فَجَعَلْتُمْ مِنْهُ حَرَامًا وَحَلَالًا ترجمہ: کہہ دیجئے: تم بتلاؤ کہ جو اللہ تعالی نے تمہیں حلال نعمتیں عطا کی ہیں تم نے اس میں سے حرام اور حلال بنا دیے ہیں۔[یونس: 59]

اسی وجہ سے اللہ تعالی نے ایسے مشرکوں کی مذمت فرمائی ہے جنہوں نے شریعت میں ایسی چیزیں شامل کر دیں جن کی اللہ تعالی کی طرف سے اجازت نہیں تھی چنانچہ انہوں نے ایسی چیزوں کو حرام قرار دے دیا جو کہ اللہ تعالی نے حرام قرار نہیں دی تھیں ۔۔۔ یہ بہت ہی عظیم شرعی اصول اور ضابطہ ہے۔" ختم شد
"مجموع الفتاوى" (29 / 16 – 18)

آپ کو سوال میں مذکور جس انکساری کے بارے میں اشکال لاحق ہے ، یہ احساس لوگوں کے ساتھ بات چیت اور معاملات طے کرنے کے چار اجزا کے ساتھ تعلق رکھتا ہے:

پہلا جزو: انکساری

مسلمانوں کے ساتھ بات چیت کرتے ہوئے انکساری کا استعمال مجموعی طور پر شرعاً درست ہے، بلکہ شریعت نے اس کی ترغیب بھی دلائی ہے۔

چنانچہ اللہ تعالی کا فرمان ہے: يَاأَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا مَنْ يَرْتَدَّ مِنْكُمْ عَنْ دِينِهِ فَسَوْفَ يَأْتِي اللَّهُ بِقَوْمٍ يُحِبُّهُمْ وَيُحِبُّونَهُ أَذِلَّةٍ عَلَى الْمُؤْمِنِينَ أَعِزَّةٍ عَلَى الْكَافِرِينَ يُجَاهِدُونَ فِي سَبِيلِ اللَّهِ وَلَا يَخَافُونَ لَوْمَةَ لَائِمٍ ذَلِكَ فَضْلُ اللَّهِ يُؤْتِيهِ مَنْ يَشَاءُ وَاللَّهُ وَاسِعٌ عَلِيمٌ
 ترجمہ: اے ایمان والو! اگر تم میں سے کوئی اپنے دین سے پھر جائے تو عنقریب اللہ ایسے لوگ لے آئے گا جن سے اللہ محبت رکھتا ہو گا اور وہ اللہ سے محبت رکھتے ہوں گے، مومنوں کے حق میں انکساری والے اور کافروں کے حق میں سخت ہوں گے، اللہ کی راہ میں جہاد کریں گے اور کسی ملامت کرنے والے کی ملامت سے خوفزدہ نہ ہوں گے۔ یہ اللہ کا فضل ہے جسے چاہے دے دے۔ وہ بہت فراخی والا اور سب کچھ جاننے والا ہے۔ [المائدہ: 54]

یہاں انکساری اور تواضع سے مراد باہمی شفقت، معاملات میں آسانی پیدا کرنا، تکبر اور نخوت سے بچنا ہے، جیسے کہ اس کی وضاحت ایک دوسری آیت میں موجود ہے کہ:
مُحَمَّدٌ رَسُولُ اللَّهِ وَالَّذِينَ مَعَهُ أَشِدَّاءُ عَلَى الْكُفَّارِ رُحَمَاءُ بَيْنَهُمْ
 ترجمہ: محمد -صلی اللہ علیہ و سلم – اللہ کے رسول ہیں، وہ کافروں کے خلاف سخت جبکہ باہمی طور پر نہایت نرم ہیں۔ [الفتح: 29]

ایسے ہی سیدنا عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کی روایت میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا: (کیا میں تمہیں ایسے شخص کے بارے میں نہ بتلاؤں جو آگ پر حرام ہے، یا جس پر آگ حرام ہے؟ یہ وہ شخص ہے جو لوگوں کے قریب رہنے والا، آسانی کرنے والا، اور نرم اخلاق والا ہو۔) اس حدیث کو ترمذی رحمہ اللہ (2488)نے روایت کر کے حسن اور غریب قرار دیا ہے، جبکہ البانی رحمہ اللہ نے اسے تمام شواہد کی بنا پر "السلسلة الصحيحة" (2 / 611) میں صحیح قرار دیا ہے۔

دوسرا جزو: خوف

ملازم مالک سے اس لیے ڈرتا ہے کہ کہیں مالک اس کی چھٹی نہ کروا دے، یا اس کی تنخواہ سے کٹوتی نہ کر دے ، تو یہ ڈر اور خوف اللہ تعالی نے ہر انسان کے اندر فطری طور پر رکھا ہے، اس قسم کا ڈر نہ تو حرام ہے اور نہ ہی اللہ تعالی کی نافرمانی ہے، تاہم اس میں اللہ تعالی پر توکل کا اعلی معیار نہیں ہے۔

تیسرا جزو: حیا

لوگوں سے بات چیت کرتے ہوئے حیا کا دامن تھامے رکھنا بھی ایمان کا ایک حصہ ہے۔

چنانچہ عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم ایک انصاری شخص کے پاس سے گزرے جو اپنے بھائی کو حیا کرنے کے بارے میں نصیحت کر رہے تھے تو آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے اسے فرمایا: (اپنے بھائی کو کچھ نہ کہو؛ کیونکہ حیا ایمان کا حصہ ہے۔) اس حدیث کو امام بخاری: (24) اور مسلم : (36) نے روایت کیا ہے۔

علامہ نووی رحمہ اللہ اس حدیث کی شرح میں کہتے ہیں:
"کہ حدیث مبارکہ کے الفاط: " اپنے بھائی کو حیا کرنے کے بارے میں نصیحت کر رہے تھے" کا مطلب یہ ہے کہ انہیں حیا کرنے سے روک رہے تھے، بہت زیادہ حیا کرنے پر انہیں ڈانٹ پلا رہے تھے، تو نبی مکرم صلی اللہ علیہ و سلم نے ڈانٹ ڈپٹ سے روک دیا اور فرمایا: اسے چھوڑ دو؛ کیونکہ حیا ایمان کا حصہ ہے۔ یعنی اسے حیا کرنے دو، اسے حیا سے مت روکو۔" ختم شد
"شرح صحیح مسلم" (2 / 6)

چوتھا جزو: اطاعت

دکان یا ورکشاپ کے مالک کی معاہدہ شدہ باتوں کو ماننا لازمی ہے، اس کے بغیر تو کوئی چارہ نہیں ہے؛ کیونکہ اللہ تعالی نے معاہدوں کی تکمیل کے بارے میں فرمایا: يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا أَوْفُوا بِالْعُقُودِ ترجمہ: اے ایمان والو! معاہدے پورے کرو۔[المائدہ: 1]

جبکہ ایسی اطاعت جو کہ ملازمت کا تقاضا تو ہو لیکن ملازمت کے معاہدے میں نہ ہو تو اگر ایسی اطاعت سے ملازم کا کوئی نقصان نہ ہو اور مقدار بھی معمولی ہو تو ایسی بات ماننا اچھی بات ہے۔ جیسے کہ سیدنا جابر بن عبد اللہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا: (اللہ تعالی ایسے شخص پر رحم فرمائے جو فروختگی، خریداری اور قرض کی وصولی میں فراخ دلی سے کام لیتا ہے۔) بخاری: (2076)

حافظ ابن حجر رحمہ اللہ کہتے ہیں:
"اس حدیث میں معاملات طے کرتے ہوئے فراخ دلی دکھانے کی ترغیب دلائی گئی ہے کہ لالچ اور طمع ایک طرف رکھ کر اعلی اخلاق کا مظاہرہ کیا جائے۔" ختم شد
"فتح الباری" (4 / 307)

تو خلاصہ یہ ہے کہ:

جب کوئی مسلمان آجر ، یا عام لوگوں کے ساتھ لین دین کرتے ہوئے مذکورہ چاروں چیزیں اپناتا ہے تو اس میں کوئی غلطی نہیں ہے، بلکہ اسے اجر ملے گا۔

تاہم اس کی ایک شرط ہے کہ:
ان چیزوں کو اپنانے کا نتیجہ یہ نہیں ہونا چاہیے کہ حرام کاموں پر بھی خاموشی دھار لی جائے، یا حرام کاموں پر اعانت کی جائے، یا خود ہی حرام کاموں میں انسان ملوث ہو جائے، فرمانِ باری تعالی ہے: وَتَعَاوَنُوا عَلَى الْبِرِّ وَالتَّقْوَى وَلَا تَعَاوَنُوا عَلَى الْإِثْمِ وَالْعُدْوَانِ وَاتَّقُوا اللَّهَ إِنَّ اللَّهَ شَدِيدُ الْعِقَابِ ترجمہ: نیکی اور تقوی کے کاموں میں باہمی مدد کرو، گناہ اور جارحیت کے کاموں میں باہمی تعاون مت کرو، تقوی الہی اپناؤ یقیناً اللہ تعالی سخت سزا دینے والا ہے۔[المائدہ: 2]

اس سے معلوم ہوا کہ حرام کاموں پر تواضع، یا حیا، یا اطاعت نہیں کی جاتی۔

جیسے کہ سیدنا علی رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی مکرم صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا: (نافرمانی کے کام میں کوئی اطاعت نہیں ، اطاعت صرف نیکی کے کاموں میں ہوتی ہے۔) اس حدیث کو امام بخاری: (7257) اور مسلم : (1840) نے روایت کیا ہے۔ جبکہ اسی حدیث کو امام احمد نے مسند: (2 / 318) میں بہ ایں الفاظ روایت کیا ہے: (اللہ کی نافرمانی میں کسی بشر کی کوئی اطاعت نہیں ۔)

اسی طرح ملازمت پیشہ افراد کے لیے افسران بالا کا خوف کسی حرام کام کا ارتکاب کرنے کا عذر نہیں بن سکتا۔

بلکہ ملازمین کے لیے حسب استطاعت اور مصلحت کو مد نظر رکھتے ہوئے غلط کام پر تنقید کرنا لازم ہے، تا کہ یہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کے فرمان کی تعمیل بھی ہو، آپ صلی اللہ علیہ و سلم کا فرمان ہے: (جو تم میں سے کوئی برائی دیکھے تو اپنے ہاتھ سے روکے، چنانچہ اگر اس کی استطاعت نہ ہو تو اپنی زبان سے روکے، اور اگر اس کی بھی استطاعت نہ ہو تو اپنے دل میں اسے برا جانے، یہ ایمان کی کم ترین کیفیت ہے۔) مسلم: (49)

مومن شخص کی علامت ہے کہ وہ اپنے آپ کو خود کہیں ذلیل نہیں کرواتا، اس لیے مذکورہ چاروں چیزوں کو اپنانے کا مطلب یہ ہرگز نہیں ہے کہ وہ کسی کو اپنی اہانت کی اجازت دے۔

ابراہیم نخعی رحمہ اللہ کہتے ہیں: "سلف صالحین قطعا ناگوار سمجھتے تھے کہ کوئی ان کی اہانت کرے، جبکہ دوسری طرف بدلہ لینے کی طاقت ہوتی تو بدلہ لینے کی بجائے معاف کر دیا کرتے تھے۔" امام بخاری رحمہ اللہ نے اس قول کو اپنی صحیح بخاری میں معلق ذکر کیا ہے۔ دیکھیں: "فتح الباری" (5 / 99)

تو خلاصہ کلام یہ ہوا کہ:

جب تک آپ کی ملازمت شرعاً مباح عمل ہے، آپ کسی گناہ کے لیے معاونت کا باعث نہیں بنتے، نہ ہی گناہ تسلیم کر کے خاموشی اختیار کرتے ہیں، اور نہ ہی اس میں آپ کی ذات کی اہانت پائی جاتی ہے تو پھر آپ کی ملازمت میں کوئی حرج نہیں ہے۔ اور رہی یہ بات کہ آپ آجر کے سامنے محسوس کرتے ہیں کہ آپ حد سے زیادہ انکساری دکھا رہے ہیں تو یہ ممکن ہے کہ شیطانی وسوسہ ہو، اور آپ سے مفید ملازمت کو چھڑوانا چاہتا ہو۔ لہذا آپ اپنی ملازمت کو جاری رکھنے کے لیے اللہ تعالی سے مدد مانگیں، اور کوئی بھی جائز کام جسے آپ اپنے لیے مفید سمجھ رہے ہیں آپ اس پر مکمل توجہ دیں۔

سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا: (طاقت ور مومن اللہ تعالی کے ہاں کمزور مومن کی بہ نسبت محبوب بھی ہے اور بہتر بھی ہے، تاہم خیر سب اہل ایمان میں ہے۔ ہر مفید چیز کو اپنانے کی کوشش کرو، اللہ تعالی سے مدد مانگو اور کاہلی مت دکھاؤ۔) مسلم: (2664)

اور اگر آپ کو در پیش مسئلہ حد سے زیادہ شرمیلے پن سے متعلق ہے تو پھر ہم آپ کو الشیخ محمد اسماعیل المقدم کی کتاب: "فقیہ الحیاء" کا مطالعہ کرنے کا مشورہ دیں گے۔

واللہ اعلم

ماخذ: الاسلام سوال و جواب