اتوار 21 جمادی ثانیہ 1446 - 22 دسمبر 2024
اردو

نماز میں رفع الیدین کرنے کا طریقہ اور اگر نمازی اس میں کوئی غلطی کر لے تو اس پر کیا ہو گا؟

سوال

میں نے نماز کے دوران رکوع سے اٹھتے ہوئے اپنے دونوں ہاتھوں کو کندھوں یا کانوں تک بلند نہیں کیا، بلکہ نیچے ہی رکھا ، تاہم جیسے ہی مجھے احساس ہوا تو اپنے دونوں ہاتھوں کی کیفیت کو صحیح کر لیا، تو کیا میری نماز صحیح ہے یا نہیں؟

جواب کا متن

الحمد للہ.

اول:

سنت نبوی سے یہ بات ثابت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نماز کے دوران چار جگہوں پر رفع الیدین کیا کرتے تھے، اور وہ چار جگہیں یہ ہیں: تکبیر تحریمہ کے وقت، رکوع جاتے ہوئے، رکوع سے سر اٹھاتے ہوئے، اور دو رکعتوں کے بعد تشہد سے اٹھتے ہوئے۔

اس کی دلیل صحیح بخاری: (739) کی روایت ہے جو کہ نافع رحمہ اللہ سے مروی ہے کہ: جس وقت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہما نماز شروع کرتے تو تکبیر تحریمہ کہتے اور رفع الیدین کرتے، پھر جب رکوع کرتے تب رفع الیدین کرتے، اور جب "سَمِعَ اللهُ لِمَنْ حَمِدَهُ" کہتے تو تب بھی رفع الیدین کرتے، اور اسی طرح جب دو رکعتوں سے کھڑے ہوتے تو تب بھی رفع الیدین کرتے تھے۔ پھر ابن عمر رضی اللہ عنہما اپنے اس عمل کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم سے مرفوعا بیان کیا۔

شیخ ابن عثیمین رحمہ اللہ کہتے ہیں:
"رفع الیدین کی چار جگہیں ہیں: تکبیر تحریمہ کے وقت، رکوع میں جاتے ہوئے، رکوع سے اٹھتے ہوئے اور جب نمازی پہلے تشہد سے تیسری رکعت کے لئے کھڑا ہو۔" ختم شد
" الشرح الممتع " (3 /214)

جبکہ رفع الیدین کے طریقے کے بارے میں ایک روایت ہے کہ دونوں کندھوں تک رفع الیدین ہو گا، اور ایک دوسری روایت میں ہے کہ دونوں کانوں کی لو تک ہاتھ اٹھائیں گے۔

جیسے کہ سیدنا عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے مروی ہے وہ کہتے ہیں کہ : "میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کو دیکھا کہ جب آپ نماز کے لئے کھڑے ہوتے تو اپنے دونوں ہاتھوں کو اتنا بلند کرتے کہ وہ کندھوں کے برابر ہو جاتے، آپ یہی عمل اس وقت بھی کرتے جب رکوع کے لئے تکبیر کہتے، اور یہی عمل رکوع سے سر اٹھاتے ہوئے بھی کرتے، اور فرماتے:  سَمِعَ اللهُ لِمَنْ حَمِدَهُ تاہم یہ عمل سجدے میں نہیں کرتے تھے۔" اس حدیث کو امام بخاری: (736) اور مسلم: (390) نے روایت کیا ہے۔

اسی طرح سیدنا مالک بن حویرث رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ: "یقیناً رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم جب بھی تکبیر کہتے تو ہاتھوں کو اتنا بلند کرتے کہ ہاتھ دونوں کانوں کے برابر ہو جاتے، اور جب رکوع کرتے تو تب بھی اپنے دونوں ہاتھوں کو بلند کرتے کہ کانوں کے برابر ہو جاتے، اور جب رکوع سے سر اٹھاتے تو "سَمِعَ اللهُ لِمَنْ حَمِدَهُ" فرماتے ہوئے پھر یہی عمل دہراتے تھے۔" اس حدیث کو امام مسلم: (391) نے روایت کیا ہے۔

اس بنا پر رفع الیدین کے طریقے میں علمائے کرام کا اختلاف ہے:

تو جو اہل علم اس بات کے قائل ہیں کہ رفع الیدین دونوں کندھوں کے برابر ہو گا، ان کی مراد یہ ہے کہ دونوں ہاتھوں کی ہتھیلیاں کندھوں کے برابر ہوں، اس طریقے کے سیدنا عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ ، آپ کے صاحبزادے اور ابو ہریرہ رضی اللہ عنہم قائل ہیں۔ یہی موقف امام شافعی کا "الام" میں مذکور ہے، امام شافعی کے شاگرد بھی اسی کے قائل ہیں، اسی طرح امام مالک، احمد، اسحاق اور ابن المنذر بھی یہی موقف رکھتے ہیں، جیسے کہ " المجموع " (3/307) میں منقول ہے۔

جبکہ امام ابو حنیفہ اس چیز کے قائل ہیں کہ ہاتھوں کو کانوں کے برابر اٹھایا جائے گا۔

امام احمد سے ایک موقف یہ بھی منقول ہے کہ دونوں طریقوں میں سے جو چاہے اپنا لے، ان میں سے کوئی ایک طریقہ دوسرے سے اعلی نہیں ہے، یہ موقف ابن المنذر نے بعض محدثین سے کسی سے نقل کیا ہے اور اسے اچھا بھی جانا ہے۔

البانی رحمہ اللہ کہتے ہیں:
"یہی موقف حق ہے اور ہر طریقہ سنت ہے، اسی کی جانب ہمارے محقق علمائے کرام مائل ہیں، مثلاً: ملا علی القاری اور سندی حنفی وغیرہ"

مزید کے لئے دیکھیں: "أصل صفة صلاة النبي صلى الله عليه وسلم" از البانیؒ (1/ 202)

دوم:

اوپر ذکر کردہ جگہوں میں نماز کے دوران رفع الیدین کرنا نماز کی سنتوں میں شامل ہے۔

جیسے کہ الموسوعة الفقهية (27/95) میں ہے کہ:
"شافعی اور حنبلی فقہائے کرام کا اس بات پر اتفاق ہے کہ رکوع جاتے ہوئے اور رکوع سے اٹھتے ہوئے رفع الیدین کرنا نماز کی سنتوں میں شامل ہے، علامہ سیوطی ؒ کہتے ہیں کہ: رفع الیدین رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم سے 50 صحابہ کرام نے روایت کیا ہے۔" ختم شد

سنت چھوڑ دینے سے نماز کے صحیح ہونے پر اثر نہیں ہوتا، چنانچہ اگر کوئی شخص اپنی پوری نماز میں رفع الیدین نہیں کرتا تو اس سے اس کی نماز کے صحیح ہونے پر اثر نہیں ہو گا، تاہم اتنا ضرور ہے کہ نماز میں سنت کی ادائیگی نہ کرنے پر اس سنت کو ترک کرنے سے ثواب سے محرومی ملے گی۔

پھر رفع الیدین تو کریں لیکن ان کی ادائیگی میں تھوڑی سی کوتاہی ہو جائے جیسے کہ آپ سے ہوا ہے، تو اس کا معاملہ تو مکمل طور پر رفع الیدین ترک کرنے سے کہیں ہلکا ہے۔

اس بنا پر رفع الیدین کرنے میں آپ سے جو تھوڑی سی کوتاہی ہوئی اور پھر وہ غلطی آپ نے ٹھیک کر لی تو اس سے نماز کی صحت پر اثر نہیں ہوگا۔

اس لیے آپ کے لئے نصیحت یہی ہے کہ: آپ رفع الیدین کی کیفیت کے متعلق مبالغہ مت کریں اور تکلف سے کام مت لیں، چنانچہ جب آپ دیکھیں کہ آپ کے دونوں ہاتھ کندھوں کے بالکل برابر نہیں ہوئے تو دوبارہ رفع الیدین مت کریں؛ کیونکہ اس طرح کرنے سے آپ وسوسوں کا شکار ہو جائیں گی، اور نماز کے افعال بلا وجہ تکرار کے ساتھ کرنے لگیں گی، اور یہ بات رفع الیدین میں غلطی سے زیادہ گراں ہے۔

واللہ اعلم

ماخذ: الاسلام سوال و جواب