اتوار 21 جمادی ثانیہ 1446 - 22 دسمبر 2024
اردو

بچوں کو حفاظتی قطرے پلانے کے لئے مسجد میں اعلان کرنے کا حکم

سوال

ہمارے گاؤں میں گم شدہ چیزوں کا اعلان، بچوں کے حفاظتی ٹیکے اور قطرے پلانے کا اعلان اور اسی طرح دیگر چیزوں کے اعلانات مسجد کے لاؤڈ اسپیکر میں کیے جاتے ہیں، اسی طرح جمعہ کے دن منبر پر بھی ان کا اعلان ہوتا ہے، خطیب صاحب دوسرے خطبے میں لوگوں کو مسجد کی مرمت کے لئے چندہ دینے کی ترغیب دیتے ہیں، یا مسجد کے گلے میں ڈالنے کی ترغیب دیتے ہیں، تو اس طرح کے کاموں کا کیا حکم ہے؟

جواب کا متن

الحمد للہ.

اول:

مسجدوں میں گمشدہ چیزوں کا اعلان اور ان کے بارے میں معلومات دینا جائز نہیں ہے؛ کیونکہ مساجد اس کام کے لئے نہیں بنائی جاتیں، مساجد ذکر الہی کے لئے بنائیں جاتی ہیں، صحیح مسلم: (568) میں ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا: (جو شخص مسجد میں کسی کو گم شدہ چیز کا اعلان کرتے ہوئے سنے تو اسے کہے: اللہ کرے تمہاری گمشدہ چیز نہ ملے؛ کیونکہ مساجد کو اس کام کے لئے نہیں بنایا جاتا)

اسی طرح صحیح مسلم : (569) میں ہی بریدہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں: "ایک شخص نے مسجد میں گم شدہ چیز کا اعلان کرتے ہوئے کہا: کوئی ہے جو سرخ اونٹ کے بارے میں بتلائے؟ اس پر نبی صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا: (تمہیں [تمہارا اونٹ ] نہ ملے، مساجد تو اسی کام کے لئے ہوتی ہیں جس کیلئے بنائی جاتی ہیں۔)"

ابن عبد البر رحمہ اللہ کہتے ہیں:
"اللہ تعالی نے ذکر کیا ہے کہ مساجد ایسے گھر ہیں جنہیں اللہ نے عالی شان بنانے اور ان میں اللہ کا نام لینے اور صبح و شام اسی کی تسبیح بیان کرنے کا حکم دیا ہے، اور اسی کے لئے مساجد بنائی گئی ہیں، لہذا مساجد کو ہر ایسے کام سے محفوظ رکھنا چاہیے جس کے لئے انہیں نہیں بنایا گیا۔" ختم شد
"الاستذكار" (2/ 368)

دوم:

لوگوں کو مسجد کے لئے تعاون پر ابھارنا، یا غریبوں پر صدقے کے لئے ترغیب دینا شرعی اور مستحب عمل ہے، بلکہ یہ بھلائی کی دعوت اور نیکی کی یاد دہانی میں شامل ہے، اس لیے اگر یہ کام مسجد میں ہو تو اس میں کوئی حرج نہیں ہے، اسی طرح خطیب یا واعظ حضرات اس پر توجہ دلائیں تو اس میں بھی کوئی حرج نہیں ہے؛ کیونکہ یہ بھی خیر میں ہی شامل ہے اور لوگوں کو اس خیر میں شمولیت کی دعوت دی جا رہی ہے۔

رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے بھی اپنے منبر پر کھڑے ہو کر صدقہ کرنے کی ترغیب دلائی تھی ، جیسے کہ صحیح مسلم: (1017) میں ہے کہ منذر بن جریر رضی اللہ عنہ اپنے والد جریر سے روایت ہے کہ ہم دن کے آغاز میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر تھے کہ آپ کے پاس کچھ لوگ ننگے پاؤں، ننگے بدن پہ چیتے جیسی دھاری دار اونی چادریں یا چغے پہنے ہوئے اور تلواریں لٹکائے ہوئے آئے ان میں سے اکثر بلکہ سب کے سب مضر قبیلہ سے تعلق رکھتے تھے ان کی فاقہ کشی کو دیکھ کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا چہرہ بدل سا گیا، پہلے آپ اندر تشریف لے گئے پھر باہر نکلے اور بلال کو حکم دیا انہوں نے اذان اور اقامت کہی آپ نے نماز پڑھ کر خطاب کرتے ہوئے فرمایا:  يَا أَيُّهَا النَّاسُ اتَّقُوا رَبَّكُمُ الَّذِي خَلَقَكُمْ مِنْ نَفْسٍ وَاحِدَةٍ...

ترجمہ: اے لوگو! اپنے اس رب سے ڈرو جس نے تمھیں ایک جان سے پیدا کیا ۔۔۔[النساء: 1] پوری آیت إِنَّ اللهَ كَانَ عَلَيْكُمْ رَقِيبًا ترجمہ: بے شک اللہ تم پر نگہبان اور محافظ ہے۔ [النساء: 1] آخر تک پڑھی ۔ اور سورت حشر کی آیت  اتَّقُوا اللهَ وَلْتَنْظُرْ نَفْسٌ مَا قَدَّمَتْ لِغَدٍ وَاتَّقُوا اللهَ

ترجمہ: اللہ سے ڈرو اور ہر نفس غور و فکر کرے اس نے آنے والے کل کے لیے آگے کیا بھیجا ہے اور تقوی الہی اپناؤ۔[الحشر: 18] بھی پڑھی، پھر [فرمایا]ہر آدمی دینار، درہم، لباس، گندم کا صاع ،کھجور کا صاع صدقہ کرے حتی کہ آپ نے فرمایا خواہ کھجور کا ٹکڑا ہی صدقہ کرے) تو ایک انصاری ایک تھیلی لایا اس کا ہاتھ اس کو اٹھانے سے بےبس اور عاجز ہو رہا تھا بلکہ عاجز ہو ہی گیا تھا ۔ پھر لوگوں کا تانتا بندھ گیا حتی کہ میں نے اناج اور کپڑوں کی دو ڈھیریاں دیکھیں، یہاں تک کہ میں نے دیکھا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا چہرہ کھل کھلا اٹھا گویا کہ اس پر سونے کا پانی چڑھایا گیا ہو۔ اس پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: (جس نے اسلام میں اچھا طریقہ اپنایا تو اسے اس کا اجر ملے گا اور ان لوگوں کا اجر بھی جنہوں نے اسے دیکھ کر اس کے بعد اس پر عمل کیا۔ اس میں کسی کے اجرو ثواب میں کسی بھی قسم کی کمی نہیں ہو گی، اور جس نے اسلام میں غلط راہ عمل اختیار کی تو اس پر اس کا گناہ اور بوجھ ہوگا اور اس کے بعد (اس کے دیکھا دیکھی ) جو اس پر عمل کریں گے ان کا گناہ بھی ہو گا، اس میں کسی کے گناہ اور بوجھ میں کسی قسم کی کمی نہیں ہو گی )

سوم:

عوامی معاملات جس کا فائدہ مسلمانوں کو ہو اس کا اعلان یا تنبیہ مسجد میں کرنے پر کوئی حرج نہیں ہے، مثلاً: درس ، یا خطاب کا اعلان ہو، یا کسی علمی کورس کا اعلان ہو، چاہیے یہ مسجد سے باہر ہی کیوں نہ منعقد کیے جائیں تب بھی جائز ہے، اسی طرح بچوں کو حفاظتی ٹیکے لگانے اور ویکسین پلانے والے آئیں ان کا اعلان بھی کیا جا سکتا ہے؛ کیونکہ اس سے مسلمانوں کا عمومی فائدہ ہے، اور بچوں کو بیماریوں سے تحفظ بھی ملے گا۔ شرعی مقاصد میں سے یہ بھی ہیں کہ مسلمانوں کی جسمانی حفاظت بھی کی جائے، تو اگر مسجد میں اس کا اعلان نہ ہو تو ممکن ہے کہ کچھ لوگ قطرے پلانے سے رہ جائیں گے اور بچوں کو وہ بیماری -اللہ کے حکم سے-لگ سکتی ہے۔

تو منع یہ ہے کہ کوئی ذاتی نوعیت کا اعلان کرے، یا خرید و فروخت اور گم شدہ چیز جیسے خالص دنیاوی نوعیت کا اعلان کیا جائے۔

واللہ اعلم

ماخذ: الاسلام سوال و جواب