الحمد للہ.
اول:
پگڑی پر مسح کرنا جائز ہے، جیسے کہ صحیح بخاری: (205) میں عمرو بن امیہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ : "میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھا کہ آپ اپنی پگڑی اور موزوں پر مسح کر رہے تھے"
نیز امام احمد رحمہ اللہ عمامے پر مسح کرنے کے جواز کے قائل تھے۔
اس بارے میں مزید تفصیلات کے لیے آپ سوال نمبر: (129557) کا جواب ملاحظہ کریں۔
تاہم کسی بھی قسم کی ٹوپی [جسے آسانی سے اتارا اور پہنا جا سکتا ہے] پر مسح کرنا صحیح نہیں ہے، اس بارے میں تفصیلات جاننے کے لیے آپ سوال نمبر: (139719) کا جواب ملاحظہ کریں۔
دوم:
اگر آپ کے سر پر پٹی بندھی ہوئی ہو ، یا پلاسٹر لگا ہوا ہو تو پھر آپ اس پر مسح کر سکتے ہیں۔
یہ عمل عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے ثابت ہے۔
جیسے کہ امام بیہقی رحمہ اللہ کہتے ہیں:
"اس مسئلے میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے کچھ ثابت نہیں ہے۔۔۔ تاہم اس بارے میں تابعین کرام اور ان کے بعد والے فقہائے کرام کے اقوال منقول ہیں، ایسے ہی ابن عمر رضی اللہ عنہما سے ہمیں روایت پہنچی ہے۔ اس کے بعد انہوں نے ابن عمر رضی اللہ عنہما سے اپنی سند کے ساتھ اس چیز کو بیان کیا ہے کہ: سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما نے وضو کیا تو ان کی ہتھیلی پر پٹی بندھی ہوئی تھی، آپ نے ہتھیلی اور پٹی پر مسح کیا، اور دیگر تمام اعضا پانی سے دھوئے۔ امام بیہقی اس کے بعد کہتے ہیں کہ: یہ ابن عمر رضی اللہ عنہما سے صحیح ثابت ہے۔" ختم شد
"المجموع" (2/ 368)
سوم:
اگر آپ کا سر کھلا ہوا ہے پٹی نہیں بندھی ہوئی اور مسح کرنے سے آپ کو تکلیف ہو گی تو آپ اعضائے وضو کو دھوئیں گے اور سر کے مسح کے عوض تیمم کریں گے، اور جب تک آپ نے عمامہ نہیں باندھا ہوا، یا آپ کے سر پر پلاسٹر نہیں چڑھا ہوا کہ جس کے اتارنے سے آپ کو تکلیف ہو گی تو آپ کا اپنے سر پر کوئی چیز رکھ کر مسح کر لینا کافی نہ ہو گا۔
جیسے کہ "كشاف القناع" (1/ 165) میں ہے کہ:
"اگر مریض کا بعض حصہ زخمی ہے یا پھوڑا وغیرہ نکلا ہوا ہے کہ اگر اس عضو کو دھویا تو پانی لگنے یا مسح کرنے سے نقصان ہو گاتو زخمی حصے کو نہ دھونے کے عوض میں تیمم کر لے۔۔۔ اور اگر زخمی یا پھوڑے وغیرہ نکلے ہوئے حصے پر پانی سے مسح کرنا ممکن ہو تو مسح کرنا واجب ہے، اور یہ مسح اس کے لیے کافی ہو گا؛ کیونکہ اس عضو کو بنیادی پور پر دھونے کا حکم تھا [اور یہاں دھونا ممکن نہیں رہا] تو مسح دھونے کا ہی جز ہے، اس لیے اس پر مسح کرنا لازمی ہوگا، بالکل اسی طرح جیسے ایک شخص رکوع اور سجدے کی صلاحیت نہیں رکھتا تاہم اشارہ کر سکتا ہے [تو اس پر اشارہ کرنا واجب ہے۔]" ختم شد
شیخ ابن باز رحمہ اللہ کہتے ہیں:
"اگر وضو کے عضو پر پٹی بندھی ہوئی ہو تو اس پر مسح کر لے، اور اگر اس پر پٹی نہ ہو اور کھلا ہوا ہو تو مسح کے متبادل کے طور پر تیمم کر لے۔" ختم شد
شیخ ابن عثیمین رحمہ اللہ "الشرح الممتع" (1/169) میں کہتے ہیں:
"علمائے کرام کا کہنا ہے کہ اگر زخم یا پھوڑا وغیرہ دو طرح ہو سکتا ہے کہ کھلا ہو گا یا پھر اس پر پٹی بندھی ہوئی ہو گی۔
اگر تو وہ کھلا ہوا ہے تو اسے پانی سے دھونا واجب ہے، لیکن اگر اسے دھونا ممکن نہیں ہے تو پھر زخم یا پھوڑے کی صورت میں مسح کریں گے، اور اگر مسح کرنا بھی مشکل ہو تو پھر تیمم کریں، اس ترتیب کو اسی طرح ملحوظ خاطر رکھنا ہے۔
اور اگر زخم یا پھوڑے پر پٹی وغیرہ بندھی ہوئی ہے تو اس صورت میں صرف مسح ہو گا، لیکن اگر پھر بھی مسح کرنے سے تکلیف ہو گی تو پھر تیمم کر لے، اور اس کا حکم وہی ہو گا جو زخم یا پھوڑا کھلا ہونے کی صورت میں تھا، یہ فقہائے کرام نے تفصیلات بیان کی ہیں۔" ختم شد
چہارم:
جو شخص زخم وغیرہ کی وجہ سے تیمم کرے تو یہ تیمم وضو سے پہلے یا بعد میں بھی کسی بھی وقت کیا جا سکتا ہے، تاہم حنبلی فقہائے کرام نے طہارت صغری یعنی وضو کی صورت میں سر کے مسح کے وقت تیمم کرنا واجب قرار دیا ہے۔
شیخ ابن عثیمین رحمہ اللہ الشرح الممتع میں کہتے ہیں:
"مصنف کا یہ کہنا کہ: جو عضو زخمی ہو تو اس پر تیمم کر لے اور بقیہ اعضا کو دھو لے، یعنی جس شخص کے اعضائے وضو میں سے کوئی عضو زخمی ہو جائے اور وہ زخم پانی سے خراب ہونے کا خدشہ بھی ہو تو اس زخم کو دھونے کی بجائے اس کی طرف سے مکمل تیمم کر لے اور بقیہ اعضا کو دھو لے، نیزاس تیمم کے لیے پانی کی عدم دستیابی شرط نہیں ہے، اس لیے پانی کے ہوتے ہوئے بھی آپ تیمم کر سکتے ہیں۔
مصنف کے انداز گفتگو سے یہ محسوس ہوتا ہے کہ مصنف کے ہاں جب متاثرہ عضو کو دھونے کی باری آئے گی تو اسی وقت تیمم کرے گا؛ کیونکہ ترتیب کو ملحوظ خاطر رکھنا بھی وضو کے لیے شرط ہے۔
لیکن اگر غسل جنابت کے دوران زخم پر مسح کا مسئلہ در پیش ہو تو اس صورت میں غسل سے قبل تیمم کرنا جائز ہے، یا فوری بعد بھی کیا جا سکتا ہے یا کافی دیر بعد بھی تیمم ہو سکتا ہے۔
حنبلی فقہی مذہب یہی ہے؛ کیونکہ ان کے ہاں غسل کے لیے ترتیب اور تسلسل کے ساتھ اعضا کو دھونا شرط نہیں ہے۔۔۔
چنانچہ اگر زخم ہاتھ [کلائی وغیرہ]پر لگا ہوا ہے تو سب سے پہلے آپ اپنا چہرہ دھوئیں، اور پھر تیمم کریں، اور اپنے سر کا مسح کریں، اور اس کے بعد دونوں پاؤں دھو لیں۔
یہاں یہ بھی ضروری ہو گا کہ اپ اپنے ساتھ رومال یا تولیہ رکھیں، تا کہ آپ اپنے چہرے اور ہاتھ کو خشک کر سکیں، کیونکہ مٹی سے تیمم کے لیے شرط یہ ہے کہ گرد و غبار ہاتھ اور چہرے پر لگے، تو اگر آپ کے چہرے پر پانی ہو گا تو تیمم صحیح نہیں ہوگا۔
جبکہ بعض علمائے کرام یہ کہتے ہیں کہ : ترتیب اور تسلسل دونوں ہی شرط نہیں ہیں، جیسے کہ حدث اکبر یعنی غسل جنابت میں ہوتا ہے۔
اس بنا پر: وضو سے پہلے بھی تیمم جائز ہے اور بعد میں بھی ، تاہم قبل یا بعد دونوں صورتوں میں مدت کی تعیین نہیں ہے۔
اسی پر لوگ آج کل عمل پیرا ہیں اور یہی طریقہ صحیح بھی ہے، اسی موقف کو موفق، اور مجد سمیت ابن تیمیہ رحمہ اللہ نے بھی اپنایا ہے اور تصحیح الفروع کتاب میں اسی کو درست قرار دیا ہے۔" ختم شد
"الشرح الممتع" (1/ 383)
واللہ اعلم