اتوار 23 جمادی اولی 1446 - 24 نومبر 2024
اردو

گاڑی بیچنے کے لئے نہیں بلکہ صرف قیمت جاننے کے لئے مارکیٹ میں لگائی جانے والی بولی میں شامل کرنے کا حکم

سوال

ایک آدمی کوئی چیز مثلاً گاڑی خریدنا چاہتا ہے، تو وہ فروخت کنندہ کو کہتا ہے کہ پہلے اپنی گاڑی کی مارکیٹ ویلیو چیک کرنے کے لئے بولی میں شامل کرے گا، اور پھر مشتری بولی کی بلند ترین قیمت کے مطابق اس سے خرید لے گا، تو ایسی صورت میں گاڑی کو بولی میں شامل کرنے کا کیا حکم ہے؟ کیونکہ یہ شخص گاڑی بیچنا نہیں چاہتا بلکہ اس کی مارکیٹ ویلیو چیک کرنا چاہتا ہے، تو کیا خریدار کے لئے خرید و فروخت کے وقت ایسی شرط لگانا جائز ہے؟

جواب کا متن

الحمد للہ.

اول:

خرید و فروخت کے صحیح ہونے کے لئے خریداری کے وقت قیمت معلوم ہونا ضروری ہے، اور قیمت کا تعین فریقین باہمی رضا مندی سے جتنا چاہیں کر لیں۔

تاہم کبھی ایسا ہوتا ہے کہ مشتری کو قیمت کا علم نہیں ہوتا تو حقیقی قیمت جاننے کے لئے اسے اس طرح کا طریقہ اپنانا پڑتا ہے کہ فروخت کنندہ سے کہتا ہے کہ تم اس چیز کو بولی میں شامل کرو تا کہ اس کی زیادہ سے زیادہ قیمت معلوم ہو سکے۔

ہمیں لگتا ہے کہ یہ طریقہ شرعی نہیں ہے؛ کیونکہ اس میں مارکیٹ اور بولی لگانے والوں کو دھوکا دہی اور فراڈ کا خدشہ ہے؛ کیونکہ بولی لگانے والے تو یہ سمجھ رہے ہوتے ہیں کہ گاڑی کا مالک بیچنا چاہتا ہے، لیکن حقیقت میں وہ بیچنا نہیں چاہتا، اس طرح سے ان کی محنت بھی ضائع ہوتی ہے اور وقت بھی؛ کیونکہ انہیں اس چیز کا ریٹ متعین کرنے کے لئے چھان پھٹک کرنی پڑتی ہے، اور خریداری کی رغبت بھی ظاہر کرنی ہوتی ہے، پھر دوسروں سے بڑھ کر قیمت بھی لگانی ہوتی ہے، ان تمام چیزوں کے باوجود انہیں کچھ نہیں ملتا!

تو کسی کو دھوکا دینا یا فراڈ کرنا شریعت میں حرام ہیں؛ کیونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کا فرمان ہے: (مکاری اور دھوکا دہی جہنم میں لے جانے والے اعمال ہیں) اسے بیہقی نے شعب الایمان میں روایت کیا ہے، اور البانی نے اسے "صحیح الجامع" میں صحیح قرار دیا ہے، اسی طرح امام بخاری نے بھی اسے اپنی صحیح بخاری میں معلق روایت کے طور پر ان الفاظ میں بیان کیا ہے: (دھوکا دہی جہنم میں لے جانے والا عمل ہے، جو بھی کوئی ایسا کام کرتا ہے جس کے متعلق ہم نے حکم نہیں دیا تو وہ مردود ہے۔)

اسی طرح رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کا فرمان ہے: (جس نے ملاوٹ کی وہ ہم میں سے نہیں) اس حدیث کو امام مسلم (102)نے روایت کیا ہے۔

نیز یہ بھی بات مد نظر رہے کہ بولی میں شامل کرنے سے بھی بسا اوقات چیز کا حقیقی ریٹ معلوم نہیں ہوتا؛ کیونکہ یہ عام طور پر ہوتا ہے کہ بولی میں چیزوں کی قیمت کم ہی لگائی جاتی ہے، اس لیے مشتری اگر اسی ایک طریقے کی شرط لگاتا ہے تو یہ قرین انصاف نہیں ہے، اس میں ظلم کا پہلو ہے۔

صحیح طریقہ یہ ہے کہ آپ گاڑی کو ایک یا دو ماہر افراد کے سامنے پیش کریں تا کہ وہ اس کا ریٹ لگائیں، چاہے اس کے لئے آپ کو پیسے بھی دینے پڑیں تو کوئی حرج نہیں ۔

نیز ریٹ لگوانے کے پیسوں کے متعلق عرف یہ ہے کہ وہ بذمہ خریدار ہی ہوتے ہیں، تاہم فریقین باہمی رضا مندی سے اس کے برعکس بھی کر سکتے ہیں۔

اور یہ صورت جائز ہو سکتی ہے کہ خریدار بھی بولی لگانے والوں کے ساتھ شامل ہو جائے، تو اگر گاڑی کی قیمت اس کی سمجھ میں آئے تو بولی میں آخری ریٹ لگ جانے کے بعد اپنا ریٹ لگا کر خود خرید لے اور اگر دوسرا کوئی آپ سے زیادہ قیمت لگاتا ہے اور چیز کا مالک اس قیمت پر راضی بھی ہوتا ہے تو اسے خریدنے دے۔

دوم:

جب فریقین یہ طے کر لیں کہ بولی میں جو زیادہ سے زیادہ قیمت لگے گی وہی اس چیز کی حتمی قیمت ہو گی، یعنی قیمت معلوم ہونے سے قبل ہی بیع کو حتمی شکل دے دیں تو یہ ممانعت کی ایک اور شکل ہو گی۔

شیخ ابن عثیمین رحمہ اللہ کہتے ہیں:
"یہ کہنا کہ جو زیادہ سے زیادہ اس کی قیمت لگے ، یعنی مطلب یہ ہے کہ میں تمہیں یہ چیز اس قیمت پر فروخت کرتا ہوں جو بولی میں آخری ریٹ لگے گا، تو یہ بیع صحیح نہیں ہو گی؛ کیونکہ ہمیں نہیں معلوم کہ قیمت زیادہ مقرر ہوتی ہے یا تھوڑی؟ اس لیے کہ ایسا بھی ممکن ہے کہ کوئی ریٹ بڑھانے والا شخص بولی میں موجود ہو اور وہ خواہ مخواہ میں ریٹ بڑھائے تو قیمت حقیقت سے بہت بلند ہو جائے، اور یہ بھی ممکن ہے کہ بولی میں افراد کی تعداد کم ہو اور قیمت انتہائی معمولی لگے؛ اس لیے اس شرط پر چیز فروخت کرنا کہ جو زیادہ قیمت لگے گی وہی مبیع کی قیمت ہوگی؛ صحیح نہیں ہے۔

یہ بھی موقف ہے کہ: اس طرح سے خرید و فروخت جائز ہے؛ کیونکہ اس صورت میں انسان کو دلی اطمینان ہوتا ہے کہ بھاؤ لگوانے سے بہتر یہی ہے کیونکہ لوگوں نے خود ہی اس چیز کا یہ بھاؤ لگایا ہے، اس لیے اس چیز کی حقیقی قیمت بھی اتنی ہی بنتی تھی۔ لیکن میرے دل میں پھر بھی اس صورت کے متعلق خلش ہے۔

اس لیے زیادہ بہتر یہی لگتا ہے کہ یہ طریقہ کار صحیح نہیں ہے؛ اس کی وجہ یہ ہے کہ قیمت مجہول ہوتی ہے کہ زیادہ سے زیادہ کیا ریٹ لگے گا؟ اس لیے کہ اگر کوئی خریدنے کی نیت کے بغیر ریٹ بڑھانے والا بولی میں آ گیا تو قیمت بڑھ جائے گی، اور اگر خریدار کم ہوئے تو قیمت کم رہے گی، اس لیے قیمت مجہول ہی رہتی ہے، اس لیے مناسب یہی ہے کہ بولی میں لگنے والے ریٹ کو بنیاد بنا کر فروخت نہ کریں۔" ختم شد

" الشرح الممتع" (8/ 173)

واللہ اعلم

ماخذ: الاسلام سوال و جواب