الحمد للہ.
اللہ تعالی کا اپنے بندوں پر نازل کردہ نظام شریعت لوگوں کی تمام تر ضروریات کو پوری کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے، لوگوں کے عقائد، عبادات اور لین دین سب کے متعلق مکمل رہنمائی دیتا ہے؛ کیونکہ یہ آخری شریعت ہے جسے آخری نبی جناب محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کو دے کر سب لوگوں کی طرف بھیجا گیا ہے، آپ صلی اللہ علیہ و سلم کے بعد کوئی نبی نہیں آئے گا، نہ ہی آپ صلی اللہ علیہ و سلم کی شریعت کے بعد کوئی شریعت آئے گی، حتی کہ سیدنا عیسی علیہ السلام بھی جب آخری زمانے میں نازل ہوں گے تو وہ بھی آپ صلی اللہ علیہ و سلم کی شریعت کے مطابق فیصلے کریں گے۔
قرآن کریم اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کے فرامین پر غور و فکر اور فقہی کتابوں اور جدید فقہی مسائل پر لکھی جانے والی کتب کے مطالعہ کے بعد مذکورہ بالا مقدمہ قاری کے لیے یقینی طور پر واضح ہو جائے گا۔
کیونکہ احکام یا تو کتاب و سنت میں صراحت کے ساتھ مذکور ہوتے ہیں، انہی کو “احکام کی بنیادیں” کہتے ہیں، اور لوگوں کو پیش آمدہ مسائل کی اکثریت انہی سے تعلق رکھتی ہے۔
یا پھر کتاب و سنت میں مطلوبہ احکام کی صراحت نہیں ہوتی، تو ایسے میں فقیہ شخص کے لیے یہ ممکن ہوتا ہے کہ ان احکام کے متعلق دیگر شرعی دلائل کی روشنی میں معرفت حاصل کرے، مثلاً: آثار صحابہ، منصوص احکام پر قیاس کے ذریعے، یا استصحاب یا مصالح مرسلہ، یا سد ذرائع کے ذریعے حکم کشید کرے۔
اسی لیے اللہ تعالی کا فرمان ہے:
أَفَغَيْرَ اللَّهِ أَبْتَغِي حَكَمًا وَهُوَ الَّذِي أَنْزَلَ إِلَيْكُمُ الْكِتَابَ مُفَصَّلاً وَالَّذِينَ آتَيْنَاهُمُ الْكِتَابَ يَعْلَمُونَ أَنَّهُ مُنَزَّلٌ مِنْ رَبِّكَ بِالْحَقِّ فَلَا تَكُونَنَّ مِنَ الْمُمْتَرِينَ
ترجمہ: کیا میں اللہ کے سوا کسی اور منصف کو تلاش کروں۔ حالانکہ اسی نے پوری تفصیل کے ساتھ تمہاری طرف کتاب نازل کی ہے اور جن لوگوں کو ہم نے کتاب دی ہے وہ جانتے ہیں کہ یہ کتاب آپ کے پروردگار کی طرف سے حق کے ساتھ نازل ہوئی ہے۔ لہٰذا آپ شک کرنے والوں میں شامل نہ ہوں۔ [الانعام: 114]
فرمانِ باری تعالی ہے:
وَنَزَّلْنَا عَلَيْكَ الْكِتَابَ تِبْيَانًا لِكُلِّ شَيْءٍ
ترجمہ: اور ہم نے آپ پر کتاب نازل کی ہے جو کہ ہر چیز کو واضح کر کے بیان کرتی ہے۔ [النحل: 89]
اسی طرح حدیث مبارکہ ہے کہ: (کوئی بھی ایسا عمل جو تمہیں جنت کے قریب کر سکتا تھا میں نے اسے کرنے کا تمہیں حکم دے دیا ہے، اور کوئی بھی ایسا عمل جو تمہیں جہنم کے قریب کر سکتا تھا ؛ میں نے تمہیں اس سے منع کر دیا ہے۔ چنانچہ اب کوئی بھی اپنے رزق کو کبھی بھی وقت مقررہ سے لیٹ مت سمجھے؛ کیونکہ جبریل نے میرے دل میں یہ بات ڈالی ہے کہ: کوئی بھی اس دنیا سے اپنا لکھا ہوا رزق پورا کیے بغیر نہیں جا سکتا۔ اس لیے لوگو! اللہ سے ڈرو، اور تلاش معاش کے لیے بہترین طریقہ کار اپناؤ، اور اگر کسی کو اس کا رزق وقت مقررہ سے مؤخر لگ رہا ہو تو اللہ کی نافرمانی کے ذریعے اسے تلاش مت کرے؛ کیونکہ اللہ کا فضل اللہ کی نافرمانی سے حاصل نہیں ہو سکتا۔) اس حدیث کو ابن ابی شیبہ نے اپنی مصنف : (34332) میں، امام حاکم نے اپنی مستدرک : (2 / 5) میں روایت کیا ہے اور البانی نے اسے “صحيح الترغيب والترهيب” (1700) میں صحیح قرار دیا ہے۔
الشیخ ابن عثیمین رحمہ اللہ کہتے ہیں:
“شرعی احکامات دو حصوں میں تقسیم ہوتے ہیں:
ایک قسم وہ ہے جس کا حکم معین طور پر شریعت نے بیان کیا ہے، مثلاً: حُرِّمَتْ عَلَيْكُمُ الْمَيْتَةُ وَالدَّمُ وَلَحْمُ الْخِنْزِيرِ وَمَا أُهِلَّ لِغَيْرِ اللَّهِ بِهِ ترجمہ: تم پر مردار حرام قرار دیا گیا ہے، خون، خنزیر کا گوشت اور جسے غیر اللہ کے نام پر ذبح کیا گیا ہو۔۔۔۔[المائدۃ: 3] اس آیت میں دیگر احکامات بھی ہیں۔
اسی طرح [سورت النساء میں وہ خواتین جن سے نکاح نہیں ہو سکتا انہیں بیان کرنے کے بعد] فرمانِ باری تعالی ہے: { وَأُحِلَّ لَكُمْ مَا وَرَاءَ ذَلِكُمْ } ترجمہ: اور تمہارے لیے ان کے علاوہ عورتیں حلال ہیں۔[النساء: 24] یعنی ان کے علاوہ عورتوں سے تمہارے لیے نکاح کرنا حلال ہے۔ اسی طرح کی مثالیں اور بھی ہیں۔
دوسری قسم وہ ہے جس کا حکم معین طور پر موجود نہیں ہے، لیکن شریعت کے عمومی قواعد و ضوابط اور دلائل کے تحت اس کا حکم بیان کیا گیا ہوتا ہے، اس کی وجہ یہ ہے کہ اسلامی شریعت میں تمام تر چیزوں کے متعلق رہنمائی موجود ہے، لیکن ایسا نہیں ہے کہ ہر ہر چیز کا نام لے کر حکم بیان کیا جائے؛ کیونکہ اس کے لیے تو بہت بڑے بڑے رجسٹروں کی ضرورت پڑے گی جسے اونٹ بھی کیا گاڑیاں بھی نہیں اٹھا سکیں گی۔
ان عمومی قواعد و ضوابط کے بارے میں اللہ تعالی اپنے بندوں میں سے جس پر چاہتا ہے انعام فرماتا ہے اور وہ اتنی صلاحیت پا لیتے ہیں کہ جزوی مسائل کو عمومی قواعد و ضوابط کے ساتھ منسلک کر کے ان کا حکم جان سکیں، مثلاً: ایک عمومی قاعدہ ہے کہ ” لا ضرر ولا ضرار” یعنی: نہ اپنے آپ کو نقصان پہنچاؤ اور نہ ہی دوسروں کو نقصان دو۔ یہ اصل میں حدیث مبارکہ کے الفاظ ہیں اگرچہ اس کے صحیح یا ضعیف ہونے کے متعلق اہل علم کی گفتگو موجود ہے۔ تاہم پھر بھی شرعی قواعد و ضوابط میں اس کے معنوی شواہد ہیں۔ بہ ہر حال اس حدیث مبارکہ کی شکل میں عمومی قاعدے کے تحت ہزاروں مسائل آ سکتے ہیں جن میں بندے کا ذاتی نقصان ہے، اور ہزاروں مسائل ایسے آ سکتے ہیں جس میں دوسروں کا نقصان ہے۔ اب یہاں ان ہزاروں مسائل کا نام نہ بھی لیا جائے تو ان کا حکم واضح ہو گیا ہے۔
اسی طرح ایک مثال یہ بھی لیں کہ: سیدنا عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کے عہدِ خلافت میں دو آدمیوں کا آپس میں جھگڑا ہوا، ایک آدمی اراضی کے دو قطعوں کا مالک تھا، اور دوسرا آدمی ایک قطعہ ارضی کا مالک تھا، تو دو قطعوں کے مالک نے اپنی ایک زمین سے دوسری زمین تک پانی کے پہنچانے کے لیے درمیان والی زمین سے پانی گزارنا چاہا، تو زمین کے مالک نے اس کی اجازت نہیں دی، اس کا کہنا تھا کہ: تم میری زمین سے پانی نہیں گزار سکتے۔ معاملہ امیر المؤمنین سیدنا عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کے پاس پہنچا تو آپ رضی اللہ عنہ نے حکم دیا کہ اس کی زمین سے پانی زبردستی گزارا جائے گا، سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا: “مجھے پانی گزارنے کے لیے تمہارے پیٹ پر یا تمہاری کمر سے بھی گزارنا پڑا تو میں گزاروں گا۔”؛ اس کی وجہ یہ تھی کہ اپنی زمین سے پانی گزارنے کی اجازت نہ دینے والا صرف اس لیے انکار کر رہا تھا کہ فریق مقابل کو نقصان پہنچاؤں وگرنہ اس کی زمین سے پانی گزرے تو اس میں اسی کا فائدہ ہے کہ اس کی زمین کو بھی پانی لگے گا اور وہ بھی اس پانی سے کھیتی باڑی کر سکے گا، اس طرح فائدہ دونوں کا ہو گا۔” ختم شد
ماخوذ از: لقاء الباب المفتوح (122/ 18)
ہم نے جو آیات پہلے ذکر کی ہیں ان سے یہ سمجھا جا سکتا ہے کہ صرف قرآن کریم ہی لوگوں کی تمام تر ضروریات میں رہنمائی کے لیے کافی ہے، اہل علم اس کی دو طرح سے توجیہ پیش کرتے ہیں:
پہلی توجیہ: یہ کہ قرآن کریم میں حجیت حدیث، اجماع اور قیاس موجود ہے، لہذا جو مسئلہ بھی اب ان دلائل کی روشنی میں ثابت ہو گا ، اس کے بارے میں یہ کہنا درست ہو گا کہ قرآن کریم میں اس چیز کے متعلق رہنمائی موجو دہے۔
دوسری توجیہ: قرآن کریم بذاتِ خود اس مسئلے پر کسی نہ کسی طرح وضاحت دیتا ہے، چاہے بعض مسائل میں “براءت اصلیہ” کو ہی معتبر سمجھا جائے۔
یہاں چونکہ مقصد یہ نہیں ہے کہ یہ ثابت کیا جائے کہ قرآن کریم میں تمام تر احکامات بیان کیے گئے ہیں، بلکہ یہاں یہ بیان کرنا مقصود ہے کہ شریعت اپنے معتبر مصادر و ماخذ کے ذریعے تمام تر احکامات بیان کرتی ہے۔ لیکن پھر بھی ہم امام رازی رحمہ اللہ کی گفتگو ذکر کرتے ہیں جو انہوں نے دوسری توجیہ کے ضمن میں بیان کی ہے ، اور اس سے پہلے انہوں نے یہ بھی بیان کیا کہ پہلی توجیہ ہی جمہور علمائے کرام کا موقف ہے۔
چنانچہ امام رزای رحمہ اللہ کہتے ہیں:
“قائل کا یہ کہنا کہ: قرآن کریم میں تمام اصولی اور فروعی علوم ذکر نہیں ہوئے۔
تو اس کے جواب میں ہم کہتے ہیں:
علم الاصول [یعنی: عقائد] تو سارے کا سارا ہی قرآن کریم میں موجود ہے؛ کیونکہ عقائد کے دلائل قرآن کریم میں بہت ہی واضح ترین انداز میں بیان کیے گئے ہیں۔
جبکہ مذاہب کے جزوی اقوال اور تفصیلی موقف وغیرہ کے متعلق بات کرنے کی ضرورت نہیں ہے۔
جبکہ علم الفروع [یعنی: فقہی مسائل] کے بارے میں ہم کہتے ہیں کہ یہاں علمائے کرام کے دو اقوال ہیں:
پہلا قول: ان کا کہنا ہے کہ قرآن کریم نے اجماع، خبر واحد اور قیاس کے بارے میں یہ بتلایا ہے کہ یہ چیزیں شریعت میں حجت ہیں، لہذا جس مسئلے کی بھی دلیل ان تین میں سے کسی ایک سے ملے گی تو وہ مسئلہ حقیقت میں قرآن میں موجود قرار دیا جائے گا۔
علامہ واحدی رحمہ اللہ نے اس بات کی تین مثالیں ذکر کی ہیں:
پہلی مثال: سیدنا ابن مسعود رضی اللہ عنہ کے بارے میں بیان کیا جاتا ہے کہ وہ کہا کرتے تھے: میں اس پر لعنت کیوں نہ کروں جس پر اللہ تعالی نے قرآن کریم میں لعنت فرمائی ہے۔ آپ رضی اللہ عنہ کی مراد گودنے والی [جسم پر ٹیٹو بنانے والی] اور گدوانے والی، بالوں کی وگ لگانے والی اور لگوانے والی خواتین تھیں۔ بیان کیا جاتا ہے کہ ایک عورت نے پورا قرآن کریم پڑھنے کے بعد ابن مسعود رضی اللہ عنہ سے رجوع کیا اور آ کر کہنے لگی: ام عبد کے بیٹے! [سیدنا ابن مسعود رضی اللہ عنہ کی والدہ کا نام ام عبد تھا۔] میں نے کل دونوں گتوں کے درمیان پورا قرآن پڑھا ہے، لیکن مجھے کہیں یہ نہیں ملا کہ اس میں گودنے والی اور گدوانے والی پر لعنت کی گئی ہو!؟ تو ابن مسعود رضی اللہ عنہ نے کہا: اگر تم غور سے پڑھتیں تو تمہیں مل جاتا کہ اللہ تعالی نے فرمایا: وَمَا آتَاكُمُ الرَّسُولُ فَخُذُوهُ ترجمہ: اور رسول تمہیں جو کچھ بھی دے وہ لے لو۔[الحشر: 7] اب ہمیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے جو کچھ دیا اس میں یہ بھی ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا: (اللہ تعالی نے گودنے والی اور گدوانے والی خاتون پر لعنت فرمائی ہے۔)
میں [علامہ رازی] سمجھتا ہوں کہ: یہ بات قرآن کریم میں اس سے بھی واضح ترین انداز میں مل سکتی تھی، وہ اس طرح کہ اللہ تعالی نے سورت النساء میں فرمایا: وَإِنْ يَدْعُونَ إِلَّا شَيْطَانًا مَرِيدًا (117) لَعَنَهُ اللَّهُ… ترجمہ: اور وہ سرکش شیطان کے سوا کسی کو نہیں پکارتے ۔ [117] اس پر اللہ تعالی کی لعنت ہے۔۔۔ [النساء: 117 – 118] تو یہاں اللہ تعالی نے شیطان پر لعنت کا حکم لگایا، اور پھر اس کے بعد شیطان کے متعدد قبیح افعال گنوائے، اور ان مذموم افعال میں سے ایک یہ بھی ذکر کیا کہ: وَلَآمُرَنَّهُمْ فَلَيُغَيِّرُنَّ خَلْقَ اللَّهِ ترجمہ: اور میں انہیں ضرور حکم دوں گا تو وہ لازماً اللہ کی تخلیق کو بدلیں گے۔ [النساء: 119] تو ان آیات سے یہ معنی ظاہر ہوتا ہے کہ اللہ تعالی کی تخلیق میں تبدیلی کرنا لعنت کا موجب ہے۔
دوسری مثال: کہا جاتا ہے کہ امام شافعی رحمہ اللہ مسجد الحرام میں تشریف فرما تھے، تو انہوں نے سب سے کہا: تم مجھ سے کوئی بھی سوال کرو گے تو میں تمہیں اس کا جواب قرآن کریم سے دوں گا، تو ایک شخص نے سوال پوچھا: آپ ایسے احرام والے شخص کے بارے میں کیا کہتے ہیں جس نے بھڑ کو مارا ہو؟
اس پر امام شافعی رحمہ اللہ نے کہا: اس پر کچھ نہیں ہے۔
سائل نے پوچھا یہ قرآن کریم میں کہاں ہے؟
تو امام شافعی رحمہ اللہ نے اللہ تعالی کے اس فرمان کی تلاوت کی: وَمَا آتَاكُمُ الرَّسُولُ فَخُذُوهُ ترجمہ: اور رسول تمہیں جو کچھ بھی دے وہ لے لو۔[الحشر: 7] پھر اس کے بعد نبی مکرم صلی اللہ علیہ و سلم تک سند ذکر کی اور کہا کہ : رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا: (تم میری سنت اور میرے بعد خلفائے راشدین کی سنت کے راہی بنو)اس کے بعد انہوں نے پھر سیدنا عمر رضی اللہ عنہ تک سند پڑھی اور کہا کہ: یہی جواب انہوں نے ایسے محرم شخص کو دیا تھا جس نے بھڑ ماری تھی۔
علامہ واحدی کہتے ہیں: امام شافعی رحمہ اللہ نے قرآن کریم سے استنباط تیسرے درجے میں جا کر کیا۔
میں [علامہ رازی] سمجھتا ہوں کہ: یہاں اس حکم تک پہنچنے کے لیے ایک اور مختصر راستہ بھی ہے، وہ یہ ہے کہ مسلمانوں کی دولت کے بارے میں اصل حکم عصمت کا ہے، اس کی دلیل قرآن کریم میں ہے کہ فرمانِ باری تعالی ہے: لَهَا مَا كَسَبَتْ وَعَلَيْهَا مَا اكْتَسَبَتْ ترجمہ: جو فائدہ کمایا اسی کی ملکیت ہے اور جو نقصان اٹھایا وہ بھی اسی پر ہے۔[البقرۃ: 286] دوسری جگہ فرمایا: وَلَا يَسْأَلْكُمْ أَمْوَالَكُمْ ترجمہ: اور اللہ تم سے تمہارے اموال نہیں مانگتا۔[محمد: 36] تیسری جگہ فرمایا: يَاأَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا لَا تَأْكُلُوا أَمْوَالَكُمْ بَيْنَكُمْ بِالْبَاطِلِ إِلَّا أَنْ تَكُونَ تِجَارَةً عَنْ تَرَاضٍ مِنْكُمْ ترجمہ: اے ایمان والو! تم اپنے اموال کو آپس میں باطل طریقے سے مت کھاؤ، الا کہ تمہاری آپس میں رضامندی کے ساتھ تجارت ہو۔[النساء: 29] تو اللہ تعالی نے لوگوں کے مال کو صرف تجارت کی صورت میں کھانے کی اجازت دی ہے، تو جہاں تجارت نہیں ہو گی وہاں لوگوں کا مال کھانا اپنی اصلی حالت پر باقی رہے گا جو کہ حرمت ہے۔ اب ان عمومی قواعد کا تقاضا یہ ہے کہ بھڑ مارنے والے محرم پر کچھ بھی واجب نہ ہو۔ ان عمومی قواعد کو دلیل بنانے سے پہلے درجے میں ہی حکم سامنے آ جائے گا۔۔۔
تیسری مثال: علامہ واحدی کہتے ہیں: زانی مزدور والی حدیث میں بیان کیا گیا ہے کہ اس مزدور کے والد نے نبی مکرم صلی اللہ علیہ و سلم سے کہا تھا: ہمارے درمیان قرآن کریم کی روشنی میں فیصلہ کریں۔
تو آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا تھا کہ: (اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے، میں تم دونوں کے درمیان قرآن کریم کے ذریعے ہی فیصلہ کروں گا۔) تو پھر آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے زانی مزدور کے بارے میں ڈنڈے مارنے اور جلاوطنی کا فیصلہ کیا ، جبکہ عورت کو رجم کرنے کا حکم دیا بشرطیکہ وہ زنا کا اعتراف کر لے۔
علامہ واحدی کہتے ہیں: اب قرآن کریم میں کہیں بھی ڈنڈے مارنے اور جلا وطنی کا حکم صراحت کے ساتھ نہیں ہے، تو اس سے معلوم ہوتا ہے کہ نبی مکرم صلی اللہ علیہ و سلم کا جو بھی فیصلہ ہے وہ عین کتاب اللہ ہی ہے۔
میں [علامہ رازی] کہتا ہوں کہ: یہ مثال بالکل حق اور سچ ہے؛ کیونکہ اللہ تعالی نے اپنے نبی صلی اللہ علیہ و سلم کو مخاطب کر کے فرمایا: وَأَنْزَلْنَا إِلَيْكَ الذِّكْرَ لِتُبَيِّنَ لِلنَّاسِ مَا نُزِّلَ إِلَيْهِمْ ترجمہ: اور ہم نے آپ پر ذکر نازل کیا تا کہ آپ لوگوں کی طرف نازل کیے گئے احکامات کو واضح کریں ۔[النحل: 44] چنانچہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے جو کچھ بھی بیان کیا ہے وہ سب کچھ اس آیت کے تحت آتا ہے۔
تو مذکورہ بالا امثلہ سے یہ بات واضح ہوئی کہ قرآن کریم میں جب یہ بات موجود ہے کہ اجماع حجت ہے، خبر واحد حجت ہے، اور قیاس بھی حجت ہے تو جو حکم بھی اب ان تین دلیلوں میں سے کسی ایک کے ذریعے ثابت ہو گا ؛ در حقیقت وہ حکم قرآن سے ثابت ہو رہا ہے، تو اس مقام پر آ کر اللہ تعالی کا یہ فرمان بالکل صحیح ہو گا کہ: مَا فَرَّطْنَا فِي الْكِتَابِ مِنْ شَيْءٍ ترجمہ: ہم نے کتاب میں کسی قسم کی کوئی کمی نہیں چھوڑی۔[الانعام: 38]
یہ پہلے موقف کا دلائل کے ساتھ اثبات ہے، اور جمہور علمائے کرام نے اسی موقف کی تائید کی ہے۔۔۔
دوسرا موقف: اس آیت کی تفسیر میں ان لوگوں کا ہے جو کہتے ہیں کہ: قرآن کریم بذات خود تمام احکامات بیان کرنے کے لیے کافی ہے۔
اس کا اثبات کچھ یوں ہے کہ: اصل یہ ہے کہ انسان کسی قسم کے حکم کا مکلف نہیں ہے، اور اگر انسان کو مکلف بنانا ہو تو اس کی الگ سے دلیل چاہیے۔ اور ایسا ممکن نہیں ہو سکتا کہ جن چیزوں کا انسان مکلف نہیں ہے ان کی صراحت کی جائے؛ کیونکہ انسان جن چیزوں کا مکلف نہیں ہے ان کی تعداد لا محدود ہے، اور جو چیز لا محدود ہو اس کے بارے میں صراحت کرنا ناممکن ہو تا ہے، اس لیے صراحت اسی چیز کے متعلق ہو گی جس کی کوئی حد ہو۔
مثلاً: اللہ تعالی نے اپنے بندوں کو ایک ہزار چیزوں کا مکلف بنایا اور پھر انہیں قرآن میں ذکر بھی کر دیا، پھر آپ صلی اللہ علیہ و سلم کو حکم بھی دیا کہ ان ہزار چیزوں کو لوگوں تک پہنچا دیں، پھر اس کے بعد اللہ تعالی نے فرمایا: مَا فَرَّطْنَا فِي الْكِتَابِ مِنْ شَيْءٍ ترجمہ: ہم نے کتاب میں کسی قسم کی کوئی کمی نہیں چھوڑی۔[الانعام: 38]؛ تو اس آیت کا معنی یہ ہوا کہ ایک ہزار احکامات کے بعد اللہ تعالی کا اپنی مخلوق کے لیے کوئی شرعی حکم نہیں ہے۔ پھر اس کی تاکید اس آیت سے کر دی کہ: اَلْيَوْمَ أَكْمَلْتُ لَكُمْ دِينَكُمْ ترجمہ: آج میں نے تمہارے لیے تمہارا دین مکمل کر دیا۔[المائدہ: 3] اور یہی بات یہاں بھی فرمائی کہ: وَلَا رَطْبٍ وَلَا يَابِسٍ إِلَّا فِي كِتَابٍ مُبِينٍ ترجمہ: کوئی بھی رطب و یابس چیزی ایسی نہیں ہے جو کتاب مبین میں نہ ہو۔ [الانعام: 59] اس طرح قرآن کریم میں ہر چیز کا حکم ذاتی طور پر موجود ہے، اس حوالے سے مکمل تفصیلات اصول فقہ سے تعلق رکھتی ہے۔” ختم شد
ماخوذ از: “تفسیرِ رازی”(12/ 527، 528)
نوٹ:
فرمانِ باری تعالی: مَا فَرَّطْنَا فِي الْكِتَابِ مِنْ شَيْءٍ ترجمہ: ہم نے کتاب میں کسی قسم کی کوئی کمی نہیں چھوڑی۔[الانعام: 38] میں کتاب سے مراد صحیح موقف کے مطابق لوح محفوظ ہے، جہاں پر اللہ تعالی نے ساری مخلوقات کی تقدیریں لکھی ہوئی ہیں، اس آیت کی تفسیر میں سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما سے یہی منقول ہے۔
تاہم جو معنی اس آیت لیا جا رہا ہے وہی معنی ایک دوسری آیت میں موجود ہے، لہذا اس آیت سے مطلوبہ معنی کشید کرنے کی ضرورت نہیں رہتی، اور وہ ہے وَنَزَّلْنَا عَلَيْكَ الْكِتَابَ تِبْيَانًا لِكُلِّ شَيْءٍ ترجمہ: اور ہم نے ہر چیز کی وضاحت کے لیے آپ پر کتاب نازل کی۔[النحل: 89]
مزید کے لیے آپ درج ذیل کتب تفاسیر کا مطالعہ کریں: “تفسير ابن جرير “(9/234) ، “تفسير ابن كثير” (3/253) ، “السعدي” (ص 255)
دوم:
اگر کوئی ایسا جدید مسئلہ در پیش ہو جائے کہ جس کے متعلق کتاب اللہ میں کوئی صراحت نہیں ہے، یا پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کی احادیث میں صراحت نہیں ہے ، مثلاً: شعبہ طب اور معاشیات وغیرہ سے تعلق رکھنے والے جدید مسائل جیسے کہ مصنوعی بار آوری، جینیاتی انجینئرنگ، اور ڈیجیٹل کرنسی کا لین دین کرنا وغیرہ ؛ تو اہل علم ان کا حکم بیان کرنے کے لیے قیاس اور استنباط کے ذریعے اجتہاد کرتے ہیں ، ایسے ہی قواعد عامہ کو بروئے کار لاتے ہوئے مقاصد شریعت کا خیال رکھتے ہیں اور متعلقہ مسئلے کا حکم متعین کرتے ہیں۔
اور یہ واضح رہے کہ کوئی بھی معاملہ کسی بھی حد تک نیا ہو، اہل علم اس کے شرعی حکم تک رسائی پا لیتے ہیں، کیونکہ بنیادی طور پر کوئی بھی چیز جائز یا ناجائز ہوتی ہے، اور کوئی چیز ناجائز اس وقت ہو گی جب کوئی ایسی دلیل نہ ملے جو اسے ممانعت سے نکال کر جواز میں لے جائے۔ اس لیے ایسا کوئی مسئلہ ہے ہی نہیں جس کا حکم ہمیں اسلامی شریعت کی روشنی میں نہ مل سکے۔
مزید کے لیے آپ علامہ شنقیطی رحمہ اللہ کی “تفسير أضواء البيان” میں سے إِنَّ هَذَا الْقُرْآنَ يَهْدِي لِلَّتِي هِيَ أَقْوَمُ [الاسراء: 9] کی تفسیر کا مطالعہ کریں۔
حاصل کلام یہ ہے کہ:
شریعت اسلامیہ لوگوں کو زندگی تمام گوشوں میں پیش آمدہ تمام مسائل کا حل پیش کرتی ہے؛ کیونکہ یہ شریعت آخری شریعت ہے، اور جس دین سے اس شریعت کا تعلق ہے وہ بھی کامل اور مکمل دین ہے، جیسے کہ اللہ تعالی کا فرمان ہے: الْيَوْمَ أَكْمَلْتُ لَكُمْ دِينَكُمْ وَأَتْمَمْتُ عَلَيْكُمْ نِعْمَتِي وَرَضِيتُ لَكُمُ الْإِسْلَامَ دِينًا ترجمہ: آج میں نے تمہارے لیے تمہارا دین مکمل کر دیا ، اور تم پر اپنی نعمت مکمل کر دی ، اور تمہارے لیے اسلام کو بطور دین پسند کر لیا۔ [المائدۃ: 3]
واللہ اعلم