سوموار 22 جمادی ثانیہ 1446 - 23 دسمبر 2024
اردو

سگریٹ نوشی سے توبہ کرنے سے قبل ادھار خریدی ہوئی سگریٹ کی رقم واپس کرنا لازم ہے؟

سوال

میں جس وقت سگریٹ نوشی کیا کرتا تھا تو میں ایک دکاندار سے ادھار سگریٹ لیتا تھا، میرا ادھار اتنا بڑھ گیا کہ اس نے مجھے سگریٹ دینا بند کر دی، اس وقت میرے پاس پیسے بھی نہیں تھے، وقت گزر گیا اور وہ دکاندار فوت ہو گیا، اور اس کی دکان پر اس کا بیٹا بیٹھنے لگا، تو الحمدللہ، اب میں توبہ کر چکا ہوں ، تو مجھے کیا کرنا چاہیے؟

جواب کا متن

الحمد للہ.

اول:

علمائے کرام کے ہاں یہ عام اصول اور ضابطہ ہے کہ حرام چیزوں کا معاوضہ دینا جائز نہیں ہے، چنانچہ اگر کوئی شخص کوئی حرام سودا خریدے تو اس کے لیے نہ تو حرام چیز اپنے قبضے میں لینا جائز ہے نہ ہی اس کی قیمت ادا کرنا جائز ہے۔

چنانچہ اگر کوئی دکاندار حرام چیز کی قیمت وصول کر لے تو اس پر لازم ہے کہ خریدار کو قیمت واپس کر دے الا کہ مبیع ختم ہو چکی ہو یا اس کو استعمال میں لایا جا چکا ہو، تو ایسی صورت میں دکاندار قیمت کو صدقہ کر دے گا۔

اور اگر خریدار نے حرام چیز قبضے میں لے لی ہے تو اس پر حرام چیز کو تلف کرنا ضروری ہے؛ کیونکہ وہ چیز حرام ہے اور شرعی طور پر اس میں کسی قسم کا فائدہ نہیں ہے، اس لیے وہ چیز دکاندار کو واپس نہیں کرے گا۔

یہ تو ہے عمومی قاعدہ اور ضابطہ ، اس ضابطے کو واضح حرام چیزوں پر لاگو کیا جائے گا جیسے کہ شراب، خنزیر اور مردار وغیرہ

"ابن حبیب رحمہ اللہ کہتے ہیں: اگر کوئی مسلمان کسی مسلمان سے شراب خریدے ، اور یہ شراب دکاندار یا خریدار کسی کے بھی ہاتھ میں ہو تو اس شراب کو دکاندار کے کھاتے میں ڈال کر ضائع کر دیا جائے گا، اور اگر دکاندار نے قیمت وصول کر لی ہو تو خریدار کو رقم واپس کرے گا، اور اگر شراب خود ہی ضائع ہو گئی تو اب بیع فسخ نہیں ہو سکے گی، تاہم قیمت کو صدقہ کر دے گا چاہے دکاندار نے قیمت وصول کر لی ہو یا نہ کی ہو، اور دونوں کو اس تجارت پر سزا بھی دی جائے گی۔" ختم شد
"النوادر والزيادات على ما في المدونة من غيرها من الأمهات" (6/179)

اسی طرح شیخ ابن عثیمین رحمہ اللہ سے ایک شخص کے بارے میں پوچھا گیا کہ: ایک شخص نے شراب خریدی اور قیمت ادا نہیں کی اور پھر اس نے توبہ کر لی تو اب وہ کیا کرے؟
انہوں نے کہا کہ:
"وہ قیمت اس سے وصول کر کے بیت المال میں جمع کروا دی جائے گی۔" ختم شد
"الكنز الثمين" (صفحہ: 118)

دوم:
جبکہ سوال میں مذکور حالت اور کیفیت میں بہتر یہ محسوس ہوتا ہے کہ ادھار خریدی گئی سگریٹ کی قیمت واپس کی جائے گی اس کی کئی وجوہات ہیں، جو کہ درج ذیل ہیں:

1- سگریٹ نوشی کے بارے میں اگرچہ فتوی یہی ہے کہ سگریٹ نوشی حرام ہے، تاہم اس بارے میں اہل علم کے مابین اختلاف مشہور ہے کہ کچھ اہل علم حرمت کے قائل ہیں تو کچھ کراہت کے قائل ہیں، اور عوام الناس کے دلوں میں سگریٹ نوشی کی حرمت اس طرح سے نہیں ہے جیسے شراب اور دیگر نشہ آور اشیا کی ہے، اس لیے لوگ بھی سگریٹ کی تجارت، لین دین اور سگریٹ نوشی کے بارے میں سستی کا شکار ہیں، اور اس سستی کی متعدد وجوہات ہیں یا تو اسے جائز کہنے والوں کی تقلید کرتے ہیں، یا انہیں سگریٹ نوشی کے بارے میں شبہات لاحق ہیں، یا پھر انہیں سگریٹ کی حرمت کے لیے سبب بننے والے نقصان کے بارے میں قلبی اطمینان نہیں ہے۔

جیسے کہ شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ کہتے ہیں:
"اگر کوئی شخص کسی ایسے طریقہ تجارت کے ذریعے مال کماتا ہے جس کے بارے میں امت کا اختلاف پایا جاتا ہے ، اور اس طریقے سے تجارت کرنے والا یا تو تاویل کر رہا ہو ، یا ذاتی اجتہاد کی وجہ سے جواز کا قائل ہو، یا اس معاملے میں کسی کی تقلید کر رہا ہو، یا بعض اہل علم کی رِیت کر رہا ہو، یا اس لیے کہ کچھ اہل علم نے اسے جواز کا فتوی دیا ہو، یا اسی طرح کا کوئی اور سبب بھی ہو سکتا ہے تو ایسے طریقے سے کمایا اور حاصل کیا گیا مال اپنی دولت سے باہر نکالنا ضروری نہیں ہے، چاہے انہیں بعد میں معلوم ہو کہ وہ جواز کے جس موقف پر عمل پیرا تھے وہ غلط تھا، اور جس نے جواز کا فتوی دیا تھا وہ بھی غلط تھا ۔۔۔
کیونکہ تاویل کرنے والا مسلمان جو اپنے تجارتی، کرایہ داری، یا لین دن کے عمل کو جائز سمجھ رہا ہے ، اور بعض علمائے کرام اس کے جواز کا فتوی بھی دیتے ہیں : اگر وہ ان تجارتی طریقوں کی بدولت کچھ کما لیتا ہے اور بعد میں معلوم ہوتا ہے کہ ان کے طریقہ تجارت کے متعلق صحیح موقف حرمت کا ہے تو جو کچھ انہوں نے تاویل کی صورت میں کمایا وہ ان کے لیے حرام نہیں ہو گا۔"
"مجموع الفتاوى" (29/443)

2- قیمت کی عدم ادائیگی دکاندار کے لیے کسی طور بھی قابل قبول نہیں ہو گی، اور اس کی وجہ سے تائب شخص کے بارے میں منفی تاثر جائے گا کہ توبہ کے آغاز میں ہی یہ شخص دوسروں کا مال ہڑپ کرنے لگ گیا ہے۔

3- یہ بھی گمان کیا جا سکتا ہے کہ توبہ سگریٹ کی قیمت ادا کرنے سے راہ فرار ہے۔

4- علمائے کرام حرام چیز کی قیمت کی ادائیگی کو جائز نہیں سمجھے اور اسی طرح یہ بھی جائز نہیں سمجھتے کہ اس حرام چیز کی قیمت اپنے پاس رکھے، کہیں یہ نہ ہو کہ حرام چیز، اور اس کی قیمت دونوں ہی اس کے پاس جمع نہ ہو جائیں، اس لیے اہل علم اس حرام چیز کی قیمت کو صدقہ کرنے کا کہتے ہیں۔

چنانچہ شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ کہتے ہیں:
"اگر کوئی شخص کسی حرام چیز کا معاوضہ لے یا حرام خدمت کی اجرت لے ، مثلاً: شراب اٹھا کر لے جانے کی اجرت، یا صلیب بنانے کی اجرت، یا زانیہ کی اجرت وغیرہ تو اس رقم کو صدقہ کر دے، اور اس حرام کام سے توبہ کرے، اس شخص کا معاوضے میں ملنے والی رقم کو صدقہ کرنا اس کے گناہ کا کفارہ بن جائے گا؛ صدقہ کرنا اس لیے ضروری ہے کہ اس سے فائدہ اٹھانا جائز نہیں ہے؛ کیونکہ یہ حرام معاوضہ ہے، پھر یہ اجرت اصل مالک کو بھی واپس نہیں کی جائے گی کہ اس نے خدمت کے عوض میں یہ رقم دی ہے ؛ کیونکہ وہ خدمت سے مکمل فائدہ اٹھا چکا ہے، لہذا اس اجرت کو صدقہ کر دیا جائے گا، یہ موقف علمائے کرام نے صراحت کے ساتھ پیش کیا ہے، جیسے کہ امام احمد نے شراب اٹھانے والے کے بارے میں صراحت کی ہے، اور امام مالک رحمہ اللہ وغیرہ کے شاگردوں نے بھی یہی موقف بیان کیا ہے۔" ختم شد
"مجموع الفتاوى" (22/142)

سابقہ تمام چیزوں کو مدنظر رکھتے ہوئے اور تائب شخص کو کسی بھی قسم کے منفی تاثر سے بچانے کے لیے ہم یہی بہتر سمجھتے ہیں کہ آپ مکمل قیمت واپس کر دیں، تاہم ادائیگی کرتے ہوئے آپ یہ نیت کریں کہ یہ آپ کی طرف سے نفل صدقہ ہے، اور نفل صدقہ امیر یا غریب کسی کو بھی دیا جا سکتا ہے۔

امام نووی رحمہ اللہ کہتے ہیں:
"نفل صدقہ غنی لوگ بھی بلا اختلاف کھا سکتے ہیں۔" ختم شد
"المجموع" (6/236)

اگر آپ اس وارث لڑکے کو واضح کر دیں کہ جو رقم دے رہے ہیں وہ کس مد میں دے رہے ہیں تو یہ اچھا ہو گا؛ امید ہے کہ اللہ تعالی اس میں خیر ڈال دے، اور وہ لڑکا سگریٹ فروخت کرنے سے باز آ جائے۔

اور اگر آپ کو یقین ہو کہ وہ آپ سے کبھی بھی سگریٹ کی قیمت کا مطالبہ نہیں کریں گے، یا آپ کے بارے میں بد ظنی نہیں کریں گے ، تو آپ سگریٹ کی ساری رقم کو صدقہ کر دیں ، تو ان شاء اللہ پھر بھی اس میں کوئی حرج نہیں ہو گا۔

واللہ اعلم

ماخذ: الاسلام سوال و جواب