اتوار 21 جمادی ثانیہ 1446 - 22 دسمبر 2024
اردو

عورت كے ليے محرم كے بغير حج كا سفر كرنا جائز نہيں

سوال

اگر عورت كے ساتھ جانے كے محرم نہ ہو تو كيا مردوں يا عورتوں كے گروپ ميں محرم كے بغير عورت حج يا عمرہ كے ليے جا سكتى ہے ؟

جواب کا متن

الحمد للہ.

اول:

اس مسئلہ ميں دور قديم سے ہى علماء ميں اختلا چلا آيا ہے بعض علماء كا كہنا ہے كہ:

اگر راستہ پر امن ہو اور عورت كے ساتھ جانے والے بھى بااعتماد ہوں وہ بغير محرم حج كر سكتى ہے.

اور بعض علماء كا كہنا ہے كہ:

محرم كے بغير عورت كا سفر كرنا جائز نہيں، اگرچہ بااعتماد افراد كے ساتھ بھى ہو تو اس كا سفر جائز نہيں ہوگا، امام ابو حنيفہ اور امام احمد رحمہم اللہ كا مسلك يہى ہے،ان كے دلائل درج ذيل ہيں:

ا ـ صحيح بخارى اور صحيح مسلم ميں ابن عباس رضى اللہ تعالى عنہما سے مروى ہے وہ بيان كرتے ہيں كہ نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا:

" محرم كے بغير عورت سفر مت كرے، اور نہ ہى كوئى شخص خلوت ميں اس كے پاس جائے الا يہ كہ عورت كا محرم ساتھ ہو.

تو ايك شخص نے عرض كيا: ميرا تو ارادہ فلاں فلاں لشكر كے ساتھ جانے كا ہے،اور ميرى بيوى حج پر جانا چاہتى ہے ؟

تو رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا:

" تم اپنى بيوى كے ساتھ جاؤ "

صحيح بخارى حديث نمبر ( 1763 ) صحيح مسلم حديث نمبر( 1341 )

ب ـ ابو ہريرہ رضى اللہ تعالى عنہ بيان كرتے ہيں كہ نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا:

" اللہ تعالى اور آخرت كے دن پرايمان ركھنے والى عورت كے ليے محرم كے بغير ايك رات اور دن كا سفر كرنا حلال نہيں ہے "

صحيح بخارى حديث نمبر ( 1038 ) صحيح مسلم حديث نمبر ( 133 ).

اور بخارى كى حديث نمبر ( 1139 ) اور مسلم كى حديث نمبر ( 827 ) ابو سعيد خدرى رضى اللہ تعالى عنہ سے مروى ہے جس ميں دو دن كے سفر كے الفاظ ہيں.

حافظ ابن حجر رحمہ اللہ كہتے ہيں:

" ابو سعيد خدرى رضى اللہ تعالى عنہ كى حديث ميں دو دن اور ابو ہريرہ رضى اللہ تعالى عنہ كى حديث ميں ايك دن كى قيد ہے، اور اس كے علاوہ بھى روايات مروى ہيں، اور ابن عمر رضى اللہ تعالى عنہما كى حديث ميں تين يوم كى قيد ہے، اور ان سے اور بھى روايات مروى ہيں.

اس تقييد كے اختلاف كى بنا پر اكثر علماء كرام نے اس مسئلہ ميں اطلاق پر عمل كيا ہے.

اور امام نووى رحمہ اللہ تعالى كہتے ہيں:

" تحديد سے مراد اس كا ظاہر نہيں، بلكہ جسے سفر كا نام ديا جائے تو اس سے عورت كا بغير محرم سفر كرنا منع ہے، تحديد تو امر واقع كے متعلق ہے اس ليے اس كے مفہوم پر عمل نہيں كيا جائيگا.

اور ابن منير كا كہنا ہے:

ان مختلف مقامات پر سوال كرنے والوں كے اعتبار سے مختلف تحديدات وارد ہوئى ہيں " انتہى.

ديكھيں: فتح البارى ( 4 / 75 ).

دوم:

محرم كے عدم وجوب كے قائلين كے دلائل درج ذيل ہيں:

ا ـ عدى بن حاتم رضى اللہ تعالى عنہ بيان كرتے ہيں كہ:

" ميں نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كے پاس تھا كہ ايك شخص آپ كے پاس آيا اور فقر و فاقہ كى شكايت كى، پھر ايك اور شخص آيا اور اس نے راستے ميں ڈاكوؤں كى شكايت كى.

تو نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم فرمانے لگے:

اے عدى: كيا تم نے حيرۃ ديكھا ہے ؟

ميں نے عرض كيا: ميں نے اسے ديكھا تو نہيں، ليكن اس كے متعلق مجھے بتايا گيا ہے.

تو نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا:

" اگر تيرى زندگى لمبى ہوئى تو تم ديكھو گے كہ اكيلى عورت حيرۃ سے چل كعبہ كا طواف كرےگى اور اسے سوائے اللہ كے ڈر كے كسى اور كا ڈر نہيں ہوگا "

عدى رضى اللہ تعالى عنہ بيان كرتے ہيں كہ: ميں نے ديكھا كہ حيرۃ سے عورت چلتى اور جا كر كعبہ كا طواف كرتى اور وہ اللہ كے علاوہ كسى اور سے نہ ڈرتى "

صحيح بخارى حديث نمبر ( 3400 ).

الظعينۃ عورت كو كہتے ہيں.

اس استدلال كا جواب يہ ديا جاتا ہے كہ:

نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كى جانب سے تو اس معاملہ كے وقوع ہونے كى خبر دى گئى ہے، كسى كام كے ہونے كى خبر كا معنى يہ نہيں كہ كام جائز بھى ہے، بلكہ وہ جائز بھى ہو سكتا ہے، اور ناجائز بھى، يہ تو شرعى دلائل كے اعتبار سے ہوتا ہے.

جيسا كہ رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے خبر دى ہے كہ قيامت سے قبل شراب اور زنا اور قتل عام اور زيادہ ہو جائيگا، اور يہ امور حرام اور كبيرہ گناہوں ميں سے ہيں.

چنانچہ حديث سے مقصود يہ ہے كہ: امن و امان پھيل جائيگا، حتى كہ بعض عورتيں جرات سے كام ليتى ہوئيں بغير محرم اكيلى ہى سفر كرنے لگيں گى، اس كا مقصد يہ نہيں كہ اس كا بغير محرم سفر كرنا جائز ہے.

امام نووى رحمہ اللہ تعالى كہتے ہيں:

نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے جو بھى قيامت كى علامت اور نشانى كى خبر دى ہے يہ نہيں كہ وہ حرام يا قابل مذمت ہے، كيونكہ چراہوں كا اونچى اونچى بلڈنگيں تعمير كر لينا، اور مال كى فروانى، اور ايك مرد پچاس عورتوں كا نگران ہوگا، بلا شك و شبہ يہ حرام نہيں، بلكہ يہ تو قيامت كى علامتيں ہيں، اور علامت اس چيز كى كوئى شرط نہيں، بلكہ وہ خير اور شر، اور مباح اور حرام اور واجب وغيرہ سب ہو سكتى ہيں. واللہ اعلم " انتہى.

اس كا بھى ہونا چاہيے كہ حج كے ليے سفر ميں عورت كے ليے محرم كى شرط ميں علماء كرام كا اختلاف تو فرضى حج ميں ہے، ليكن نفلى حج ميں سب علماء كرام كا اتفاق ہے كہ بغير محرم يا خاوند كے بغير عورت نفلى حج كا سفر نہيں كر سكتى.

ديكھيں: الموسوعۃ الفقھيۃ ( 17 / 36 ).

اور مستقل فتوى كميٹى كے علماء كرام كا كہنا ہے:

" جس عورت كا محرم نہيں اس پر حج فرض ہى نہيں ہوتا، كيونكہ اس كے ليے محرم كا ہونا بيت اللہ تك پہنچنے كى استطاعت ميں شامل ہے، اور وہاں تك پہنچنے كى استطاعت حج فرض ہونے كى شروط ميں شامل ہے.

اللہ سبحانہ وتعالى كا فرمان ہے:

اور لوگوں پر اللہ تعالى كے ليے بيت اللہ كا حج كرنا فرض ہے جو وہاں تك پہنچنے كى استطاعت ركھے آل عمران ( 97 ).

اور عورت كے ليے بغير محرم يا خاوند كے بغير حج وغيرہ كا سفر كرنا جائز نہيں؛ اور حسن، نخعى، احمد، اسحاق، ابن منذر، اور اصحاب الرائے كا قول يہى ہے، اور مذكورہ بالا آيت اور نبى عليہ السلام كى وہ احاديث جن ميں بغير محرم عورت كو سفر كرنے كى ممانعت كى گئى ہے كى بنا پر صحيح بھى يہى قول ہے.

ليكن امام مالك، امام شافعى، اور اوزاعى رحمہم اللہ نے اس كى مخالفت كى ہے، اور ہر ايك نے ايسى شرط لگائى ہے جس كى كوئى دليل نہيں ملتى، ابن منذر كہتے ہيں: ظاہر حديث كو ترك كر كے ايسى شرط لگائى ہے جس كى ان كے پاس كوئى دليل نہيں ہے " انتہى.

ديكھيں: فتاوى اللجنۃ الدائمۃ للبحوث العلميۃ والافتاء ( 11 / 90 - 91 ).

كميٹى كے علماء كا يہ بھى كہنا ہے:

" صحيح يہى ہے كہ عورت كے ليے خاوند يا محرم كے بغير حج كا سفر كرنا جائز نہيں، اس ليے عورت بااعتماد عورتوں كے ساتھ بغير محرم سفر نہيں كر سكتى، اس كے ليے بغير محرم اپنى پھوپھى، يا خالہ يا والدہ وغيرہ كے ساتھ سفر كرنا جائز نہيں ہے، بلكہ اس كے ساتھ اس كا خاوند يا كوئى اور محرم ہونا ضرورى ہے.

اور اگر اسے اپنے ساتھ لے جانے كےليے محرم نہيں ملتا تو جب تك وہ اس حالت ميں ہے اس پر حج فرض نہيں ہوتا " انتہى.

ديكھيں: فتاوى اللجنۃ الدائمۃ للبحوث العلميۃ والافتاء ( 11 / 92 ).

واللہ اعلم .

ماخذ: الاسلام سوال و جواب