جمعہ 26 جمادی ثانیہ 1446 - 27 دسمبر 2024
اردو

" روزۂ عوام یا خاص یا خاص الخاص "غزالیؒ کا روزے کے درجات کے متعلق قول صحیح ہے۔

311409

تاریخ اشاعت : 15-04-2020

مشاہدات : 4933

سوال

ان جملوں کا کیا حکم ہے؟ کیا یہ صحیح ہیں کہ امام غزالی کے مطابق روزے کے تین درجے ہوتے ہیں، ان کا کہنا ہے کہ: ہمیں لازمی طور پر جاننا چاہیے کہ روزہ تین قسم کا ہوتا ہے: عام، خاص اور خاص الخاص: 1) عام روزہ یہ ہے کہ انسان کھانے پینے اور جنسی تعلقات قائم کرنے سے رک جائے۔ 2) خاص روزہ یہ ہے کہ انسان اپنی سماعت، بصارت، زبان، ہاتھ اور پاؤں سمیت دیگر تمام اعضا کو ہمہ قسم کے گناہوں سے بچائے۔ 3) خاص الخاص روزہ یہ ہے کہ دل کا بھی روزہ رکھے اور فضول افکار و نظریات دل میں پیدا ہی نہ ہونے دے ، انسان روزے کے دوران غیر اللہ سے کٹ کر صرف اللہ تعالی کی جانب متوجہ رہے۔

جواب کا خلاصہ

روزے کے مذکورہ درجے موجود ہیں، اور لوگوں کے روزے مختلف مراتب رکھتے ہیں، تاہم مومن کی ذمہ داری بنتی ہے کہ اپنا روزہ مکمل ترین انداز میں پورا کرے، اور یہاں یہ مطلب ہرگز نہیں ہے کہ عام لوگوں کے لیے کوئی الگ روزہ ہے، اور خاص لوگوں کے لیے روزہ الگ ہوتا ہے، بلکہ سب کو یہی حکم ہے کہ روزہ اعلی ترین کیفیت میں مکمل کریں، لیکن یہ بھی سنت الٰہیہ ہے کہ اس کے بندے ایک درجے میں رہتے ہوئے روزوں کا اہتمام نہیں کرتے، بالکل اسی طرح جیسے نماز ادا کرنے اور خشوع و خضوع میں یکساں درجہ نہیں رکھتے۔

جواب کا متن

الحمد للہ.

اول:

ابو حامد غزالیؒ رحمہ اللہ کہتے ہیں:
"یہ بات ذہن نشین کر لیں کہ روزے کے تین مراتب ہیں: عام روزہ، خاص روزہ، اور خاص الخاص روزہ۔
عام روزہ: یہ ہے کہ پیٹ اور شرمگاہ کو اپنی شہوت پوری کرنے سے روک دیا جائے، جیسے کہ اس کی تفصیل پہلے گزر چکی ہے۔
خاص روزہ: یہ ہے کہ سماعت، بصارت ، زبان، ہاتھ، پاؤں اور دیگر تمام اعضا کو گناہوں سے روک لیں۔
خاص الخاص روزہ: یہ ہے کہ گھٹیا مقاصد اور دنیا داری کی سوچ سے دل کو روک لیں، مکمل طور پر اللہ تعالی کے سوا ہر چیز سے توجہ ہٹا لیں۔" ختم شد
"إحياء علوم الدين" (1/ 234)

یہ تمام باتیں صحیح ہیں؛ کیونکہ اہل ایمان کے روزے مختلف درجات کے ہوتے ہیں اس لیے کہ کچھ روزہ رکھ کر صرف کھانے پینے اور شرمگاہ کی شہوت پوری کرنے سے رکتے ہیں، لیکن اپنی زبان کو غیبت، چغلی اور جھوٹ سے محفوظ نہیں کرتے، اپنی آنکھوں سے حرام چیزیں دیکھتے رہتے ہیں، کانوں سے سماعت کا زنا اور موسیقی وغیرہ سنتے ہیں، اپنے اعضا سے اذیت اور تکلیف دیتے ہیں، تو ان کا روزہ کمزور اور ناقص ہوتا ہے۔

جیسے کہ امام بخاری ؒ (6057) میں سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا: (جو شخص جہالت اور خلاف شریعت بات کرنے اور اس پر عمل کرنے سے نہیں رکتا تو اللہ تعالی کو اس کے کھانا پینا چھوڑنے کی کوئی ضرورت نہیں ہے۔)

ایسے شخص کے روزے کے مسترد ہو جانے کا خدشہ لگا رہتا ہے، جیسے کہ امام احمد: (8856) میں بیان کرتے ہیں کہ سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا: (کتنے ہی روزے داروں کے حصے میں روزے کی وجہ سے صرف بھوک اور پیاس آتی ہے، اور کتنے ہی قیام کرنے والوں کے حصے میں قیام کی وجہ سے صرف بے خوابی ہی آتی ہے۔) اس حدیث کی سند کو شعیب ارناؤوط نے مسند احمد کی تحقیق میں جید قرار دیا ہے۔

اسی طرح مصنف ابن ابی شیبہ : (8882) میں ہے کہ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں:
"روزہ صرف کھانے پینے کو چھوڑنے کا نام نہیں ہے، بلکہ روزہ تو جھوٹ، باطل، لغو اور قسمیں کھانے سے رک جانے کا نام ہے۔"

اسی طرح کی بات سیدنا علی سے اثر نمبر (8884) پر منقول ہے۔

جبکہ (8883) میں میمون بن مہران رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ:
"سب سے آسان روزہ یہ ہے کہ انسان کھانا پینا چھوڑ دے!"

چنانچہ روزے کا جو پہلا درجہ ہے وہ ناقص ہے، کیونکہ ایسا روزہ رکھ کر انسان زبان اور جوارح کے گناہوں سے نہیں رکتا۔

ابن رجب رحمہ اللہ کہتے ہیں:
"سلف صالحین میں سے کسی نے کہا ہے کہ: "سب سے آسان روزہ یہ ہے کہ انسان کھانے پینے سے رک جائے"
سیدنا جابر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ:
"جب تم روزہ رکھو تو تمہاری سماعت، بصارت کا روزہ بھی ہونا چاہیے اپنی زبان کو جھوٹ اور حرام چیزوں سے بچاؤ، پڑوسی کو تکلیف مت دو، روزے والے پورے دن میں وقار اور سکینت اپنے آپ پر لازم رکھو، اپنے روزے کے دن کو دیگر ایام جیسا نہ بناؤ۔۔۔"

اور مسند احمد میں ہے کہ: عہد نبوی میں دو عورتوں نے روزہ رکھا، اور دونوں کی حالت یہ ہو گئی کہ گویا پیاس سے مرنے والی ہوں، تو ان دونوں کا تذکرہ نبی صلی اللہ علیہ و سلم کے پاس کیا گیا تو آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے منہ موڑ لیا، پھر دوبارہ ان کا ذکر کیا گیا تو آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے ان دونوں کو بلانے کا حکم دیا، اور انہیں بلا کر کہا کہ: ( تم قے کرو! ) دونوں نے قے کر دی تو پیالے جتنی پیپ، کچ لہو ، خون اور کچا گوشت قے میں اگل دیا، اس پر آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا: (ان دونوں نے اللہ تعالی کی حلال کردہ [یعنی کھانے پینے کی]چیزوں سے رکتے ہوئے روزہ رکھا تھا، اور حرام کام کرنے کی وجہ سے انہوں نے اپنا روزہ توڑ لیا، یہ دونوں اکٹھی بیٹھ کر لوگوں کا گوشت نوچ نوچ کر کھا رہیں تھیں[یعنی چغلی اور غیبت کر رہی تھیں])" ختم شد
"لطائف المعارف" صفحہ: 155

مذکورہ بالا حدیث کی سند ضعیف ہے۔

چنانچہ جو شخص بھی اپنے اعضا کو حرام کاموں سے محفوظ کر لیتا ہے تو وہ حقیقی روزہ رکھے ہوئے ہے، یہی روزہ غزالی کے ہاں خاص لوگوں کا روزہ ہے، اور اس کا دوسرا درجہ ہے۔

جبکہ تیسرا درجہ یہ ہے کہ اپنے دل کو گھٹیا مقاصد اور دنیاوی فکروں سے محفوظ کر کے قلب و جان کو اللہ تعالی کی جانب متوجہ کر دے۔

تو اس میں کوئی دو رائے نہیں ہے کہ یہ مرتبہ انتہائی عظیم اور اعلی ہے، یہاں تک صرف خاص الخاص صاحب توفیق لوگ ہی پہنچ سکتے ہیں؛ کیونکہ دل تو تمام اعضا کا بادشاہ اور تقوی کا مصدر ہے، رب تعالی کی نگاہ اسی قلب پر ہوتی ہے، چنانچہ کامل بندگی یہ ہے کہ انسان ہر اعتبار سے اللہ تعالی کی جانب متوجہ ہو، اسی کی جانب راغب ہو، اللہ سے مشغول کر دینے والے امور کو یکسر ختم کر دے، لہذا جسے قلب و جان کے ساتھ روزہ رکھنے کی توفیق مل جائے تو وہ کمال درجے پر فائز ہو گیا۔

خلاصہ:

روزے کے مذکورہ درجے موجود ہیں، اور لوگوں کے روزے مختلف مراتب رکھتے ہیں، تاہم مومن کی ذمہ داری بنتی ہے کہ اپنا روزہ مکمل ترین انداز میں پورا کرے، اور یہاں یہ مطلب ہرگز نہیں ہے کہ عام لوگوں کے لیے کوئی الگ روزہ ہے، اور خاص لوگوں کے لیے روزہ الگ ہوتا ہے، بلکہ سب کو یہی حکم ہے کہ روزہ اعلی ترین کیفیت میں مکمل کریں، لیکن یہ بھی سنت الٰہیہ ہے کہ اس کے بندے ایک درجے میں رہتے ہوئے روزوں کا اہتمام نہیں کرتے، بالکل اسی طرح جیسے نماز ادا کرنے اور خشوع و خضوع میں یکساں درجہ نہیں رکھتے۔

ہم اللہ تعالی سے دعا گو ہیں کہ اللہ تعالی ہمیں اور آپ کو حقیقی معنوں میں روزہ رکھنے کی توفیق دے اور ہمیں اپنے مقبول بندوں میں شامل فرما لے۔

واللہ اعلم

ماخذ: الاسلام سوال و جواب