اتوار 21 جمادی ثانیہ 1446 - 22 دسمبر 2024
اردو

میاں بیوی میں سے حق حضانت کس کا ہے؟ اور کیا ماں اپنے بچوں کو اپنے ساتھ سفر پر لے جا سکتی ہے؟

314574

تاریخ اشاعت : 08-01-2024

مشاہدات : 1080

سوال

میری شادی سعودی عرب میں ہوئی ہے اور میں سعودی عرب میں ہی رہتی ہوں، لیکن میرے خاوند مجھ اکیلی کو فلسطین میں میکے بھیجنا چاہتا ہے اس کا کہنا ہے کہ میں میکے مل آؤں، اس کی وجہ یہ ہے کہ میرے سسرال اور میرے خاوند کے درمیان کچھ مسائل چل رہے ہیں، جبکہ حقیقت یہ ہے کہ میرا خاوند مجھے اپنے گھر والوں کے پاس اس لیے بھیجنا چاہتا ہے تا کہ وہ میرے گھر والوں پر دباؤ ڈال کر اپنے کچھ مطالبات منوا سکے، اس کے لیے وہ میرے بچوں کو استعمال کرے گا، اس طرح وہ مجھ پر اور میرے میکے پر دباؤ بڑھا سکے گا، اس بات کا انہوں نے میرے سامنے بالکل صراحت سے اقرار کیا ہے۔ اب اس معاملے کا کیا حل ہے؟ کیا اس کے اعتراف کرنے کی وجہ سے میں سعودی عرب سے باہر جانے سے پہلے پولیس کے ذریعے اپنے بچوں کو حاصل کر لوں؟ واضح رہے کہ ابتدائی طور پر مجھے صرف میکے بھیجا جا رہا ہے ہم دونوں نکاح کے بندھن میں ہیں ، خاوند نے مجھے ابھی تک طلاق نہیں دی۔

جواب کا متن

الحمد للہ.

حق حضانت کا مطلب یہ ہے کہ بچوں کی دیکھ بھال کے ساتھ حفاظت کی جائے اور ان کی اچھے انداز سے تربیت ہو، اور یہ نکاح قائم ہونے کی صورت میں والدین دونوں کی ذمہ داری ہوتی ہے۔

علامہ دردیر رحمہ اللہ "الشرح الكبير" (2/ 526) میں کہتے ہیں:
"اگر خاوند زندہ ہو اور بیوی خاوند کے عقد میں ہو تو حق حضانت دونوں کا ہوتا ہے۔" ختم شد

اسی طرح "الموسوعة الفقهية" (17/ 301) میں ہے کہ:
"اگر عقد نکاح قائم ہو تو بچے کی حضانت والدین دونوں کا حق ہے۔" ختم شد

چنانچہ والد کے لیے ایسی کوئی گنجائش نہیں ہے کہ اولاد کو کسی بھی معتبر شرعی عذر کے بغیر معمول سے زیادہ لمبا عرصہ ان کی والدہ کی حضانت سے محروم رکھے ۔

دوم:

مکان حضانت وہی جگہ ہو گی جہاں متعلقہ بچے کا والد رہائش پذیر ہے۔

چنانچہ بیوی یعنی بچے کی والدہ کے لیے دوران سفر بچے کو خاوند کی اجازت کے بغیر اپنے ساتھ لے جانے کی اجازت نہیں ہے، چاہے بچے چھوٹے ہی کیوں نہ ہوں، نیز چاہے سفر دائمی طور پر منتقل ہونے کا ہو یا ملنے کے لیے جانے جیسا عارضی نوعیت کا ہو۔

چنانچہ "الموسوعة الفقهية" (17/ 308) میں ہے کہ:
"اگر بچے کی پرورش کرنے والی خاتون بچے کی ماں ہو اور وہی ماں بچے کے باپ کے نکاح میں بھی ہو تو مکان حضانت وہی جگہ ہے جہاں متعلقہ بچے کا والد رہائش پذیر ہے، اور اگر بچے کی ماں بچے کے باپ کی طرف سے طلاق رجعی ، یا طلاق بائن کی صورت میں عدت کے دوران ہے تو تب بھی مکان حضانت بچے کے باپ کی رہائش والا ہی ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ بیوی پر اپنے خاوند کے ساتھ رہائش رکھنا لازم ہے، اسی طرح عدت والی عورت چاہے اس کی اولاد ہے یا نہیں ہر دو صورت میں اپنے خاوند والے گھر میں ہی مکمل عدت گزارے گی، کیونکہ فرمانِ باری تعالی ہے:
لَا تُخْرِجُوهُنَّ مِنْ بُيُوتِهِنَّ وَلَا يَخْرُجْنَ إِلَّا أَنْ يَأْتِينَ بِفَاحِشَةٍ مُبَيِّنَةٍ
 ترجمہ: تم ان [عدت والیوں کو] ان کے گھروں سے نہ نکالو، نہ ہی وہ خود بھی گھر سے نکلیں الا کہ وہ واضح فحاشی کا ارتکاب کر لیں۔[الطلاق: 1]
اسی طرح خاوند کو بھی ایسا کوئی اختیار نہیں ہے کہ زوجیت والے گھر سے اسے کسی معتبر شرعی عذر کے بغیر نکالے؛ کیونکہ بیوی کو رہائش فراہم کرنا خاوند کی ذمہ داری ہے، اور خاوند کو یہ حق حاصل نہیں ہے کہ بیوی کا حق روکے، نہ ہی اس حق کے حصول کی پاداش میں اسے کسی قسم کا نقصان پہنچا سکتا ہے، الا کہ شریعت کی طرف سے کوئی گنجائش موجود ہو۔ اور نہ ہی عورت کے لیے خاوند کی اجازت کے بغیر ازدواجی رہائش سے باہر جانا جائز ہے۔
فرمانِ باری تعالی :
يَاأَيُّهَا النَّبِيُّ إِذَا طَلَّقْتُمُ النِّسَاءَ فَطَلِّقُوهُنَّ لِعِدَّتِهِنَّ وَأَحْصُوا الْعِدَّةَ وَاتَّقُوا اللَّهَ رَبَّكُمْ لَا تُخْرِجُوهُنَّ مِنْ بُيُوتِهِنَّ وَلَا يَخْرُجْنَ إِلَّا أَنْ يَأْتِينَ بِفَاحِشَةٍ مُبَيِّنَةٍ وَتِلْكَ حُدُودُ اللَّهِ وَمَنْ يَتَعَدَّ حُدُودَ اللَّهِ فَقَدْ ظَلَمَ نَفْسَهُ لَا تَدْرِي لَعَلَّ اللَّهَ يُحْدِثُ بَعْدَ ذَلِكَ أَمْرًا
ترجمہ: اے نبی! جب تم عورتوں کو طلاق دو تو انہیں ان کی عدت کے لیے طلاق دیا کرو اور عدت کے زمانے کا ٹھیک ٹھیک حساب رکھو اور اللہ سے ڈرتے رہو جو تمہارا پروردگار ہے۔ (زمانہ عدت میں) انہیں ان کے گھروں سے نہ نکالو اور نہ ہی وہ خود نکلیں اِلا یہ کہ وہ کسی صریح برائی کی مرتکب ہوں ۔ یہ اللہ کی حدود ہیں۔ اور جو شخص حدود الٰہی سے تجاوز کرے تو اس نے اپنے اوپر خود ظلم کیا۔ (اے مخاطب) تو نہیں جانتا شاید اللہ اس کے بعد (موافقت کی) کوئی نئی صورت پیدا کر دے۔ [الطلاق: 1]

چنانچہ اگر یہ حکم رجعی طلاق والی مطلقہ کے بارے میں ہے کہ خاوند کے لیے اپنی رجعی مطلقہ بیوی کو اپنے گھر سے نکالنا حرام ہے، اسی طرح رجعی مطلقہ بیوی پر بھی حرام ہے کہ خاوند کے گھر سے نکلے اور کوئی ایسا شرعی عذر بھی نہ ہو جو دونوں کے لیے گھر سے نکالنے یا نکلنے کی گنجائش پیدا کرے؛ تو ایسی بیوی جو کہ مکمل طور پر عقد نکاح میں ہے تو اسے گھر سے نکالنا بالاولی حرام ہو گا، یہ بات بالکل واضح ہے اس میں ان شاء اللہ کسی قسم کا ابہام نہیں ہے۔ چنانچہ خاوند بیوی کو اس گھر میں رہائش پذیر ہونے سے نہیں روک سکتا جس میں اس نے بیوی کو رہائش دی تھی، ہاں کوئی معتبر عذر ہو تو گنجائش ہو سکتی ہے، اسی طرح بیوی کے لیے یہ بھی جائز نہیں ہے کہ اس رہائش کو چھوڑے اور اپنا مکان ترک کر دے۔

اس بنا پر : خاوند کو اس کام سے روکا جائے گا کہ وہ اپنی بیوی کو گھر میں رہنے سے روکے، یا اسے نقصان پہنچانے کے لیے میکے بھیج دے؛ کیونکہ جو دوسروں کو نقصان پہنچانے کی کوشش کرتا ہے تو اللہ تعالی اسے بھی نقصان پہنچاتا ہے۔

اسی طرح خاوند اپنے خاندان کے ساتھ، یا سسرال کے ساتھ، یا دونوں خاندانوں کے درمیان ، یا میاں بیوی کے باہمی مسائل کو بیوی پر دباؤ ڈالنے کے لیے بھی استعمال نہیں کر سکتا؛ کیونکہ یہ تو معروف طریقے کے ساتھ ہونے والی حسن معاشرت اور اعلی اخلاقی ظرف سے کہیں دور ہے۔

سوم:

اگر بچے چھوٹے ہیں اور یہ بات بھی عیاں ہو جائے کہ خاوند اپنی بیوی پر سختی کرنے کے لیے بچوں کے بغیر اسے سفر پر بھیجنا چاہتا ہے، خصوصاً ایسی صورت میں کہ جب بیوی بھی سفر کرنے پر رضا مند نہ ہو تو پھر بیوی کے لیے یہ جائز ہے کہ اپنے قریبی ، نیک اور امانت دار شخص کو ثالثی بنا لے، وہ خاوند کو سمجھائے، اور حسب استطاعت خاوند کے اہل خانہ سمیت بیوی اور بچوں کو مشکلات کے دائرے سے باہر نکال دے۔ اس کی بیوی کو میکے پر دباؤ ڈالنے کا ذریعہ بننے سے بچائے، یا اس پر کسی اور کی غلطی کے منفی اثرات نہ آنے دے، یا میکے کی غلطی کا ذمہ دار بیوی کو نہ بننے دے؛ کیونکہ فرمانِ باری تعالی بھی ہے کہ:
وَلَا تَكْسِبُ كُلُّ نَفْسٍ إِلَّا عَلَيْهَا وَلَا تَزِرُ وَازِرَةٌ وِزْرَ أُخْرَى
 ترجمہ: کوئی بھی جان جو کچھ بھی کمائے گی وہ اسی پر ہو گا، اور کوئی جان کسی کا بوجھ نہیں اٹھائے گی۔ [الانعام: 164]

اگر یہ سب کچھ ممکن نہ رہے، اور بیوی بھی ملنے والی تکلیف پر صبر نہ کر سکتی ہو تو پھر شرعی عدالت میں فیصلے کے لیے کیس دائر کر سکتی ہے۔

واللہ اعلم

ماخذ: الاسلام سوال و جواب