اگر قربانی کا ایک تہائی گوشت پکا کر رشتہ داروں کو کھلا دے، تو کیا گوشت تقسیم کرنے کی ضرورت نہیں رہے گی؟

سوال: 317206

میں نے سنا ہے کہ سنت یہ ہے کہ قربانی کے گوشت کو تین حصوں میں تقسیم کیا جائے: ایک تہائی خود کھایا جائے، ایک تہائی بطور تحفہ دیا جائے اور ایک تہائی فقراء و مساکین میں تقسیم کیا جائے۔ تو اگر میں قربانی کے ایک تہائی حصے کو پکا کر اپنے رشتہ داروں کو دعوت پر بلا لوں، تو کیا یہ تحفہ شمار ہو گا؟ یا ضروری ہے کہ میں گوشت ان کے ہاتھ میں دوں؟

جواب کا متن

ہمہ قسم کی حمد اللہ تعالی کے لیے، اور دورو و سلام ہوں اللہ کے رسول پر، بعد ازاں:

فقہائے کرام کی ایک جماعت نے مستحب قرار دیا ہے کہ قربانی کے گوشت کو تین حصوں میں تقسیم کیا جائے: ایک تہائی خود کھائے، ایک تہائی تحفے میں دے اور ایک تہائی فقراء میں تقسیم کرے۔ اس کی دلیل ابن مسعود اور ابن عمر رضی اللہ عنہم سے مروی روایات ہیں۔

ابن قدامہ رحمہ اللہ "المغنی" (9/488) میں لکھتے ہیں:
’’مستحب یہ ہے کہ اپنی قربانی کا ایک تہائی خود کھائے، ایک تہائی ہدیہ دے اور ایک تہائی فقراء کو صدقہ کرے۔ اگر زیادہ کھا لے تو بھی جائز ہے۔‘‘

امام احمد رحمہ اللہ کہتے ہیں: ہم عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کے قول پر عمل کرتے ہیں کہ: وہ خود ایک تہائی کھاتے، جسے چاہتے اسے ایک تہائی کھلاتے اور مساکین کو ایک تہائی صدقہ کرتے۔

علقمہ رحمہ اللہ کہتے ہیں: عبداللہ (بن مسعود) نے مجھے اپنی قربانی کا جانور دے کر بھیجا اور حکم دیا کہ اس میں سے ایک تہائی خود کھاؤں، ایک تہائی اپنے بھائی عتبہ کے گھر والوں کو بھیجوں اور ایک تہائی صدقہ کروں۔

ابن عمر رضی اللہ عنہما کہتے تھے: قربانی اور تحائف کے تین حصے ہوتے ہیں: ایک تہائی تیرے لیے، ایک تہائی تیرے اہل خانہ [رشتہ داروں] کے لیے، اور ایک تہائی مساکین کے لیے۔

یہی قول امام اسحاق کا اور امام شافعی کے دو اقوال میں سے ایک یہی ہے۔ جبکہ دوسرے قول میں امام شافعی فرماتے ہیں کہ نصف خود کھائے اور نصف صدقہ کرے، جیسا کہ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے: فَكُلُوا مِنْهَا وَأَطْعِمُوا الْبَائِسَ الْفَقِيرَ ترجمہ: ’’پس اس میں سے خود کھاؤ اور تنگ دست محتاج کو کھلاؤ‘‘ (الحج: 28)

احناف کہتے ہیں: جس قدر صدقہ زیادہ ہو گا اسی قدر افضل ہے؛ کیونکہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم نے سو اونٹ قربان کیے اور ہر اونٹ سے ایک ٹکڑا کاٹ کر ہنڈیا میں ڈالنے کا حکم دیا، پھر آپ صلی اللہ علیہ و سلم اور حضرت علی رضی اللہ عنہ نے اس گوشت اور شوربے کو تناول فرمایا۔ اور آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے پانچ یا چھ اونٹ نحر کیے اور فرمایا: جو چاہے لے جائے، اور ان میں سے آپ نے کچھ نہیں کھایا۔

ہماری دلیل نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم کی قربانی کے وصف میں ابن عباس رضی اللہ عنہما کی روایت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ و سلم اپنی قربانی کا ایک تہائی گھر والوں کو کھلاتے، ایک تہائی غریب پڑوسیوں کو اور ایک تہائی سائلوں کو دیتے تھے۔ اسے ابو موسیٰ اصفہانی نے ’’ الوظائف‘‘ میں روایت کیا اور حسن کہا ہے۔

چونکہ یہ ابن مسعود اور ابن عمر رضی اللہ عنہم موقف بھی ہے اور ہمیں صحابہ کرام میں ان کے مخالف کسی موقف کا علم بھی نہیں ہے اس لیے یہ صحابہ کا اجماعی موقف قرار پایا؛ اور ویسے بھی اللہ تعالی کا فرمان ہے کہ: فَكُلُوا مِنْهَا وَأَطْعِمُوا الْقَانِعَ وَالْمُعْتَرَّ ترجمہ: ’’اس میں سے خود کھاؤ اور قانع اور معتر کو کھلاؤ‘‘ (الحج: 36)

آیت میں مذکور ’’ قانع‘‘ سوالی کو کہتے ہیں، چنانچہ ’’ قَنَعَ قُنُوْعًا‘‘عربی میں اس وقت کہا جائے گا جب سائل سوال کرے، جبکہ ’’ قَنَعَ قَنَاعَةً‘‘ اس وقت کہا جائے گا جب سائل راضی بھی ہو جائے، اسی معنی کی وضاحت شاعر کے اس شعر سے بھی ہوتی ہے۔

{ لَمالُ المَرْءِ يُصْلِحُه فيُغْنِي ... مَفَاقِرَهُ أَعَفُّ من القُنُوعِ }
ترجمہ: ’’ آدمی کا مال اس کے فاقہ و محتاجی کے اسباب سنوارتا اور اسے بے نیازی دے دیتا ہے؛ اور سوال سے بچنے والا شخص سوال کرنے والے سے زیادہ باعفت ہوتا ہے۔‘‘

جبکہ ’’ معتر‘‘ اس شخص کو کہتے ہیں جو آپ کے سامنے اسی لیے آئے کہ آپ اسے کھلائیں پلائیں لیکن وہ خود زبان سے مانگنے کے جسارت نہ کرے، اس طرح اس آیت کے مطابق تین حصے ثابت ہوتے ہیں: اپنے لیے، سائل کے لیے اور وہ جو سفید پوش ہو مانگنے سے کتراتا ہو اس کے لیے ۔

اور جہاں تک اس آیت کا تعلق ہے جسے شافعی فقہائے کرام نے دلیل بنایا ہے، تو اللہ تعالیٰ نے اس میں یہ بیان نہیں کیا کہ قربانی کے گوشت میں سے کتنا کھایا جائے اور کتنا صدقہ کیا جائے۔ جبکہ ہماری پیش کردہ آیت میں اس پر توجہ دلائی گئی ہے، اور نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم نے اپنے فعل سے اس کی وضاحت کی، ابن عمر رضی اللہ عنہما نے اپنے قول سے اور ابن مسعود رضی اللہ عنہ نے اپنے حکم سے۔

اور جہاں تک اصحاب الرائے احناف کی پیش کردہ حدیث کا تعلق ہے تو وہ ہدی [حج میں ذبح کی جانے والی قربانی] کے بارے میں ہے۔ اور ہدی میں جانور بہت زیادہ کثرت کے ساتھ ذبح کیے جاتے ہیں، اس لیے آدمی اسے تقسیم کر ے اس کا ایک تہائی حصہ اپنے لیے نکالے یہ عمل ممکن نہیں رہتا، چنانچہ ایک ہی راہ بچ جاتی ہے کہ اس گوشت کو صدقہ کر دیا جائے۔
بہ ہر حال اس حوالے سے شریعت میں وسعت اور کشادگی ہے، اگر ساری قربانی صدقہ کر دی جائے یا اس کا زیادہ حصہ تقسیم کیا جائے، تو جائز ہے؛ اور اگر ساری قربانی خود کھا لی جائے اور بس معمولی سا گوشت تقسیم کر دیا جائے تو بھی جائز ہے۔ ‘‘ ختم شد

شیخ ابن عثیمین رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
’’قربانی کے گوشت کو تین حصوں میں تقسیم کر کے اسے خود کھانا، رشتہ داروں کو ہدیہ دینا اور غریبوں میں تقسیم کرنا یہ موقف امام احمد کے اصحاب نے اختیار کیا ہے اور سلف سے منقول بھی ہے۔
جبکہ بعض نے کہا کہ نصف خود کھائے اور نصف صدقہ کرے، اس کی دلیل اللہ تعالیٰ کے اس فرمان کو بناتے ہیں کہ فرمانِ باری تعالی ہے: فَكُلُوا مِنْهَا وَأَطْعِمُوا الْبَائِسَ الْفَقِيرَ ترجمہ: ’’پس اس میں سے کھاؤ اور تنگ دست محتاج کو کھلاؤ‘‘ (الحج: 28)، ان کے مطابق اللہ تعالیٰ نے یہاں ہدیہ دینے کا ذکر نہیں کیا، تحفہ اور ہدیہ تو محبت پیدا کرنے کا ذریعہ ہے جو اس طریقے سے بھی حاصل ہو سکتی ہے اور کسی دوسرے طریقے سے بھی۔
یہ موقف قرآن و سنت کے ظاہر کے زیادہ قریب ہے؛ تاہم اگر لوگ قربانی کرتے ہوئے باہمی تبادلے کی عادت رکھتے ہوں تو یہ مستحبات میں سے ہے، کیونکہ یہ عمل لوگوں کے درمیان اُلفت و محبت پیدا کرنے والے امور اپنانے میں شامل ہے۔ قربانی کے دنوں میں اگر آپ کسی مالدار کو قربانی کا گوشت تحفے میں دیں تو یہ اس کے دل پر کھجور، گیہوں یا کسی اور عام کھانے کی چیز کے مقابلے میں کہیں زیادہ اثر ڈالتا ہے۔ چنانچہ جب اس میں مصلحت پائی جائے تو یہی عمل مطلوب اور پسندیدہ ہے، البتہ گوشت کو برابر تین حصوں میں تقسیم کرنے کے لیے سنت سے کوئی صریح دلیل ضروری ہے۔
کیونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے ہدی کے اونٹوں کے سارے گوشت کو صدقہ کر دیا تھا، سوائے اُن ٹکڑوں کے جنہیں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پسند فرمایا کہ ایک برتن میں انہیں پکایا جائے۔‘‘ ختم شد
ماخوذ از: الشرح الممتع (7/482)

واضح ہوا کہ تین حصوں میں تقسیم کرنے کے حوالے سے وسعت ہے، چنانچہ اگر آپ ایک تہائی گوشت بطور تحفہ دیں تو اچھا ہے، اگر پکا کر رشتہ داروں کو کھلائیں تو بھی اچھا ہے، لیکن زیادہ بہتر یہ ہے کہ گوشت کی صورت میں تحفہ دیا جائے، قربانی کے گوشت کے متعلق لوگوں میں یہی عادت پائی جاتی ہے۔

البتہ فقراء کے حصے میں ضروری ہے کہ انہیں گوشت کا مالک بنایا جائے، صرف پکا کر کھلا دینا کافی نہیں۔

جیسا کہ "شرح المنتهى" (1/613) میں ہے: ’’فقیر کو کچے گوشت کا کچھ حصہ ملکیت میں دینا ضروری ہے، صرف کھلا دینا کافی نہیں، جیسے کفارے میں [کھلانا ] ضروری ہے۔‘‘ختم شد

واللہ اعلم

حوالہ جات

ماخذ

الاسلام سوال و جواب

at email

ایمیل خبرنامہ

اسلام سوال و جواب کی میلنگ لسٹ میں شامل ہوں

phone

اسلام سوال و جواب ایپ

مواد تک فوری رسائی اور آف لائن مطالعہ کے لیے

download iosdownload android