الحمد للہ.
اول:
نفاس كى زيادہ سے زيادہ مدت ميں علماء كرام كا اختلاف پايا جاتا ہے بعض علماء نفاس كى زيادہ سے زيادہ مدت چاليس يوم قرار ديتے ہيں كيونكہ ام سلمہ رضى اللہ تعالى عنہا كى حديث ميں ہے:
" رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم كے دور ميں نفاس والى عورتيں چاليس سوم تك بيٹھتى تھيں "
سنن ابو داود حديث نمبر ( 139 ) علامہ البانى رحمہ اللہ تعالى نے اسے حسن صحيح قرار ديا ہے، اور جمہور علماء كرام كا مسلك يہى ہے.
چنانچہ اس كے بعد بھى اگر خون آتا رہے تو غسل كر كے نمازيں ادا كى جائينگى، عام عادت سے ہٹ كر چاليس يوم كے بعد جو خون آيا ہے ان ايام كى نمازيں قضاء كريں كيونكہ يہ حيض ہے.
مزيد تفصيل كے ليے آپ سوال نمبر ( 10488 ) كے جواب كا مطالعہ كريں.
اور بعض علماء كرام مثلا شيخ الاسلام ابن تيميہ رحمہ اللہ كہتے ہيں: ـ ولادت كى بنا پر آنے والا خون اصل ميں نفاس كا خون ہے، اس ليے خون ركنے تك نماز ادا نہيں كى جائيگى ـ ان كا كہنا ہے كہ نفاس كى زيادہ سے زيادہ كوئى حد مقرر نہيں.
اور بعض علماء نفاس كى زيادہ سے زيادہ حد ساتھ يوم ( دو ماہ ) قرار ديتے ہيں، يہ امام شافعى رحمہ اللہ كا مسلك ہے.
احتياط اسى ميں ہے كہ چاليس يوم كے بعد والے ايام اگر ماہوارى كے موافق نہ ہوں تو ان كى قضاء كر ليں.
دوم:
رہا مسئلہ نمازيں قضاء كرنے كى كيفيت كيا ہے تو جيسے ہى آپ كو يہ حكم پہنچا تو آپ پر قضاء لازم ہے، ليكن اگر زيادہ ايام كى بنا پر آپ كو مشقت ہے تو آپ حسب استطاعت قضاء كريں چاہے اس ميں كئى دن لگ جائيں.
واللہ اعلم .