الحمد للہ.
اعمالناموں کی تقسیم :
جب بندوں کے اعمالوں کا حساب وکتاب مکمل ہو جائے گا تو ہر بندے کو اس کے سب اعمال پر مشتمل ایک کتاب دی جائے گی ۔
تو مومن کو بطور عزت اس کے دائیں ہاتھ میں وہ اعمالنامہ دیا جائے گا جس سے وہ قیامت کے دن بہت خوش اور کامیاب ہو گا ۔ فرمان باری تعالی ہے :
( تو اس وقت جس شخص کے دائیں ہاتھ میں اعمالنامہ دیا جائے گا تو اس کا حساب بڑی آسانی سے لیا جائے گا اور وہ اپنے اہل کی طرف ہنسی خوشی لوٹ ائے گا ) الانشقاق / 7- 9
ارشاد ربانی ہے :
( تو وہ جسے اس کا اعمالنامہ اس کے دائیں ہاتھ میں دیا جائے گا تو وہ کہنے لگے گا کہ لو یہ میرا اعمالنامہ پڑھو مجھے تو کامل یقین تھا کہ مجھے حساب کتاب دینا ہے تو وہ ایک پسندیدہ اور رضا مندی والی زندگی میں ہو گا بلند وبالا جنت میں جس کے میوے جھکے پڑے ہوں گے ( ان سے کہا جائے گا ) کہ اپنے اعمال کے بدلے میں مزے سے کھاؤ اور پیو جو کہ تم نے گزشتہ دور میں کۓ تھے ) الحاقۃ / 19 – 24
لیکن کافر اور منافق اور گمراہ لوگوں کو ان کا اعمالنامہ ان کی پیٹھ کے پیچھے سے ان کے بائیں ہاتھ میں دیا جائے گا ۔
فرمان باری تعالی ہے :
ہاں جس کا اعمالنامہ اس کے پیچھے سے دیا جائے گا تو وہ موت کو آوازیں دینے لگے گا اور بھڑکتی ہوئی جہنم میں داخل ہو گا ) الانشقاق / 10 – 12
اللہ سبحانہ وتعالی کا فرمان ہے :
( اور لیکن جسے اس کا اعمال نامہ کی کتاب اس کے بائیں ہاتھ میں دی جائے گی تو وہ کہے گا کہ کاش کہ مجھے میری کتاب دی ہی نہ جاتی اور میں جانتا ہی نہ کہ حساب کیا ہے کاش کہ موت میرا کام تمام کر چکی ہوتی میرے مال نے بھی مجھے کچھ فائدہ نہ دیا میرا غلبہ بھی مجھ سے جاتا رہا (حکم ہو گا) اسے پکڑ لو پھر اسے طوق پہنا دو پھر اس کے بعد اسے دوزخ میں ڈال دو پھر اسے ایسی زنجیروں میں جن کی پیمائش ستر ہاتھ کی ہے اس میں جکڑ دو ) الحاقۃ / 25 / 32
تو جب ان کو ان کے اعمالنامے دیۓ جائیں گے تو انہیں کہا جائے گا :
لو خود ہی اپنی کتاب آپ پڑھ لو آج تو تم اپنا حساب لینے کے لۓ خود ہی کافی ہو ) الاسراء / 14
فرمان باری تعالی ہو گا :
یہ ہے ہماری کتاب جو تمہارے بارے میں سچ سچ بول رہی ہے ہم تمہارے اعمال لکھواتے جاتے تھے ) الجاثیہ / 29
اعمال کا وزن :
میزان اور ترازو بندوں کے اعمال کو تولنے کے لۓ لگایا جائے گا ۔
قرطبی رحمہ اللہ کا کہنا ہے کہ :
( جب حساب کتاب ختم ہو جائے گا تو اس کے بعد اعمال کا وزن ہو گا کیونکہ وزن بدلہ اور سزا کے لۓ ہو گا تو یہ ضروری ہے کہ وہ حساب وکتاب کے بعد ہو کیونکہ حساب وکتاب تو اعمال کی مقدار اور اندازہ کرنے کے لۓ ہوگا اور وزن اس اندازے اور مقدار کا ظہور ہے تا کہ اس کے حساب سے بدلہ دیا جا سکے ) اھـ
اور شرعی نصوص اس بات پر دلالت کرتی ہیں کہ یہ ترازو اور میزان حقیقی ہو گا جس کے دو پلڑے ہوں گے جن کے ساتھ بندوں کے اعمال کا وزن کیا جائے گا تو وہ ترازو اتنا عظیم ہے جس کی مقدار کا اندازہ اللہ تعالی کے علاوہ اور کوئی نہیں کر سکتا ۔
اہل علم میں اس بات پر اختلاف ہے کہ آیا وہ ترازو جس میں بندوں کے اعمال کا وزن ہو گا ایک ہے یا ایک سے زیادہ ہوں گے جو کہ ہر ایک شخص کے لۓ خاص ہو گا تو جنہوں نے یہ کہا ہے کہ وہ کئ ایک ترازو ہوں گے انہوں نے کہا ہے کہ متعدد آیات میں میزان کا لفظ جمع کے صیغہ کے ساتھ آیا ہے اس لۓ میزان بھی کئ ہوں گے ۔
فرمان باری تعالی ہے :
( اور قیامت کے دن ہم انصاف والے ترازو کو درمیان میں لا کر رکھیں گے تو پھر کسی پر کچھ ظلم نہیں کیا جائے گا اور اگر ایک دانے کے برابر بھی عمل ہو گا ہم اسے ضرور لا حاضر کریں گے اور ہم حساب کرنے کے لۓ کافی ہیں ) الانبیاء / 47
اور جنہوں نے یہ کہا ہے کہ ترازو ایک ہو گا وہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے فرمان سے استدلال کرتے ہیں :
مثلا نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے :
( قیامت کے دن ترازو کھا جائے گا اگر اس میں آسمان وزمین تولیں جائیں تو انہیں بھی وہ کافی رہے تو فرشتے کہیں گے اے ہمارے رب اس میں کس کا وزن کیا جائے گا ؟ تو اللہ تعالی جواب میں فرمائے گا اپنی مخلوق میں سے جسے میں چاہوں ) سلسلہ صحیحہ حدیث نمبر 941
اور ان آیات کو جن میں جمع کا صیغہ وارد ہے انہوں نے اسے ان چیزوں کے متعدد ہونے پر محمول کیا ہے جن کا وزن کیا جانا ہے جو کہ اعمال اقوال اور اشخاص اور صحیفوں پر مشتمل ہوں گے اور وہ یہ کہتے ہیں کہ ان اشیاء کو جمع کیا گیا ہے جن کا وزن کیا جانا ہے ۔
اقوال کے وزن پر ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کی مندرجہ ذیل حدیث دلالت کرتی ہے :
ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : (دو کلمے ایسے ہیں جو کہ زبان پر بہت ہلکے اور میزان میں بہت بھاری اللہ تعالی کے ہاں بہت محبوب ہیں ( سبحان اللہ وبحمدہ سبحان اللہ العظیم) اللہ تعالی پاک ہے اور اپنی حمد کے ساتھ پاک ہے اللہ عظمت والا ) صحیح بخاری حدیث نمبر 6406
اور اعمال کے وزن پر ابو درداء رضی اللہ عنہ کی حدیث دلالت کرتی ہے :
ابو درداء رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ میں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئےسنا:
(ترازو میں وزن کی جانے والی اشیاء میں اخلاق حسنہ سے زیادہ وزنی کوئی اور چیز نہیں ہو گی اور بیشک اخلاق حسنہ کا مالک شخص نماز اور روزے کے درجات کو پہنچے گا )
صحیح سنن ترمذی حدیث نمبر (1629)
اور اعمال کے صحیفے کے تولے جانے پر حدیث بطاقہ دلالت کرتی ہے :
عبداللہ بن عمرو بن عاص بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ( بیشک اللہ تعالی میری امت میں سے ایک شخص کو قیامت کے دن سب لوگوں کے سامنے لائے اور اس کے سامنے ننانویں رجسٹر کھولے گا جو کہ حد نگاہ تک پھیلے ہوئےہوں گے پھر اسے کہے گا کیا اس میں سے تجھے کسی چیز کا انکار ہے کہ میرے کاتب جو کہ حافظ تھے انہوں نے تیرے ساتھ ظلم کیا ہو تو وہ شخص کہے گا اے میرے رب نہیں
تو اللہ تعالی اسے کہے گا تیرے پاس کوئی عذر ہے تو وہ کہے گا اے میرے رب کوئی نہیں ہے تو اللہ تعالی اسے کہے گا کیوں نہیں ہمارے پاس تیری ایک نیکی ہے بیشک آج تجھ پر ظلم نہیں کیا جائے گا تو اس کے لۓ ایک کارڈ اور پرچی نکالی جائے گی جس میں لکھا ہو گا میں گواہی دیتا ہوں کہ اللہ تعالی کے علاوہ کوئی معبود برحق نہیں اور محمد صلی اللہ علیہ وسلم اللہ تعالی کے بندے اور رسول ہیں تو اللہ تعالی اسے کہے گا وزن کے لۓ حاضر ہو جاؤ بندہ جواب دے گا اے میرے رب ان رجسٹروں کے مقابلے میں اس پرچی کا کیا مقابلہ۔
اللہ تعالی فرمائے گا تجھ پر ظلم نہیں ہو گا نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ وہ رجسٹر ایک پلڑے میں اور وہ پرچی دوسرے پلڑے میں رکھی جائے گی تو رجسٹر بے وزن اور پرچی بھاری ہو جائے گی تو اللہ تعالی کے نام سے کوئی بھی چیز بھاری نہیں ہو سکتی )
صحیح سنن ترمذی حدیث نمبر (2127)
اور اشخاص کے وزن پر مندرجہ ذیل حدیث دلالت کرتی ہے :
ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : (قیامت کے دن ایک عظیم الجثہ اور موٹا شخص لایا جائے گا جس کا وزن اللہ تعالی کے ہاں مچھر کے پر کے برابر بھی نہیں ہو گا اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اللہ تعالی کا یہ فرمان پڑھو : ہم قیامت کے دن ان کا کوئی وزن قائم نہیں کریں گے )
صحیح بخاری حدیث نمبر (4729)
اور اسی طرح یہ واقعہ بھی اس پر دلالت کرتا ہے کہ :
ابن مسعود رضی اللہ عنہ اراک کی مسواک اتار رہے تھے اور وہ پتلی پنڈلیوں والے تھے تو ہوا کی وجہ سے لڑکھڑانے لگے اس بنا پر باقی لوگ ہنسنے لگے تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ کس چیز پر ہنس رہے ہو تو انہوں نے جواب دیا کہ اے اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم اس کی پنڈلیوں کے پتلا ہونے کی وجہ سے تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے یہ دونوں پنڈلیاں ترازو میں احد پہاڑ سے بھی وزنی ہوں گی ۔
اس کی سند کو علامہ البانی رحمہ اللہ نے شرح عقیدہ طحاویہ میں حسن کہا حدیث نمبر 571 صفحہ نمبر 8
ہم اللہ تعالی سے دعا گو ہیں کہ وہ ہمارے اعمال کے وزن بھاری کر دے ۔
واللہ اعلم .