الحمد للہ.
الحمدللہروایات اورراویوں کی تعداد میں مقارنہ بہت ہی مشکل ہے اس لیے کہ ایک حدیث کوبعض اوقات راویوں کی ایک جماعت روایت کرتی ہے ، اوراسی طرح ایک راوی احادیث کی ایک بڑی تعداد روایت کرتا ہے ۔
اوریہ کہنا کہ کوئ بھی روایت ضعیف نہیں یہ ایک ایسا قول ہے جو صحت سے عاری ہے کیونکہ راوی کی حالت اور عدل وضبط اورحفظ میں اس کے رتبہ و قدر کا اس کی راویات پربھی اثرہوتا ہے ۔
ہم آپ کے سامنے اس کی مثالیں پیش کرتے ہیں :
اول :
( اپنی میتوں پر سورۃ یس پڑھا کرو ) اس حدیث کوابوداود اورابن ماجہ نے سلیمان التمیمی عن عثمان عن ابیہ عن معقل بن یسار کی سند سے روایت کیا ہے ، تواب یہ حدیث ابوعثمان اوراس کے باپ دونوں کے مجھول ہونے کی بنا پر ضعیف ہے ۔ دیکھیں ارواء الغیلیل ( 3 / 150 ) حدیث نمبر ( 588 ) ۔
دوم :
( والدہ اوراس کے بیٹے کوجدا نہ کیا جاۓ ) اسے بیھقی نے حسین بن عبداللہ بن ضمرۃ عن ابیہ عن جدہ کی سند سے روایت کیا ہے ۔
امام نووی رحمہ اللہ تعالی کہتے ہیں : یہ حدیث ضعیف ہے ، اورحسین بن عبداللہ کے ضعیف ہونے سب کا اتفاق ہے ۔ دیکھیں المجموع ( 9 / 445 ) ۔
تویہ احادیث ان کے راویوں کی بنا پرضعیف قرار دی گئ ہیں ، اوربعض اوقات یہ بھی ہوسکتا ہے کہ سند توضعیف ہو لیکن دوسری صحیح سند کے آجانے کی بنا پرحدیث صحیح ہو ۔
اوریہ بھی ہوسکتا ہے کہ سند صحیح ہواورکسی علت کے ہونے کی بنا پراس کا متن ضعیف ہو ۔
یہ ایک وسیع علم ہے جسے پڑھنے اورمشق کرنے کی ضرورت ہے ۔
واللہ تعالی اعلم .