سوموار 22 جمادی ثانیہ 1446 - 23 دسمبر 2024
اردو

کیا یہ صحیح ہے کہ کوئ‏ روایت بھی ضعیف نہیں ؟

32638

تاریخ اشاعت : 25-02-2009

مشاہدات : 10247

سوال

راویوں سے مقارنہ کرتے ہوۓ روایت حدیث کی تعداد کیا ہے ؟
اورکیا یہ صحیح ہے کہ ضعیف راویوں کی کژت کے باوجود کوئ روایت ضعیف نہیں ؟

جواب کا متن

الحمد للہ.

الحمدللہ

روایات اورراویوں کی تعداد میں مقارنہ بہت ہی مشکل ہے اس لیے کہ ایک حدیث کوبعض اوقات راویوں کی ایک جماعت روایت کرتی ہے ، اوراسی طرح ایک راوی احادیث کی ایک بڑی تعداد روایت کرتا ہے ۔

اوریہ کہنا کہ کوئ بھی روایت ضعیف نہیں یہ ایک ایسا قول ہے جو صحت سے عاری ہے کیونکہ راوی کی حالت اور عدل وضبط اورحفظ میں اس کے رتبہ و قدر کا اس کی راویات پربھی اثرہوتا ہے ۔

ہم آپ کے سامنے اس کی مثالیں پیش کرتے ہیں :

اول :

( اپنی میتوں پر سورۃ یس پڑھا کرو ) اس حدیث کوابوداود اورابن ماجہ نے سلیمان التمیمی عن عثمان عن ابیہ عن معقل بن یسار کی سند سے روایت کیا ہے ، تواب یہ حدیث ابوعثمان اوراس کے باپ دونوں کے مجھول ہونے کی بنا پر ضعیف ہے ۔ دیکھیں ارواء الغیلیل ( 3 / 150 ) حدیث نمبر ( 588 ) ۔

دوم :

( والدہ اوراس کے بیٹے کوجدا نہ کیا جاۓ ) اسے بیھقی نے حسین بن عبداللہ بن ضمرۃ عن ابیہ عن جدہ کی سند سے روایت کیا ہے ۔

امام نووی رحمہ اللہ تعالی کہتے ہیں : یہ حدیث ضعیف ہے ، اورحسین بن عبداللہ کے ضعیف ہونے سب کا اتفاق ہے ۔ دیکھیں المجموع ( 9 / 445 ) ۔

تویہ احادیث ان کے راویوں کی بنا پرضعیف قرار دی گئ ہیں ، اوربعض اوقات یہ بھی ہوسکتا ہے کہ سند توضعیف ہو لیکن دوسری صحیح سند کے آجانے کی بنا پرحدیث صحیح ہو ۔

اوریہ بھی ہوسکتا ہے کہ سند صحیح ہواورکسی علت کے ہونے کی بنا پراس کا متن ضعیف ہو ۔

یہ ایک وسیع علم ہے جسے پڑھنے اورمشق کرنے کی ضرورت ہے ۔

واللہ تعالی اعلم .

ماخذ: الاسلام سوال و جواب