جمعہ 19 رمضان 1445 - 29 مارچ 2024
اردو

ايك لاكھ ريال صدقہ كرنے كى نذر مانى تو كيا اسے اپنى نذر پورى كرنا ہو گى ؟

32724

تاریخ اشاعت : 23-06-2013

مشاہدات : 3372

سوال

ايك شخص نے كہا: مجھ پر اللہ كا وعدہ كہ اگر ميں نے ايسا كيا تو ايك لاكھ ريال صدقہ كرونگا، اور پھر اس نے وہ عمل كر ليا، اب وہ اپنے كيے پر نادم ہے اور اتنى زيادہ رقم صدقہ نہيں كرنا چاہتا، تو كيا اس كے ليے قسم كا كفارہ دينا جائز ہے، يا اس كے ليے يہ رقم صدقہ كرنى واجب ہے، يہ علم ميں رہے كہ وہ چار لاكھ ريال كا مالك ہے ؟

جواب کا متن

الحمد للہ.

جى ہاں آپ كے ليے اپنى نذر پورى كرنى لازم ہے، كيونكہ رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم كا فرمان ہے:

" جس نے اللہ تعالى كى اطاعت و فرمانبردارى كرنے كى نذر مانى وہ اس كى اطاعت و فرمانبردارى كرے "

صحيح بخارى حديث نمبر ( 6318 ).

اور يہاں كئى ايك امور كو جاننا ضرورى ہے:

اول:

نذر كى تعريف: مكلف شخص كا اپنے آپ كو ايسى چيز كا لازم كر لينا جو شريعت اسلاميہ نے اس پر لازم نہيں كى.

دوم:

نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے نذر ماننے سے منع فرمايا ہے.

ابن عمر رضى اللہ تعالى عنہما بيان كرتے ہيں كہ رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے نذر ماننے سے منع كرتے ہوئے فرمايا:

" يہ كسى چيز كو واپس نہيں لاتى ، بلكہ يہ تو بخيل سے نكالنے كا ايك بہانہ ہے "

صحيح بخارى حديث نمبر ( 6234 ) صحيح مسلم حديث نمبر ( 1639 )

امام نووى رحمہ اللہ تعالى كہتے ہيں:

نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كا يہ فرمانا: " بلكہ بخيل سے نكالنے كا ايك بہانہ ہے "

اس كا معنى يہ ہے كہ: وہ نيكى يا نيك فعل كو خالصتا نفلى نہيں كر رہا بلكہ يہ تو مريض كى شفايابى يا كسى اور كام كے مقابلے اور عوض ميں كر رہا ہے، جس پر اس نے نذر معلق كر ركھى تھى. اھـ

اور بعض علماء كرام نے تو اسے حرام بھى كہا ہے ـ جن ميں شيخ الاسلام ابن تيمہ رحمہ اللہ تعالى بھى شامل ہيں ـ اور جمہور اس كى كراہت كے قائل ہيں، ليكن وہ اس ميں اختلاف نہيں كرتے كہ جب كوئى شخص نذر مانے تو اسے پورا كرنا اس كے ليے واجب ہے.

عائشہ رضى اللہ تعالى عنہ بيان كرتى ہيں كہ رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا:

" جس نے نذر مانى كہ وہ اللہ تعالى كى اطاعت و فرمانبردارى كرے گا اور جس نے اللہ تعالى كى معصيت و نافرمانى كى نذر مانى تو وہ معصيت كا مرتكب نہ ہو"

صحيح بخارى حديث نمبر ( 6318 ).

اور شريعت اسلاميہ نے نذر مان كر اسے پورا نہ كرنے والوں كى مذمت كى ہے، اور بيان كيا ہے كہ ايسے لوگ بہتر دور كے بعد پيدا ہونگے.

عمران بن حصين رضى اللہ تعالى عنہما بيان كرتے ہيں كہ رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا:

" ميرى امت كا سب سے بہترين دور ميرا دور ہے، اور پھر اس كے بعد آنے والوں كا، اور پھر اس كے بعد آنے والوں كا ـ عمران رضى اللہ تعالى عنہ بيان كرتے ہيں كہ: مجھے نہيں معلوم كہ نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے اپنے دور كے بعد دو يا تين كا ذكر كيا ـ پھر تمہارے بعد ايسى قوم آئے گى جو گواہى ديں گے اور انہيں گواہى كے ليے بلايا بھى نہيں جائےگا، اور وہ امانتوں ميں خيانت كے مرتكب ٹھرينگے، اور امانت كا خيال نہيں كرينگے، اور نذريں تو مانيں گے ليكن نذر پورى نہيں كرينگے، اور ان ميں موٹاپا ظاہر ہو گا "

صحيح بخارى حديث نمبر ( 2508 ) صحيح مسلم حديث نمبر ( 2535 )

اس بنا پر واجب ہے كہ نذر ماننے والے كو اپنى نذر پورى كرتے ہوئے اتنى رقم صدقہ كرنا ہو گى جتنى نذر مانى ہے، اور اس كے ليے نذر پورا نہ كرنا حلال نہيں، اور نذر مانى ہوئى رقم صدقہ كرنے كى استطاعت ہوتے ہوئے قسم كا كفارہ ادا كرنا كافى نہيں.

ثابت بن ضحاك رضى اللہ تعالى عنہ بيان كرتے ہيں كہ نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كے دور ميں ايك شخص نے بوانہ نامى جگہ ميں اونٹ ذبح كرنے كى نذر مانى تو وہ نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كے پاس آيا اور عرض كى: ميں نے بوانہ ميں اونٹ ذبح كرنے كى نذر مانى ہے.

تو رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا: كيا وہاں جاہليت كے بتوں ميں سے كوئى بت تھا جس كى عبادت كى جاتى تھى ؟

تو صحابہ نے جواب ديا: نہيں

تو رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا: كيا وہاں ان كا كوئى ميلہ ٹھيلہ لگتا تھا؟

تو صحابہ كرام نے جواب ديا: نہيں

تو رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا: جاؤ اپنى نذر پورى كرو؛ كيونكہ اللہ تعالى كى معصيت و نافرمانى كى نذر پورى كرنا جائز نہيں، اور نہ ہى اس ميں جس كا ابن آدم مالك ہى نہيں "

سنن ابو داود حديث نمبر ( 3313 ) حافظ ابن حجر رحمہ اللہ تعالى نے" التلخيص الحبير " ( 4 / 180 ) ميں اسے صحيح قرار ديا ہے.

صنعانى رحمہ اللہ تعالى كہتے ہيں:

يہ حديث اس بات كى دليل ہے كہ جس نے صدقہ يا كسى معين جگہ پر نيكى كرنے كى نذر مانى اور اس جگہ ميں كوئى جاہلى كام نہ ہو تو اس نذر كو ماننا ضرورى ہے.

ديكھيں: سبل السلام ( 4 / 114 ).

ليكن اگر اس شخص كا اس نذر سے مقصد اپنے آپ كو اس فعل سے روكنا اور منع كرنا ہو تو اس وقت اس كا حكم قسم كا ہو گيا اور اس پر قسم كا كفارہ ہے، اور اسے يہ نذر پورى كرنى لازم نہيں.

اس كى مزيد تفصيل سوال نمبر ( 45889 ) كے جواب ميں ديكھيں.

واللہ اعلم .

ماخذ: الاسلام سوال و جواب