اتوار 21 جمادی ثانیہ 1446 - 22 دسمبر 2024
اردو

ويڈيو كيسٹوں كى خريدو فروخت، ٹيلى ويژن اور ويڈيو پسند كرنا

32752

تاریخ اشاعت : 27-05-2005

مشاہدات : 5621

سوال

كيا ويڈيو اور آڈيو كيسٹيں فروخت كرنا حرام ہيں ؟

جواب کا متن

الحمد للہ.

جب ويڈيو اور آڈيو كيسٹيں حرام اشياء سے خالى ہوں تو انہيں فروخت كرنا، سننا اور ديكھنا اور انكى خريدارى مباح ہے.

حرام سے مقصود يہ ہے كہ: وہ كيسٹيں فسق وفجور يا موسيقى يا پھر بازارى اور بے حياء عورتوں كى تصاوير پر مشتمل ہوں، اور اسى طرح اگر وہ كيسٹيں كفر وبدعت اور شرك پر مبنى ہوں تو حرام ہيں، ليكن جو ان كيسٹوں ميں پائے جانے والے كفر و شرك كے مواد كا رد كرنا چاہے اور وہ اس رد كا اہل بھى ہو تو اس كے جائز ہيں.

مستقل فتوى كيمٹى سے مندرجہ ذيل سوال كيا گيا:

كيا گانوں كے كيسٹيں فروخت كرنا جائز ہيں، مثلا ام كلثوم اور فريد اطرش اور اس طرے كے دوسرے فنكاروں كى كيسٹيں ؟

كميٹى كا جواب تھا:

( يہ كيسٹيں فروخت كرنى حرام ہيں، كيونكہ اس ميں پائى جانى والى موسيقى اور گانے حرام ہيں اور ان كا سننا بھى حرام ہے، اور پھر نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم سے صحيح حديث ميں ثابت ہے كہ انہوں فرمايا:

" بلاشبہ جب اللہ تعالى نے كسى چيز كو حرام كيا تو اس كى قيمت بھى حرام كر دي ہے" ) انتہى .

ديكھيں: فتاوى اللجنۃ الدائمۃ للبحوث العلميۃ والافتاء ( 13 / 48 )

شيخ ابن باز رحمہ اللہ تعالى سے ان ويڈيو كيسٹوں كى تجارت كے بارہ ميں سوال كيا گيا جن ميں بے حياء قسم كى عورتيں ہوں، اور اس ميں پيار و محبت اور عشقيہ جنون كے قصص ہوں، اور كيا تاجر كا مال حرام ہے، اور اسے كيا كرنا چاہيے، اور ان كيسٹوں سے كس طرح چھٹكارا حاصل كيا جا سكتا ہے؟

شيخ رحمہ اللہ تعالى كا جواب تھا:

( ان كيسٹوں كو فروخت كرنا اور ان پر راضى ہونا، اس ميں جو كچھ ہے اسے ديكھنا اور سننا حرام ہے، كيونكہ يہ فتنہ و فساد كى دعوت ديتى ہے، ان كيسٹوں كو ضائع كرنا اور انہيں ديكھنے والوں كو روكنا واجب اور ضرورى ہے، تا كہ فساد اور خرابى كے مادہ كو ختم اور مسلمانوں كو فتنہ و فساد كے اسباب سے پاك كيا جاسكے )

ديكھيں: فتاوى اسلاميۃ ( 2 / 369 ).

اور شيخ ابن عثيمين رحمہ اللہ تعالى سے گانے بجانے اور موسيقى اور بے ہودہ اور عشقيہ و محبت و غرام اور فحش كلام پر مشتمل اور فساد، اور دو جنسوں كے مابين اخلاق رذيلہ عام كرنے پر مشتمل كيسٹوں اور اس طرح كى كيسٹيں فروخت كرنے والوں كو دوكان اور جگہ وغيرہ كرايہ دينے كے متعلق سوال كيا گيا.

تو شيخ رحمہ اللہ تعالى كا جواب تھا:

اگر تو يہ كيسٹيں موسيقى اور ہر قسم كے گانے بجانے پر مشتمل ہوں جو آپ نے ذكر كيا ہے اور فسق و فساد اور دونوں جنسوں كے مابين اخلاق رذيلہ اور عشق و محبت اور گرى اور سوختہ كلام پر مشتمل ہوں تو كوئى بھى عقلمند شخص چہ جائيكہ مومن اور مسلمان جو اللہ تعالى كا ڈر ركھے اور اس كے اجروثواب كى اميد ركھنے والا ہو، اس ميں شك نہيں ركھتا كہ ان كيسٹوں كو سننا اور خريدنا حرام اور برائى ہے، كيونكہ يہ اخلاق اور معاشرے كو تباہ كر كے ركھ ديتى ہيں، اور امت كے عام اور خاص سب كو سزا اور عذاب كا مستحق قرار دينے كا باعث بنتى ہيں.

لہذا جس شخص كے پاس بھى ان كيسٹوں ميں سے كچھ ہو اس پر واجب اور ضرورى ہے كہ وہ اللہ تعالى كے سامنے توبہ و استغفار كرے، اور ان كيسٹوں ميں جو كچھ ہے اسے صاف كر كے اس ميں كوئى اور فائدہ مند چيز تقرير وغيرہ ريكارڈ كر سكے.

اور ان كيسٹوں كى تجارت اور فروخت سے حاصل كردہ مال حرام ہے، يہ اس كے ليے حلال نہيں، كيونكہ رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم كا فرمان ہے:

" جب اللہ تعالى نے كسى چيز كو حرام كيا ہے تو اس كى قيمت بھى حرام كردى "

اور رہا مسئلہ اس قسم كى كيسٹوں وغيرہ كے ليے دوكان اور مكان كرايہ پر دينا تو يہ بھى حلال نہيں بلكہ حرام ہے، اس سے حاصل كردہ كرايہ بھى حرام ہے، كيونكہ يہ برائى و گناہ اور ظلم و زيادتى ميں تعاون ہے، اور اللہ تعالى نے ايسا كرنے سے منع كرتے ہوئے فرمايا:

اور تم برائى اور گناہ اور ظلم و زيادتى مي ايك دوسرے كا تعاون مت كرو

اور ان كيسٹوں كى خريدارى كرنے والوں كا گناہ خريدار پر ہے، اور يہ بعيد نہيں كہ فروخت كرنے والا اور كرايہ پر دينے والا شخص بھى ان خريداروں كے گناہ سے كچھ نہ كچھ حاصل كرے اور خريدار كے گناہ ميں كچھ بھى كمى نہ ہو. واللہ تعالى اعلم.

ديكھيں: فتاوى اسلاميۃ ( 2 / 370 ).

اور مستقل فتوى كميٹى كے فتاوى جات ميں ہے كہ:

اگر آپ ٹيلى ويزن اور ويڈيو پر كنٹرول كرنے كى استطاعت ركھتے ہوں اور اسے صرف دينى اور علمى تقارير و دروس اور قرآن مجيد كى تلاوت اور تجارتى و سياسى خبريں وغيرہ مباح امور ديكھيں اور سنيں تو پھر ٹيلى ويزن اور ويڈيو اپنے گھر ميں ركھ سكتے ہيں.

اور اگر ايسا نہ كرسكيں اور آپ كا كنٹرول نہ ہو تو پھر گھر ميں ويڈيو اور ٹى وى ركھنا جائز نہيں، كيونكہ ان كے خريداروں ميں اكثريت ايسى ہے جو اسے كھيل تماشہ اور حرام كاموں ميں استعمال كرتے ہيں، بلكہ جو كچھ آپ كے پاس ہے آپ اسے ضائع كرديں تا كہ شرو برائى سے چھٹكارا حاصل ہو اور اس ميں آپ كو بھى اجروثواب حاصل ہو گا، ليكن اگر آپ كو كوئى ايسا شخص ملے جس كے بارہ ميں ظن غالب يہ ہو كہ وہ انہيں مباح اور حلال اشياء ميں استعمال كرے گا تو يہ دونوں اشياء ايسے شخص كو فروخت كرنے ميں كوئى حرج نہيں.

ديكھيں: فتاوى اللجنۃ الدائمۃ للبحوث العلميۃ والافتاء ( 13 / 46 ).

واللہ اعلم .

ماخذ: الاسلام سوال و جواب