الحمد للہ.
اول:
سامان تجارت کی زکاۃ ادا کرتے ہوئے واجب یہ ہے کہ: سال گزرنے پر فروختگی کے لیے تیار مال کی قیمت لگائی جائے، اگر وہ بذات خود نصاب کے برابر ہو جائے ، یا اسے دیگر سونا، چاندی، یا نقدی نوٹ سے ملا کر نصاب پورا کیا جائے تو اس میں سے 2.5 فیصد زکاۃ ادا کرنا واجب ہے۔
اور اگر دکان مشترکہ ہے، تو پھر ہر شراکت دار کے حصے کو دیکھا جائے گا، اگر وہ حصہ بذات خود نصاب ہے، یا کسی دوسرے مال کو ملانے سے نصاب تک پہنچ رہا ہے تو اس پر زکاۃ ہے۔
یہاں تمام شراکت داروں کے مجموعی مال کی طرف نہیں دیکھا جائے گا، جیسے کہ یہ بات پہلے سوال نمبر: (147855) کے جواب میں واضح کی جا چکی ہے۔
دوم:
تاجر پر لازم ہے کہ فروختگی کے لیے تیار مال کی قیمت لگائے، اپنی ملکیت میں موجود رقم اور لوگوں سے وصول ہونے والی رقم کا تخمینہ لگائے، اور ان سب کو جمع کر کے اس میں 2.5 فیصد یعنی چالیسواں حصہ زکاۃ ادا کرے۔
مذکورہ فارمولے کے مطابق زکاۃ درج ذیل چیزوں میں ہو گی:
فروختگی کے لیے تیار چیزوں کی قیمت +پاس موجود نقدی رقم + وہ قرضے جن کے ملنے کی امید ہے۔
اس بنا پر: آپ کے ذمہ اس قرض کی بھی زکاۃ ہے جو آپ نے اپنے شراکت داروں سے لینا ہے اور اس کے ملنے کی بھی امید ہے۔
لیکن ایسا قرض جو کسی ایسے شخص کے پاس ہے جو دینے کی حالت میں نہیں ہے یا وہ ویسے ہی ٹال مٹول کر رہا ہے تو پھر اس کی زکاۃ تبھی دی جائے گی جب وہ قرض آپ کو واپس ملے گا، چنانچہ راجح موقف کے مطابق اس کی اسی وقت ایک بار زکاۃ دینا واجب ہو گا۔
واللہ اعلم