الحمد للہ.
اول:
قرض حاصل کرنے کے لیے دلالی کا کردار ادا کرنے کا حکم
قرض حسنہ، یا کسی پراپرٹی کی بذریعہ بینک خریداری وغیرہ میں دلال اس وقت بن سکتے ہیں جب ان کا یہ لین دین شرعی تقاضوں کے مطابق ہو۔
اس لیے سودی قرض یا حرام طریقے سے پراپرٹی کے حصول کے لیے دلال بننا جائز نہیں ہے؛ کیونکہ اس طرح گناہ کے کام میں تعاون ہو گا۔
دوم:
قرض کے حصول کے لیے دلالی کی اقسام
حصول قرض یا زمین کی خریداری کے لیے دلالی کرنے والی کمپنیوں کی تین صورتیں ہیں، بسا اوقات محض فروخت کنندہ یا قرض دینے والوں کے بارے میں رہنمائی فراہم کرتی ہیں، یا پھر اپنی ساکھ اور شہرت کی بدولت دلالی کی خدمات پیش کرتی ہیں، یا پھر قرض خواہ یا فروخت کنندہ کے سامنے ضامن بن کر سامنے آتی ہیں، ان میں سے ہر صورت کی تفصیل درج ذیل ہے:
1-اگر کمپنی کا کردار محض رہنمائی ہے، تو دلالی کی یہ نوعیت جائز ہے، تو اس میں راجح موقف کے مطابق کمیشن کی رقم مختص بھی کی جا سکتی ہے اور قرض کی مقدار یا خریدی گئی پراپرٹی وغیرہ کی قیمت میں سے مخصوص تناسب بھی مقرر کیا جا سکتا ہے۔
2-اگر کمپنی اپنی ساکھ اور شہرت کی بدولت دلالی کی خدمات پیش کرتی ہے تو اس صورت میں کمیشن لینے کے بارے میں اختلاف ہے، تاہم راجح یہ ہے کہ یہ صورت بھی جائز ہے، یہ شافعی، حنبلی اور بعض شافعی علمائے کرام کا موقف ہے۔
جیسے کہ فقہ شافعی کی کتاب: "مغنی المحتاج" (3/35) میں ہے کہ:
"امام ماوردی رحمہ اللہ کہتے ہیں: اگر کوئی شخص کسی کو کہے : تم میرے لیے 100 روپے کہیں سے قرض لو، میں تمہیں اس میں سے 10 روپے دوں گا، تو یہ جعالہ [جائز انعامی رقم کے لیے استعمال کی جانے والی فقہی اصطلاح۔ مترجم] میں شامل ہو گا۔" ختم شد
اسی طرح فقہ حنبلی کی کتاب: "الروض المربع" کے باب القرض میں ہے کہ:
"جب کوئی کہے: میرے لیے 100 روپے قرض کہیں سے لو، تو تمہیں 10 روپے ملیں گے، تو یہ صحیح ہو گا؛ کیونکہ یہ 10 روپے اس کی ساکھ اور محنت کے بدلے میں ہے۔"
ایسے ہی فقہ حنبلی کی ایک اور کتاب "الإنصاف" (5/134) میں ہے کہ:
"اگر کوئی شخص کسی کے لیے ذاتی تعلقات کی بنا پر قرض کی رقم فراہم کروانے پر انعامی رقم مقرر کر دیتا ہے تو یہ صحیح ہے؛ کیونکہ یہ انعامی رقم اس کے ذاتی تعلقات کو استعمال کرنے کی بنا پر ہے۔" ختم شد
3-اور اگر یہ کمپنی قرض خواہ یا فروخت کنندہ کے سامنے مقروض یا خریدار کا ضامن بن کر سامنے آتی ہے تو پھر ضمانت کے عوض کمیشن وصول کرنا جائز نہیں ہے؛ کیونکہ کسی کی ضمانت دینا نیکی کا عقد ہے، اور نیکی کے عقد پر معاوضہ لینا جائز نہیں ۔
جیسے کہ ابن المنذر رحمہ اللہ کہتے ہیں:
"جن علمائے کرام سے ہم نے علم حاصل کیا ہے ان تمام کا اس بات پر اجماع ہے کہ اگر کوئی شخص کسی مقروض کا معاوضہ لے کر ضامن بنتا ہے تو یہ حلال بھی نہیں اور جائز بھی نہیں ۔" ختم شد
الإشراف على مذاهب أهل العلم (6/ 230)
اسی طرح ابن جریر رحمہ اللہ اپنی کتاب: "اختلاف الفقهاء" (ص 9) میں لکھتے ہیں:
"اگر کوئی آدمی کسی کا مقروض ہو ، اور یہی مقروض شخص قرض خواہ کی رقم کے عوض کسی اور کے سامنے مقروض کا ضامن بن جائے تو اس طرح سے ضامن بننا باطل ہے۔" ختم شد
ایسے ہی المعايير الشرعية ص 251 میں ہے کہ:
"معاوضے کے بدلے میں ضامن بننے کی صورت میں چاروں فقہی مذاہب متفقہ طور پر اسے منع قرار دیتے ہیں، اسلامی فقہ اکادمی کی جانب سے اس بارے میں متفقہ قرارداد بھی جاری ہو چکی ہے۔" ختم شد
واللہ اعلم