سوموار 22 جمادی ثانیہ 1446 - 23 دسمبر 2024
اردو

جب وبائی بیماریاں پھیل چکی ہوں یا پھیلنے کا خدشہ ہو تو نماز جمعہ اور باجماعت نماز کے لیے حاضر ہونے کا حکم

سوال

جب وبائی بیماریاں پھیل چکی ہوں یا پھیلنے کا خدشہ ہو تو نماز جمعہ اور باجماعت نماز کے لیے حاضر ہونے کا شریعت میں کیا حکم ہے؟

جواب کا متن

الحمد للہ.

مملکت سعودی عرب میں علمائے کرام کی سپریم کونسل نے اپنا فیصلہ نمبر: (246) بتاریخ 16 رجب 1441 ہجری کو جاری کیا جس کے متن کا ترجمہ درج ذیل ہے:-

"تمام تعریفیں اللہ کے لیے ہیں جو کہ تمام جہانوں کو پالنے والا ہے۔ درود و سلام نازل ہوں ہمارے نبی محمد ، آپ کی آل، اور آپ کے تمام صحابہ پر، حمد و صلاۃ کے بعد:

علمائے کرام کی سپریم کونسل نے 16، رجب ، 1441 ہجری، بروز بدھ ، ریاض، میں منعقد ہونے والے اپنے 24 ویں غیر معمولی اجلاس میں پیش کردہ ایک مسئلے پر غور و فکر کیا ہے کہ جب وبائی امراض پھیل چکی ہوں یا پھیلنے کا خدشہ ہو تو نماز جمعہ اور باجماعت نماز ادا کرنے کی رخصت ہے؟ چنانچہ تمام اسلامی شرعی نصوص ، مقاصد شریعت، قواعد شریعت، اور اس مسئلے کے متعلق اہل علم کی گفتگو کو پرکھ کر علمائے کرام کی سپریم کونسل درج ذیل بیانیہ پیش کرتی ہے:

اول: وبائی مرض سے متاثر شخص پر جمعہ یا نماز با جماعت کے لیے مسجد میں حاضر ہونا حرام ہے؛ کیونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کا فرمان ہے: (بیمار کو تندرست شخص کے پاس نہ لایا جائے) متفق علیہ، اسی طرح آپ صلی اللہ علیہ و سلم کا یہ بھی فرمان ہے کہ: (جب تم کسی علاقے کے متعلق طاعون کی خبر سنو تو وہاں مت جاؤ، اور اگر تمہارے علاقے میں طاعون آ جائے تو تم اپنے علاقے سے مت نکلو۔) متفق علیہ۔

دوم: جس شخص کے بارے میں متعلقہ ادارے یہ فیصلہ جاری کریں کہ اسے قرنطینہ [بیماروں کو الگ تھلگ رکھنے کی جگہ]میں رکھا جائے گا؛ تو اس پر ان کے فیصلے کا احترام کرنا ضروری ہے، اسے چاہیے کہ نماز با جماعت اور جمعہ کی نماز کے لیے حاضر نہ ہو، اپنی نمازیں گھر میں ہی پڑھے یا قرنطینہ میں پڑھے، اس کی دلیل شرید بن سوید ثقفی رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ : "بنو ثقیف کے وفد میں ایک کوڑھ زدہ شخص تھا تو آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے اس کی طرف پیغام بھیجا کہ ہم نے تجھ سے بیعت کر لی ہے، تم [ہماری طرف نہ آؤ ]واپس چلے جاؤ" اس واقعے کو امام مسلم نے بیان کیا ہے۔

سوم: جس شخص کے بارے میں خدشہ ہو کہ اسے نقصان پہنچ سکتا ہے، یا وہ کسی دوسرے کے لیے مضر بن سکتا ہے، تو ایسے شخص کے لیے جمعہ اور نماز تنہا ادا کرنے کی رخصت ہے؛ کیونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کا فرمان ہے: (نہ کوئی اپنے آپ کو نقصان پہنچائے اور نہ ہی کسی دوسرے کو)اس حدیث کو ابن ماجہ نے روایت نے کیا ہے۔

چنانچہ مذکورہ بالا تمام تر صورتوں میں جو شخص بھی جمعہ کے لیے حاضر نہ ہو تو وہ نماز ظہر کی چار رکعت ادا کرے گا۔

اس کے ساتھ ساتھ سپریم کونسل تمام لوگوں کو تاکیدی نصیحت بھی کرتی ہے کہ متعلقہ اداروں کی جانب سے جاری ہونے والی تعلیمات، ہدایات، اور نظم و ضبط کی سختی کے ساتھ پابندی کریں، ساتھ ہی یہ بھی تاکید کرتی ہے کہ تمام لوگ تقوی الہی اپنائیں، اللہ سبحانہ و تعالی کی بارگاہ میں گڑگڑا کر دعائیں کریں کہ اللہ تعالی اس وبا کو رفع فرما دے، فرمانِ باری تعالی ہے:
 وَإِنْ يَمْسَسْكَ اللَّهُ بِضُرٍّ فَلَا كَاشِفَ لَهُ إِلَّا هُوَ وَإِنْ يُرِدْكَ بِخَيْرٍ فَلَا رَادَّ لِفَضْلِهِ يُصِيبُ بِهِ مَنْ يَشَاءُ مِنْ عِبَادِهِ وَهُوَ الْغَفُورُ الرَّحِيم 
ترجمہ: اور اگر اللہ تعالی آپ کو کوئی تکلیف پہنچانا چاہے تو اس کے سوا کوئی اسے دور کرنے والا نہیں ۔اور اگر آپ سے کوئی بھلائی کرنا چاہے تو کوئی اسے ٹالنے والا نہیں، وہ اپنے بندوں میں سے جسے چاہے اپنے فضل سے نوازتا ہے اور وہ بخشنے والا اور رحم کرنے والا ہے۔ [يونس: 107]

مزید یہ بھی فرمایا:  وَقَالَ رَبُّكُمُ ادْعُونِي أَسْتَجِبْ لَكُمْ 
ترجمہ: اور تمہارے پروردگار نے فرمایا: تم مجھے پکارو، میں تمہاری دعا قبول کروں گا۔[غافر: 60]

اللہ تعالی درود و سلامتی نازل فرمائے ہمارے نبی محمد، آپ کی آل اور تمام صحابہ کرام پر۔" ختم شد

ماخوذ از : https://www.spa.gov.sa/2047028

واللہ اعلم

ماخذ: الاسلام سوال و جواب