سوموار 22 جمادی ثانیہ 1446 - 23 دسمبر 2024
اردو

علم غیب اور اس کی اقسام

سوال

مجھے میرے دوست نے علم غیب سے متعلق سوال پوچھا ہے کہ: ہمیں یقین ہے کہ اللہ تعالی ماضی اور مستقبل کی تمام باتیں جانتا ہے، بلکہ وہ بھی جانتا ہے جو نہیں ہو گا، اور اگر ہوتا تو کیسے ہوتا؟ یہ بھی اللہ تعالی جانتا ہے۔ اللہ تعالی کا علم محفوظ کتاب یعنی لوح محفوظ میں تب سے ہے جب کچھ بھی نہیں تھا۔ تو کیا اگر میں کسی مخصوص وقت کا الارم لگا کر اپنے دوستوں سے کہوں کہ فلاں وقت میں الارم بولے گا اور میں وہی وقت بتلاؤں جو میں نے خود سیٹ کیا ہوا ہے تو کیا میں عالم الغیب بن گیا ہوں؟!! جواب قطعی طور پر یہ ہو گا کہ نہیں، اور حقیقت بھی یہی ہے کہ میں غیب نہیں جانتا۔ تو اب سوال یہ ہے کہ جب ہم یہ کہتے ہیں کہ اللہ تعالی کو علم الغیب ہے، حالانکہ اسی نے اس کائنات کی ہر ہر حرکت اس کی تخلیق سے پہلے لکھی ہوئی ہے، تو یہ تو بالکل ایسے ہی جیسے ابھی الارم کی مثال میں ذکر کیا ہے!؟

الحمد للہ.

اول: علم الغیب کی اقسام:

غیب دو طرح کا ہے:

 مطلق غیب: اور اس قسم کا علم غیب اللہ تعالی کے علاوہ کسی کے پاس نہیں ہے، مثلاً: قیامت کب آئے گی، بارش کب نازل ہو گی وغیرہ۔

نسبی غیب: یعنی ایسا غیب کا علم جو مخلوقات میں سے کچھ لیے غیب ہو اور کچھ کے لیے غیب نہ ہو، تو ایسی چیزوں کے علم کو علم الغیب اس کے لیے غیب کہیں گے جسے اس کا علم نہیں ہے، اور جسے اس کا علم ہے اس کے لیے وہ غیب نہیں ہے۔

لہذا اسلام میں غیب کا مطلب یہ ہے کہ: جو بھی چیز انسانی حس سے غیب ہو ۔ چاہے اس چیز کا علم انسانوں کے لیے غیب ہی رہے اور انسان اس کے ادراک سے عاجز ہوں کہ اس چیز کا علم صرف اللہ تعالی کے پاس ہی ہو، یا پھر انسان کو اللہ تعالی یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کے ذریعے سے یقینی طور پر علم ہو جائے۔

ایسا بھی ممکن ہے کہ انسان غیب کی کچھ چیزوں کو اپنے عقلی شعور یا اسی طرح کے دیگر وسائل کی مدد سے جان لے، مثلاً: کچھ ایسی چیزیں جن تک انسان کی بذات خود رسائی ممکن نہیں ہے لیکن اپنی حس کو معاون آلات کے ذریعے وسعت دے جیسے کہ بصارت کے لیے انتہائی طاقتور دور بین وغیرہ استعمال کرے ۔ تو ایسی چیزوں تک رسائی حاصل کرنا نسبی غیب سے تعلق رکھتا ہے، جیسے کہ اس کی تفصیلات آئندہ آ رہی ہے۔

ایمان بالغیب کی اہمیت:

ایمان بالغیب انسان کو اس کائنات کی دیگر چیزوں سے ممتاز کرنے والی خصوصی خوبی ہے؛ اس کی وجہ یہ ہے کہ محسوس ہونے والی چیزوں کو محسوس کرنے میں تو حیوان بھی انسان کے ساتھ ہیں، لیکن غیب ہی ایک ایسی چیز ہے جس پر ایمان لانے کی اہلیت صرف انسان کے پاس ہے، حیوانات کے پاس نہیں ہے؛ اسی لیے ایمان بالغیب تمام کے تمام آسمانی ادیان کی بنیادی کڑی ہے۔ چنانچہ الہامی ادیان میں بہت سے ایسے امور ہیں جنہیں حاصل کرنے کے لیے کتاب و سنت کی ثابت شدہ وحی کے بغیر کوئی چارہ کار نہیں، مثلاً: اللہ تعالی کی صفات و افعال کے بارے میں معلومات، ساتوں آسمانوں اور ان کے درمیان چیزوں کی معلومات، فرشتوں، انبیائے کرام، جنت و جہنم، شیاطین ، جن اور دیگر ایمانی اور غیبی حقائق جن کے بارے میں معلومات حاصل کرنا اللہ تعالی اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کی سچی خبروں کے بغیر ممکن ہی نہیں ہے۔

غیب کی اقسام:

1-مطلق غیب: اس سے مراد وہ علم غیب ہے جس کے بارے میں جاننے کے لیے وسائل اور ذرائع یا حواس کچھ بھی مفید نہ ہوں، اس کی پھر دو قسمیں ہیں:

پہلی قسم: جس کی ساری تفصیلات اللہ تعالی نے رسولوں پر وحی کے ذریعے لوگوں کو بتلا دی ہیں جو ان بتلائی ہوئی چیزوں کو لوگوں تک پہنچاتے ہیں۔

اس کی مثال: شیاطین اور جنوں کے بارے میں خبریں وغیرہ ، مثلاً: ان کے بارے میں قرآن کریم میں ہے کہ:
قُلْ أُوحِيَ إِلَيَّ أَنَّهُ اسْتَمَعَ نَفَرٌ مِنَ الْجِنِّ فَقَالُوا إِنَّا سَمِعْنَا قُرْآنًا عَجَبًا * يَهْدِي إِلَى الرُّشْدِ فَآمَنَّا بِهِ وَلَنْ نُشْرِكَ بِرَبِّنَا أَحَدًا
 ترجمہ: کہہ دے میری طرف وحی کی گئی ہے کہ بے شک جنوں کی ایک جماعت نے کان لگا کر سنا تو انھوں نے کہا کہ بلاشبہ ہم نے ایک عجیب قرآن سنا ہے۔ [1] جو سیدھی راہ کی طرف لے جاتا ہے تو ہم اس پر ایمان لے آئے اور (اب) ہم اپنے رب کے ساتھ کسی کو کبھی شریک نہیں کرینگے۔ [الجن: 1 - 2]

دوسری قسم: اس سے مراد وہ علم غیب ہے جو صرف اور صرف اللہ تعالی کے پاس ہے، اللہ تعالی نے اس کے بارے میں اپنی مخلوقات میں سے کسی کو بھی اطلاع نہیں دی، حتی کہ کسی ارسال کردہ نبی کو بھی اور کسی مقرب فرشتے کو بھی اطلاع نہیں دی، علم غیب کی یہی قسم اللہ تعالی کے اس فرمان میں مراد ہے:
وَعِنْدَهُ مَفَاتِحُ الْغَيْبِ لَا يَعْلَمُهَا إِلَّا هُوَ
 ترجمہ: اور اسی کے پاس ہی غیب کی کنجیاں ہیں، جنہیں صرف وہی جانتا ہے۔[الانعام: 59]

علم غیب کی اسی قسم کی مثال قیامت قائم ہونے کا وقت بھی ہے، اسی طرح موت کی جگہ اور وقت اور موت کا سبب یہ سب کچھ اللہ تعالی کے علم میں ہے، ایسے ہی اللہ تعالی نے اپنے کچھ نام کسی کو نہیں بتلائے، وہ بھی اسی قسم میں آتے ہیں، اس کی دلیل اللہ تعالی کا یہ فرمان ہے:
إِنَّ اللَّهَ عِنْدَهُ عِلْمُ السَّاعَةِ وَيُنَزِّلُ الْغَيْثَ وَيَعْلَمُ مَا فِي الْأَرْحَامِ وَمَا تَدْرِي نَفْسٌ مَاذَا تَكْسِبُ غَدًا وَمَا تَدْرِي نَفْسٌ بِأَيِّ أَرْضٍ تَمُوتُ
 ترجمہ: بے شک اللہ اسی کے پاس قیامت کا علم ہے اور وہ بارش برساتا ہے اور وہ جانتا ہے جو کچھ ماؤں کے پیٹوں میں ہے اور کوئی شخص نہیں جانتا کہ وہ کل کیا کمائی کرے گا اور کوئی شخص نہیں جانتا کہ وہ کس زمین میں مرے گا۔ بے شک اللہ سب کچھ جاننے والا، پوری خبر رکھنے والا ہے۔ [لقمان: 34]

ایک حدیث مبارکہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم اپنی دعا میں فرماتے ہیں: اَللَّهُمَّ إِنِّي أَسْأَلُكَ بِكُلِّ اسْمٍ هُوَ لَكَ سَمَّيْتَ بِهِ نَفْسَكَ أَوْ عَلَّمْتَهُ أَحَداً مِنْ خَلْقِكَ أَوِ اسْتَأْثَرْتَ بِهِ فِيْ عِلْمِ الْغَيْبِ عِنْدَكَ... ترجمہ: یا اللہ! میں تجھ تیرے ہر اس نام کا واسطہ دے کر مانگتا ہوں جو توں نے اپنا خود رکھا ہے، یا تو نے اپنا وہ نام اپنی کسی مخلوق کو سکھایا ہے، یا اسے اپنے پاس علم غیب میں محفوظ رکھا ہے۔

2-نسبی مقید غیب ، اس سے مراد وہ غیب ہے جو کسی کسی کو معلوم نہیں ہیں، مثلاً: تاریخی واقعات وغیرہ؛ کیونکہ یہ واقعات جس کو معلوم نہیں ہیں ان کے لیے غیب ہیں، اسی لیے اللہ تعالی نے نبی مکرم صلی اللہ علیہ و سلم کو آل عمران کا قصہ بیان کرنے کے بعد فرمایا:
ذَلِكَ مِنْ أَنْبَاءِ الْغَيْبِ نُوحِيهِ إِلَيْكَ وَمَا كُنْتَ لَدَيْهِمْ إِذْ يُلْقُونَ أَقْلَامَهُمْ أَيُّهُمْ يَكْفُلُ مَرْيَمَ وَمَا كُنْتَ لَدَيْهِمْ إِذْ يَخْتَصِمُونَ
 ترجمہ: یہ غیب کی کچھ خبریں ہیں، ہم اسے تیری طرف وحی کرتے ہیں اور تو اس وقت ان کے پاس نہ تھا جب وہ اپنے قلم پھینک رہے تھے کہ ان میں سے کون مریم کی کفالت کرے اور نہ تو اس وقت ان کے پاس تھا جب وہ جھگڑ رہے تھے۔ [آل عمران: 44]

3-غیر نسبی مقید غیب: اس سے مراد وہ غیبی چیزیں ہیں جو حسی قوت کی پہنچ سے دور ہوں، چاہے یہ دوری زمانے کی دوری ہو یا مکان کی، تا آں کہ یہ زمانی یا مکانی حجاب ختم ہو جائے، جیسے کہ اللہ تعالی کا فرمان ہے:
فَلَمَّا قَضَيْنَا عَلَيْهِ الْمَوْتَ مَا دَلَّهُمْ عَلَى مَوْتِهِ إِلَّا دَابَّةُ الْأَرْضِ تَأْكُلُ مِنْسَأَتَهُ فَلَمَّا خَرَّ تَبَيَّنَتِ الْجِنُّ أَنْ لَوْ كَانُوا يَعْلَمُونَ الْغَيْبَ مَا لَبِثُوا فِي الْعَذَابِ الْمُهِينِ 
 ترجمہ: پھر جب ہم نے ان پر موت کا حکم بھیج دیا تو پھر ان کی خبر جنات کو کسی نے نہ دی سوائے گھن کے کیڑے کے جو ان کے عصا کو کھا رہا تھا۔ پس جب (سلیمان) گر پڑے تو اس وقت جنوں نے جان لیا کہ اگر وہ غیب دان ہوتے تو اس ذلت کے عذاب میں مبتلا نہ رہتے۔ [سبأ: 14] تو یہ بات جنوں نے سیدنا سلیمان علیہ السلام کی وفات کے وقت کہی تھی۔

غیبی امور کے متعلق مثالیں:

1-روح، اللہ تعالی نے اس کے بارے میں فرمایا:
وَيَسْأَلُونَكَ عَنِ الرُّوحِ قُلِ الرُّوحُ مِنْ أَمْرِ رَبِّي وَمَا أُوتِيتُمْ مِنَ الْعِلْمِ إِلَّا قَلِيلًا
 ترجمہ: لوگ آپ سے روح کے متعلق پوچھتے ہیں۔ آپ ان سے کہئے کہ ’’روح میرے پروردگار کا حکم ہے اور تمہیں تو بس تھوڑا سا علم دیا گیا ہے‘‘ [الاسراء: 85]

2- قیامت کی چھوٹی بڑی نشانیاں جن کے بارے میں نبی مکرم صلی اللہ علیہ و سلم نے حدیث جبریل میں وضاحت فرمائی ہے: (اور توں دیکھے گا ننگے پاؤں اور برہنہ جسموں والے فقیر اور بکریوں کے چرواہے عمارتیں بناتے ہوئے مقابلہ بازی کریں گے۔ )

تو نبی مکرم صلی اللہ علیہ و سلم نے جو چیزیں بیان کی ہیں ان میں سے کچھ واقعی رونما ہو چکی ہیں ، اسی طرح قیامت کی بڑی نشانیوں میں سے دجال کی حدیث بھی ہے کہ دجال آخر زمانے میں رونما ہو گا، اسی طرح حدیث دابہ بھی کہ یہ جانور بھی آخری زمانے میں رونما ہو گا۔" ختم شد
كتاب" العقيدة"، وزارة الأوقاف والشؤون الإسلامية ، مکتبہ شاملہ

اس ساری تفصیل کے بعد آپ کے لیے واضح ہو گیا ہو گا کہ آپ کے دوست نے جو کچھ کیا ہے وہ نسبی غیب سے تعلق رکھتا ہے، مطلق غیب سے تعلق نہیں رکھتا، اس لیے ایسی باتوں کا علم ہو جانا جن کے مادی، حسی اور مشاہداتی اسباب ہوں اس میں کوئی اشکال والی بات نہیں ہے۔

لیکن اس بات کے ساتھ یہ چیز بھی شامل کریں جو کسی عاقل سے مخفی بھی نہیں ہے کہ کتنے ہی ایسے کام ہیں جو کہنے والوں کے کہنے کے باوجود اسی طرح نہیں ہوتے جیسے کہا جاتا ہے چاہے کوئی کتنا ہی بڑا ماہر اور سائنس دان ہی کیوں نہ ہو، ہم دیکھتے ہیں کہ کتنے لوگ ٹرین کے وقت پر پہنچنے کی بات کرتے ہیں یا فلائٹ کے وقت پر پہنچنے کی بات کرتے ہیں لیکن کبھی یہ چیزیں وقت سے لیٹ بھی ہو جاتی ہیں، یا کوئی ماہر جنین مختلف آلات کے ذریعے جنین کے بارے میں اپنی آرا پیش کرتا ہے لیکن جنین ان سے بالکل مختلف ہوتا ہے، آپ ہی کی مثال لے لیں کہ ایسا ممکن نہیں تھا کہ آپ خود ہی الارم وقت سے پہلے بند کر دیں تو الارم اس وقت پر بجے گا ہی نہیں، یا اس کے سیل ختم ہو جائیں تو اس میں بجنے کی صلاحیت ہی ختم ہو جائے ۔۔۔

ایسی کمزور چیزوں کے ذریعے اشکال پیش کرنا بذات خود کمزوری اور بے وقعتی ہے، ایسے اشکالات کا جواب دینا کوئی مشکل نہیں ہے، ایسے خیالات تبھی انسان کے ذہن میں آتے ہیں جب دل میں نور نہ ہو تو شیطان خالی جگہ پا کر حملہ کر دیتا ہے، اور ایسی چیز ذہن میں ڈال دیتا ہے جس کی کوئی حقیقت نہیں ہوتی، ایسی باتوں میں کوئی وزن نہیں ہوتا۔

دوم: کتابت، قضا و قدر پر ایمان لانے کے مراتب میں سے ایک ہے مرتبہ ۔

لکھی ہوئی تقدیر جسے کتابت کہا جا رہا ہے اس کا سوال سے بالکل بھی تعلق نہیں ہے، ہمیں تو اس مثال کے ساتھ ایسے سوال پر تعجب ہو رہا ہے۔

کیونکہ یہ سوال تو تب بنتا جب اللہ تعالی نے ہماری طرف وحی کی ہوتی کہ الارم بالکل نہیں بجے گا، لیکن پھر بھی الارم بج جائے۔ تو ایسی صورت میں بتلائی گئی خبر حقیقت سے متصادم ہو تی۔

لیکن اگر کوئی شخص ماضی، یا حاضر یا مستقبل کے متعلق ایسی چیز جان لے جو ابھی تک رونما نہیں ہوئی، لیکن وہ اپنے علم اور تجربے کی بنیاد پر معلوم کر لیتا ہے، تو اس میں اور تقدیر کے تحریری شکل میں ہونے میں کیا اشکال ہے؟ کیونکہ لوح محفوظ میں تو قیامت تک جو کچھ بھی ہونے والا ہے وہ سب کچھ لکھا ہوا ہے؟!

بہ ہر حال، کتابت قضا و قدر پر ایمان لانے کے مراتب میں سے ایک مرتبہ ہے، جس کا مطلب یہ ہے کہ: اللہ تعالی پر ایمان لانا کہ اللہ تعالی نے لوح محفوظ میں آسمانوں اور زمین کی تخلیق سے 50 ہزار سال قبل یہ سب کچھ لکھا ہوا ہے۔

اور تقدیر پر ایمان لانے کے لوازمات میں یہ بھی شامل ہے کہ آپ درج ذیل امور پر ایمان لائیں:

-انسان کا ذاتی ارادہ اور مشیئت ہے اسی ارادے کی بدولت انسان اپنے تمام کام سر انجام دیتا ہے، جیسے کہ اللہ تعالی نے انسانی ارادے اور مشئیت کا تذکرہ کرتے ہوئے فرمایا:  لِمَنْ شَاءَ مِنْكُمْ أَن يَّسْتَقِيْمَ ترجمہ: تم میں سے اس کے لیے جو سیدھے راستے پر چلنا چاہے۔[التکویر: 28] ، اسی طرح فرمایا:  لَا يُكَلِّفُ اللهُ نَفْساً إِلَّا وُسْعَهَا ترجمہ: اللہ تعالی کسی جان کو اس کی طاقت سے بڑھ کر مکلف نہیں بناتا۔[البقرۃ: 286]
[اس آیت سے محل استشہاد یہ ہے کہ: اللہ تعالی انسانی قدرت اور طاقت سے بڑھ کر جب حکم نہیں دیتا تو اس کا مطلب واضح ہوا کہ بندے کی قدرت اور ارادہ بھی ہے۔ مترجم]

-انسانی مشیئت اور قدرت اللہ تعالی کی قدرت اور مشیئت سے خارج نہیں ہے؛ کیونکہ اللہ تعالی نے ہی انسان کو چیزوں میں تفریق اور امتیاز کرنے کی صلاحیت عطا فرمائی ہے، اسی لیے اللہ تعالی نے واضح فرمایا:  وَمَا تَشَاءُوْنَ إِلَّا أَن يَّشَاءَ اللهُ رَبُّ الْعَالَمِيْنَ ترجمہ: اور جب تک اللہ رب العالمین نہ چاہے تمہارے چاہنے سے کچھ نہیں ہوتا۔[التکویر: 29]

اس بارے میں مزید کے لیے آپ سوال نمبر: (49004 ) کا جواب ملاحظہ کریں۔

تو اگر آپ نے الارم خود سیٹ کیا اور آپ جانتے ہیں کہ الارم مقررہ وقت پر بجے گا، تو اگر الارم مقررہ وقت پر بج جائے تو یہ بھی اللہ تعالی نے تقدیر میں لکھا ہوا تھا، اور اللہ تعالی نے اس کے تمام تر اسباب پیدا فرمائے، آپ کو صرف توقع تھی کہ الارم بجے گا، وگرنہ یہ ممکن تھا کہ کوئی بھی ایسی رکاوٹ کھڑی ہو جاتی جس سے الارم بج ہی نہ پاتا، تو نہ بجنے کی صورت میں بھی اللہ تعالی نے اسے اپنے پاس لکھا ہوا تھا اور یہی اس کی تقدیر تھی۔

یہاں یہ بات بھی واضح ہو جائے کہ کتابت کی بھی دو قسمیں ہیں:

تقدیر کی ایسی کتابت جو کبھی بھی نہ تبدیل ہو گی اور نہ ہی اس میں رد و بدل ہو سکتا ہے، اس سے مراد لوح محفوظ ہے۔

اور ایک ایسی کتابت بھی ہے جس میں تبدیلیاں ہوتی رہتی ہیں، اس سے مراد فرشتوں کے ہاتھوں میں موجود تحریری ریکارڈ ہے، یہ تحریری ریکارڈ آخر کار اسی ریکارڈ کے مطابق بن جاتا ہے جو اللہ تعالی نے لوح محفوظ میں لکھا ہوا ہے، یہ مفہوم اللہ تعالی کے فرمان: يَمْحُوا اللَّهُ مَا يَشَاءُ وَيُثْبِتُ وَعِنْدَهُ أُمُّ الْكِتَابِ ترجمہ: اللہ تعالی جو چاہتا ہے مٹا دیتا ہے، اور جو چاہتا ہے ثابت رکھتا ہے، اور ام الکتاب [لوحِ محفوظ] تو اسی کے پاس ہے۔[الرعد: 39] کا ایک مفہوم ہے۔

اور یہاں سے ہمیں یہ بھی سمجھ میں آ گیا کہ جو صحیح حدیث میں آتا ہے کہ صلہ رحمی سے عمر میں اضافہ ہوتا ہے، یا رزق میں فراخی آتی ہے، یا اسی طرح حدیث میں ہے کہ دعا تقدیری فیصلوں کو مسترد کر دیتی ہے، ان سب کا مطلب یہ ہے کہ اللہ تعالی کے علم میں ہوتا ہے کہ اس کا فلاں بندہ صلہ رحمی کرے گا، یا وہ دعا کرے گا تو اس کے لیے لوح محفوظ میں فراخی رزق اور عمر میں اضافہ لکھا ہوا ہوتا ہے۔

واللہ اعلم

ماخذ: الاسلام سوال و جواب