جمعہ 26 جمادی ثانیہ 1446 - 27 دسمبر 2024
اردو

محرم شخص سے سرزد ہونے والی غلطیاں

سوال

ہم بذریعہ ہوائي جہاز جدہ آتے ہيں توکیا ہمارے لیے جائز ہے کہ ہم جدہ پہنچنے تک حج کا احرام مؤخر کرلیں ؟

جواب کا متن

الحمد للہ.

شیخ ابن عثيمین رحمہ اللہ تعالی کہتے ہیں :

وہ غلطیاں جوبعض حجاج کرام سے احرام کے سلسلہ میں سرزد ہوتی ہیں:

پہلامعاملہ :

میقات سےاحرام نہ باندھنا ، بعض حجاج کرام اورخاص کرفضائي راستے سے آنے والے جدہ اترنے تک احرام نہیں باندھتے اورمیقات سے احرام باندھنا ترک کردیتے ہیں ،حالانکہ وہ میقات کے اوپرسے گزرتے بھی ہیں ،اورنبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اہل میقات کےلیے میقات مقرر فرمادیے ہیں :

فرمان نبوی صلی اللہ علیہ وسلم ہے :

( یہ اہل میقات کے لیے اوران کے لیے ہیں جویہاں سے گزریں ان کے لیے بھی میقات ہے ) صحیح بخاری حدیث نمبر ( 1524 ) صحیح مسلم حدیث نمبر ( 1181 ) ۔

اورصحیح بخاری میں عمربن خطاب رضي اللہ تعالی عنہ سے مروی ہے کہ جب ان سے اہل عراق نے شکایت کی کہ اہل نجد کے لیے جونبی صلی اللہ علیہ وسلم نے میقات مقرر کیا ہے وہ ان کے راستہ سے دود اورراستے سے ہٹ کرہے توعمررضي اللہ تعالی عنہ نے فرمایا تھا : تم اس کےمحاذي اپنے راستےمیں اس کے برابر دیکھ لو ( یعنی اس کی محاذات سے احرام باندھ لیا کرو ) صحیح بخاری حدیث نمبر ( 1531 ) ۔

تویہ اس بات کی دلیل ہے کہ میقات کے برابروالی جگہ سے احرام باندھنا میقات سے ہی گزرنے کی مانند ہے ، لھذا جوکوئي بھی ہوائی جہازکے ذریعہ میقات کے برابر سے گزررہا ہو تواسے مقیات کی محاذی جگہ سے ہی احرام باندھ لینا چاہیے ، اوراس کے لیے یہ جائز نہيں کہ وہ بغیر احرام باندھے ہی میقات سے گزرے اورجدہ اتر کراحرام باندھے ۔

اس غلطی کوصحیح کرنے کا طریقہ یہ ہے کہ انسان اپنے گھر سےیا پھر ہوائي اڈے سے غسل کرلے اورہوائي جہاز میں تیار رہے اورمیقات سے پہلے اپنا عام لباس اتار کراحرام کی چادریں پہن لے اورعمرہ یا حج میں سے جوبھی کرنا ہواس کا تلبیہ کہ لے ، اوراس لیے بالکل یہ جائز نہيں کہ وہ جدہ پہنچنے تک احرام نہ باندھے کیونکہ ایسا کرنا غلط ہے ، اورجمہوراہل علم کے ہاں ایسا کرنے پراس کےذمہ دم لازم آتا ہے جومکہ میں ذبح کرکے حرم کے فقراء مساکین میں تقسیم کیا جائے گا ، کیونکہ اس نے ایک واجب ترک کیا ہے ۔

دوسرا معاملہ :

بعض لوگ یہ اعتقاد رکھتے ہيں کہ احرام کے وقت جوتے ہونا ضروری ہیں ، اوراگراحرام باندھتے وقت اس نے جوتے نہ پہنے ہوں توپھر وہ جوتے نہيں پہن سکتا ، لیکن یہ اعتقاد خاطئی ہے کیونکہ جوتوں اورچپلوں میں احرام نہ توشرط ہے اورنہ ہی واجب ، اس لیے چپلوں کےبغیربھی احرام ہوجاتا ہے اوراس میں کوئي ممانعت نہيں کہ احرام باندھتے وقت اس نے جوتے نہيں پہنے تھے لھذا وہ بعد میں بھی نہيں پہن سکتا بلکہ اس کےلیے بعد میں بھی جوتے پہننا جائزہیں اگرچہ اس نے احرام کے وقت نہ بھی پہنے ہوں اس میں کوئي حرج والی بات نہيں ۔

تیسرامعاملہ :

بعض لوگ یہ خیال کرتے ہيں کہ احرام کا لباس ہی ضروری ہے اورحلال ہونے تک وہ اسی لباس میں رہے گا اوراحرام کاوہ لباس تبدیل نہیں کرسکتا ، لیکن یہ اعقتاد اورخیال بھی غلط ہے ، اس لیے کہ احرام والا اپنے احرام کی چادریں اورلباس تبدیل کرسکتا ہے اورایسا کرنا اس کےلیے جائز ہے چاہے وہ لباس کسی سبب کی بنا پرتبدیل کیا جائے یا بغیر سبب کے ہی بدل لے ، لیکن صرف اتنا ہے کہ وہ اسے اسی لباس میں تبدیل کرے جواس کے لیے پہننا جائز ہے ( یعنی دوسری چادریں پہن لے )

اس میں مرد اورعورت کے مابین کوئي فرق نہيں لھذا جوکوئي بھی احرام باندھ لے اوراسے تبدیل کرنا چاہے وہ اسے تبدیل کرسکتا ہے ، لیکن بعض اوقات اس لباس کوتبدیل کرنا واجب بھی ہوجاتا ہے مثلا اگر اس لباس کوایسی نجاست لگ جاتی ہے جسے اتارنے کے بغیردھوناہی ممکن نہيں ، یابعض اوقات اس کا اتارنا بہتر اورافضل ہوتا ہے مثلا اگر وہ نجاست کے بغیر ہی گندے ہوچکے ہوں تواس حالت میں ضروری ہے کہ صاف ستھرا احرام پہن لیاجائے ۔

اوربعض اوقات تویہ معاملہ بہت ہی وسیع ہوتا ہے چاہے تواحرام کا لباس تبدیل کرلے اورچاہے تووہ پہنے رکھے ، اہم بات یہ ہے کہ ایسا اعتقاد رکھنا صحیح نہيں کہ حاجی جب احرام باندھے لے اس لیے احرام ختم ہونے تک اسے بدلنا جائز نہيں ، یہ اعتقاد غلط ہے ۔

چوتھا معاملہ :

بعض لوگ احرام باندھتے وقت ہی اضطباع کرلیتے ہيں یعنی جب احرام کی نیت کرتے ہیں تووہ اضطباع کرلیتے ہیں ، اوراضطباع یہ ہے کہ انسان اپنے دائيں کندھے کے نیچے سے احرام کی چادر نکال کراپنے بائيں کندھے پرڈالے اوردایاں کندھا ننگا رکھے ، لھذا ہم بہت سے حجاج کرام کودیکھتے ہیں کہ وہ احرام باندھنے سے لیکر حلال ہونے تک اضبطاع کی حالت میں ہی رہتے ہیں ، جوکہ ایک غلط کام ہے کیونکہ اضطباع توصرف طواف قدوم میں ہی کیا جاتا ہے ، نہ توطواف سے پہلے اورنہ ہی بعد میں اورنہ سعی میں بلکہ صرف طواف قدوم میں ہی اضطباع کرنا ضروری ہے ۔

پانچواں معاملہ :

بعض لوگوں کا یہ اعتقاد ہے کہ احرام باندھتے وقت دو رکعات ادا کرنا واجب ہے ، یہ اعتقاد بھی غلط ہے ، کیونکہ احرام کے وقت انسان پردورکعت کی ادائيگي واجب نہيں ، بلکہ اس میں راجح قول تویہی ہے کہ احرام کے لیے خاص کوئي نماز نہيں ہے ، اسے شیخ الاسلام ابوالعباس ابن تیمیہ رحمہ اللہ نے اختیار کیا ہے ، کیونکہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے ایسا کرنا ثابت نہيں ہے ۔

لھذا جب انسان غسل کرلے توبغیرنماز کی ادائيگي کےہی احرام کی چادریں پہنے ، لیکن اگر نماز کا وقت ہو یعنی فرضی نماز کا وقت قریب ہو یا وقت ہوچکا ہو اوروہ میقات پرنماز تک کے لیے رکنا چاہے توپھر بہتراورافضل یہی ہے کہ وہ فرضي نماز کے بعد احرام کی نیت کرے ، لیکن احرام کے لیے جان بوجھ کرنماز کی ادائيگي صحیح نہيں کیونکہ اس میں راجح اورصحیح قول یہی ہے کہ احرام کے ساتھ خاص نماز کوئي نہيں کہ احرام باندھتے وقت اس کی ادائيگي ضروری ہو ۔انتھی ۔ .

ماخذ: کتاب " الدلیل الاخطاء التی یقع فیھا الحاج والمعتمر