جمعہ 26 جمادی ثانیہ 1446 - 27 دسمبر 2024
اردو

بيرا پينے كا حكم

33763

تاریخ اشاعت : 03-06-2008

مشاہدات : 7115

سوال

بيرا پينے كا حكم كيا ہے، يہ علم ميں رہے كہ بيرا كى دو قسميں ہيں، ايك تو الكحل پر مشتمل ہے، اور دوسرى قسم ميں الكحل نہيں پائى جاتى، تو كيا يہ نشہ آور اشياء ميں شامل ہوتا ہے ؟

جواب کا متن

الحمد للہ.

بيرے كى دونوں قسموں ميں فرق كرنا ضرورى ہے:

پہلى قسم:

نشہ آور بيرا جو بعض ممالك ميں فروخت كيا جاتا ہے، تو يہ بيرا شراب ہے اور اس كى خريد و فروخت اور پينا حرام ہے.

نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كا فرمان ہے:

" ہر نشہ آور خمر ( يعنى شراب ) ہے، اور ہر نشہ آور حرام ہے "

صحيح مسلم حديث نمبر ( 2003 ).

اس كى كثير مقدار پينا بھى حرام ہے، اور قليل مقدار بھى چاہے ايك قطرہ ہى ہو، كيونكہ رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم كا فرمان ہے:

" جس كى كثير مقدار نشہ آور ہو تو اس كى قليل مقدار بھى حرام ہے "

سنن ترمذى حديث نمبر ( 1865 ) علامہ البانى رحمہ اللہ نے صحيح ترمذى ميں اسے صحيح كہا ہے.

دوسرى قسم:

غير نشہ آور بيرا، يا تو وہ بالكل الكحل سے خالى ہو، يا پھر اتنى قليل سى الكحل ہو كہ وہ نشہ كى حد تك نہ پہنچ سكے چاہے اس كى كتنى بھى زيادہ مقدار انسان پيئے تو اسے نشہ نہ آئے تو اس كے متعلق علماء كرام نے حلال كا فتوى ديا ہے.

شيخ ابن عثيمين رحمہ اللہ كہتے ہيں:

" ہمارى ماركيٹوں ميں جو بيرا موجود ہے وہ حلال ہے، كيونكہ ذمہ داران كى جانب سے چيك كردہ ہے، اور بالكل الكحل سے خالى ہے، اور ہر كھانے پينے اور پہننے والى اشياء ميں حلت ہے حتى كہ اس كى حرمت كى كوئى دليل ثابت ہو جائے.

كيونكہ اللہ سبحانہ و تعالى كا فرمان ہے:

وہ اللہ جس نے زمين كى سارى چيزوں كو تمہارے ليے پيدا كيا البقرۃ ( 29 ).

تو جو انسان بھى كسى چيز كے متعلق كہے كہ يہ پينے والى يا كھانے والى يہ چيز حرام ہے، يا يہ لباس حرام ہے تو آپ اسے كہيں كہ: آپ اس كى دليل ديں، اگر تو وہ اس كى دليل دے تو دليل كے مقتضى پر عمل كيا جائيگا، اور اگر وہ دليل نہ دے تو اس كا قول مردود ہے مانا نہيں جائيگا.

كيونكہ اللہ تعالى كا فرمان ہے:

اللہ وہ ہے جس نے زمين كى سارى اشياء كو تمہارے ليے پيدا كيا ہے البقرۃ ( 29 ).

ہر وہ چيز جو زمين ميں ہے وہ اللہ تعالى نے ہمارے ليے پيدا كى ہے، اور اس عموم كى " جميعا " كے قول كے ساتھ تاكيد كى ہے، اور پھر اللہ سبحانہ و تعالى كا فرمان يہ بھى ہے:

اور اللہ تعالى نے اس كى تفصيل بتا دى ہے جو تم پر حرام كيا ہے الانعام ( 119 ).

تو حرام چيز كے ليے ضرورى ہے كہ اس كى حرمت كى تفصيل اور معروف ہو، تو جو ايسى نہيں وہ حرام نہيں ہو گى، چنانچہ حرمين كى ہمارى ماركيٹوں ميں موجود بيرا حلال ہے، ان شاء اللہ اس ميں كوئى اشكال نہيں.

اور يہ گمان مت كريں كہ شراب كا كچھ تناسب بھى كسى چيز ميں پايا جائے تو اسے حرام كر ديگا، بلكہ اگر اتنا تناسب ہو كہ وہ اثرانداز ہو يعنى اگر انسان اس شراب سے مخلوط چيز كو پيئے تو نشہ آ جائے تو يہ حرام ہو گا، ليكن اگر وہ تناسب اتنا قليل ہو كہ اس كا اثر ختم ہو جائے اور تو يہ حلال ہے.

اور بعض لوگ يہ خيال كر بيٹھے ہيں كہ رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم كا فرمان:

" جس كى كثير مقدار نشہ آور ہو تو اس كى قليل مقدار بھى حرام ہے "

اس كا معنى يہ ہے كہ: جو قليل سى چيز بھى كسى دوسرى ميں ملائى جائے تو وہ حرام ہے، چاہے جس ميں ملائى جارہى ہے وہ كثير ہى ہو، يہ سمجھ اور خيال غلط ہے، چنانچہ حديث: " جس كى زيادہ مقدار نشہ آور ہو تو اس كى قليل مقدار بھى حرام ہے " كا معنى يہ ہے كہ:

يعنى وہ چيز اگر زيادہ مقدار ميں استعمال كى جائے تو اس سے نشہ ہو جائے، اور اگر اس كى مقدار كم كى جائے تو نشہ نہ ہو، تو اس كى قليل اور كثير مقدار حرام ہو گى، كيونكہ ہو سكتا ہے آپ قليل مقدار پيئں جس سے نشہ نہ ہو، اور پھر وہ چيز آپ كو دعوت دے تو آپ زيادہ مقدار پى ليں تو نشہ آ جائے، ليكن جس چيز ميں نشہ آور چيز ملائى گئى ہو اور اس كى نسبت بہت ہى قليل ہو اور وہ اس پر اثرانداز نہ ہوتى ہو تو يہ حلال ہے، اور اس حديث كے تحت داخل نہيں ہوتى " اھـ

الباب المفتوح ( 3 / 381 - 382 ).

واللہ اعلم .

ماخذ: الاسلام سوال و جواب