اتوار 21 جمادی ثانیہ 1446 - 22 دسمبر 2024
اردو

اہل کتاب سے تعلق رکھنے والی بیوی کے ساتھ معاملات کرنا

33862

تاریخ اشاعت : 03-03-2004

مشاہدات : 19167

سوال

سورۃ المائدہ کی وہ آیت میں جس میں یھود ونصاری کواولیاء و دوست بنانے کی حرمت بیان کی گئي ہے ، کیا اس کا معنی یہ ہے کہ ہم انہیں دوست اورحمایتی بھی نہ بنائيں ؟
کیونکہ بعض کا یہ کہنا ہےکہ : کہ آیت میں صرف مدد وتعاون کرنے کی حرمت پر دلالت کرتی ہے ، لیکن قرآن مجید کے انگلش ترجمہ میں اس کا معنی دوستی کیا گيا ہے ، توپھر ہم غیر مسلم بیوی سے کس طرح محبت کرسکتے اوراس سے شریعت اسلامیہ کے مطابق کس طرح معاملات کرینگے ؟

جواب کا متن

الحمد للہ.

الحمدللہ

یھود ونصاری اوردوسرے کفار کے ساتھ معاملات کرنےمیں شریعت اسلامیہ نے کچھ قواعد وضوابط اورقانون وضع کیے ہيں ان میں کچھ کو ہم ذيل میں آپ کے سامنے بیان کرتے ہيں :

اول :

کافر کے ساتھ مباح امور اورمعاملات میں بات چیت کی جاسکتی ہے ۔

دوم :

کافر کودوست اورولی نہیں بنایا جاسکتا ، کافرکودوست اورولی بنانے کی کئي ایک شکلیں اور صورتیں ہيں جن میں سے چندایک یہ ہیں :

ان سے مانوس ہوکران میں گھل مل جانا اوران کے ساتھ رہنا ، یا پھر انہیں دوست بنانا اوراپنے دلی دوست بنانا ، یا مومنوں کے مقابلہ میں کافروں کوترجیح دینا اورانہیں مقدم رکھنا ، یا ان سے محبت والفت رکھنا ، وغیرہ ۔

اللہ سبحانہ وتعالی کا فرمان ہے :

اللہ تعالی اور روز قیامت پر ایمان رکھنے والوں کوآپ اللہ تعالی اوراس کے رسول ( صلی اللہ علیہ وسلم ) کی مخالفت کرنے والوں سے محبت رکھتے ہوئے ہرگزنہيں پائيں گے ، اگرچہ وہ ان کے باپ یا ان کے بیٹے یا ان کے بھائي یا ان کا کنبہ و قبیلہ کے عزیزہی کیوں نہ ہوں المجادلۃ ( 22 ) ۔

سوم :

خرید وفروخت اورقرض وغیرہ کے معاملات کفار سے کیے جاسکتے ہیں ، نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے یہ ثابت ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے صفوان بن امیہ سے اسلحہ عاریتا حاصل کیا تھا ، اورنبی صلی اللہ علیہ وسلم سے یہ بھی ثابت ہے کہ یھودیوں سے غلہ خریدا تھا ۔

اوراہل کتاب میں سے جوبیوی ہو اس کے ساتھ معاملات کرنے بھی صحیح ہيں ، اس کے بارہ میں اللہ تعالی نے ہمیں کچھ اس طرح فرمایا ہے :

جن لوگوں نے تم سے دین کے بارہ میں لڑائی نہیں لڑی اورتمہیں جلاوطن نہیں کیا ان کے ساتھ حسن سلوک ، احسان اور منصفانہ طورپر بھلے برتاؤ کرنے میں اللہ تعالی تمہیں منع نہیں کرتا ، بلکہ اللہ تعالی تو انصاف کرنے والوں سے محبت کرتا ہے الممتحنۃ ( 8 ) ۔

تواس طرح اہل کتاب میں سے جوبیوی ہو اس کے ساتھ عدل انصاف اوراحسان کرنا جائز ہوا ، اوراس میں کوئي حرج والی بات نہیں ، اورنہ ہی یہ موالاۃ اوردوستی میں شمار ہوتی ہے ۔

کاسانی رحمہ اللہ تعالی نے بدائع الصنائع ( 2 / 270 ) میں کہا ہے :

مسلمان کے لیے جائز نہیں کہ وہ کسی مشرکہ عورت سے شادی کرے اس لیے کہ اللہ سبحانہ وتعالی کا فرمان ہے :

اورمشرک عورتوں سے اس وقت تک شادی نہ کرو جب تک کہ وہ مومن نہ بن جائيں ۔

اورکتابیہ عورت یعنی اہل کتاب یھود ونصاری کی عورت سے شادی کرنا جائز ہے ، اس لیے کہ اللہ تعالی کا فرمان ہے :

اورجولوگ تم سے پہلے کتاب دیے گئے ہیں ان کی پاکدامن عورتیں بھی حلال ہیں ، جب کہ تم ان کے مہر ادا کرو ، اس طرح کہ تم ان کے باقاعدہ نکاح کرو المائدۃ ( 5 ) ۔

فرق یہ ہے کہ اصل میں تو کافرہ عورت سے مسلمان کا نکاح کرنا جائز نہیں ، کیونکہ کافرہ عورت سے شادی اوراس کے ساتھ مخالطہ میں باوجود اس کے دونوں کے مابین دینی دشمنی پائي جاتی ہے محبت ومودت اورسکون نہیں پایا جائے گا جوکہ نکاح کے مقاصد میں شامل ہے ۔

صرف اہل کتاب کی عورت سےاس کے اسلام لانے کی امید پر شادی کرنی جائز قرار دی گئي ہے ، اس لیے کہ وہ اجمالی طورپر پہلے انبیاء اورکتابوں پر ایمان رکھتی ہے ، اورصرف اس کا ایمان تفصیلی بنا پر صحیح نہیں اس بنا پر کہ اسے خلاف حقیقت بتایا گیا ہے اور ظاہر یہ ہوتا ہے کہ جب بھی اسے معاملے کی حقیقت کے بارہ میں بتایا جائے تووہ اس پر متنبہ ہوگی ۔

اس کی حالت سے تویہی ظاہر ہوا ہے جس پر اس کے معاملہ کی بنیاد ہے اوراس کی بیناد خواہشات اورطبعیت پر نہیں ، اورخاوند اسے اسلام کی دعوت دے گا اوراسے حقیقت حال کا بھی بتائے گا تواس کا مسلمان کے نکاح ہونے کا فائدہ یہ ہوا کہ اس کے اسلام لانے کی امید ہوگي تو اس اچھے اوربہتر انجام کی بنا پراس سے مسلمان کا نکاح جائز ہوا ۔

مشرک عورت کے خلاف کیونکہ اس نے اللہ تعالی کے ساتھ شرک خود اختیار کیا ہے اوراس کا انبیاء اوررسل پر ایمان بھی نہیں جو کہ اس بات کی دلیل ہے کہ وہ دلیل اورحجت کومد نظر نہيں رکھتی ، اورنہ ہی دعوت وتبلیغ کے وقت اس کی طرف متوجہ ہی ہوتی ہے ، بلکہ وہ اپنے اباء واجداد کی تقلید اوراپنے نفس کی خواہش پر جمی رہتی ہے ۔

تو اس طرح کافرہ اورمشرکہ عورت سے شادی کرنا اس بہت اوراچھے انجام سے خالی ہے اوراس کے ساتھ ساتھ ان میں دینی دشمنی بھی پائي جاتی ہے جس کی وجہ سے محبت ومودت بھی قائم نہیں ہوگي تواس لیے ان کا آپس میں نکاح کرنا جائز نہیں ۔ ا ھـ کچھ کمی بیشی کے ساتھ ۔

اوراپنی کتاب " حاشیۃ العدوی ( 1 / 273 ) میں کچھ اس طرح رقمطراز ہيں:

یہ قول ( اورہم اسے چھوڑتے ہیں جو تیرے ساتھ کفر کا ارتکاب کرتا ہے ) یعنی ہم تیری علاوہ کسی اورکی عبادت کرنے والے سے محبت نہیں کرتے ، اورنہ ہی اس کی دین سے محبت کرتے اور نہ ہی اس کی طرف مائل ہی ہوتے ہیں ۔

اوریہ کتابی عورت سے نکاح کرنے میں معارض اورمخالفت نہیں کیونکہ کتابی عورت سے شادی کرنے میں اس کا میلان ہے اوراس سے نکاح معاملات میں سے ہے ، اورمراد دین سے بغض ہے ۔ ا ھـ ۔

آپ مزيد تفصیل اورفائدہ کے لیے سوال نمبر ( 34559 ) اور سوال نمبر ( 11793 ) اور ( 10342 ) اور ( 26721 ) اورسوال نمبر ( 23325 ) کا بھی مراجعہ کریں ۔

واللہ اعلم .

ماخذ: الاسلام سوال و جواب