جمعرات 20 جمادی اولی 1446 - 21 نومبر 2024
اردو

(عورت سے شادی چار اشیاء کی وجہ سے کی جاتی ہے۔۔۔)حدیث کی شرح

34170

تاریخ اشاعت : 20-01-2014

مشاہدات : 46007

سوال

مجھے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے فرمان(عورت سے شادی چار اشیاء کی وجہ سے کی جاتی ہے، مال، حسن، خاندان اور دین ) کی سمجھ نہیں آئی، تو کیا اسکا مطلب یہ ہے کہ جب عورت مالدار، خوبصورت، حسب نسب والی اور دین دار ہو تب ہی اس سے شادی کی جاسکتی ہے؟ دینداری کی بات تو سمجھ میں آتی ہے لیکن باقی میری سمجھ سے باہر ہیں انہیں کیوں لازمی قرار دیا گیا ہے؟

جواب کا متن

الحمد للہ.

یہ حدیث بخاری (4802) اورمسلم (1466) نے ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے بیان کی کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: (عورت سے شادی چار اشیاء کی وجہ سے کی جاتی ہے، اس کے مال، حسب نسب، حسن، اور دین کیوجہ سے، دین دار کو پا لو تمہارے ہاتھ خاک آلود کر دے گی)

اس حدیث میں کسی بھی حسین ، یا حسب نسب والی یا مالدار خاتون سے نکاح کی ترغیب نہیں ہے۔

بلکہ اس حدیث کا معنی ہےکہ لوگ شادی کیلئے ان چار مقاصد کو سامنے رکھتے ہیں، کچھ تو حُسن تلاش کرتے ہیں، اور کچھ اچھا خاندان، اور کچھ مال کے بھوکے ہوتے ہیں، اور کچھ لوگ دینداری کی وجہ سےشادی کرتےہیں، اسی آخری کے بارے میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ترغیب دلائی ہےاور فرمایا: (دین دار کو پا لو تمہارے ہاتھ خاک آلود کر دے گی)

نووی رحمہ اللہ نے شرح مسلم میں کہا:

"اس حدیث کا صحیح معنی یہی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے لوگوں کے متعلق بتلایا ہے کہ وہ شادی کرتے وقت کیا کرتے ہیں، تو عام طور انہی چار چیزوں کو مدّ نظر رکھا جاتا ہے، چنانچہ لوگوں کے ہاں آخری چیز دینداری ہے، راہنمائی کے طالب! تم دیندار کو ہی پسند کرنا، کہ تمہیں اسی کا حکم دیا جا رہا ہے۔۔۔ یہ حدیث ہر چیز میں دیندار لوگوں کی صحبت پر زور دے رہی ہے، کہ انسان انکی صحبت میں رہ کر انکے اخلاق، حسن معاملہ سے مستفید ہوتا ہےاور اُسے اِن کی طرف سے کسی نقصان کا ڈر نہیں ہوتا" انتہی مختصراً

مبارکپوری رحمہ اللہ تحفۃ الاحوذی میں فرماتے ہیں:

"قاضی رحمہ اللہ نے کہا: لوگوں کی عادت ہے کہ وہ خواتین کی مذہبی اور معاشرتی مناسبت سے انکی خاص صفات کو مدّ نظر رکھتے ہیں، جبکہ دین کو بنیادی حثییت ہونی چاہے کہ اسی کی بنیاد پر اپنایا جائے اور چھوڑا جائے، خصوصی طور پر وہ خصال جو دیر پا ہوں، اور اثرات زیادہ ہوں" انتہی

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے فرمان: (تمہارے ہاتھ خاک آلود کر دیگی) کے معنی میں بہت زیادہ آراء پائی جاتی ہیں، چنانچہ نووی نے شرح مسلم میں فرمایا:

"محققین کے ہاں سب سے قوی اور صحیح ترین قول یہ ہے کہ اس کا معنی اصل میں ہاتھوں کے خالی ہونے کے مترادف ہے، لیکن عرب کے ہاں کچھ کلمات استعمال کئے جاتے ہیں لیکن ان کا اصل معنی مراد نہیں ہوتا، جیسے "تربت یداک" تیرے ہاتھ خاک آلود ہوں، "قاتلہ اللہ"اللہ اسے برباد کرے، "ما اشجعہ"بڑا بہادر ہے، "لا أم له"اسکی ماں مرے، "لا أب لك"تیرا باپ نہ رہے، "َثَكِلَتْهُ أُمّه"تیری ماں تجھے گم پائے، "َوَيْل أُمّه" اسکی ماں ہلاک ہو، وغیرہ ، یہ الفاظ کسی چیز کے انکار ، ڈانٹ ڈپٹ ، مذمت، تعظیم، ترغیب، اور پسندیدگی کے اظہار کیلئے استعمال کئے جاتے ہیں۔ واللہ اعلم" انتہی .

ماخذ: الاسلام سوال و جواب